کراچی – صوبہ سندھ کے ضلع بدین کے علاقے ملکانی سے تعلق رکھنے والے بائیس سالہ راجندر مینگھواڑ کا نام سی ایس ایس کے امتحان اور انٹرویو میں پاس ہونے کے بعد پولیس گروپ میں آیا ہے
راجندر نے انٹر مٹھی کالج اور ماسٹرز سندھ یونیورسٹی سے کیا ہے
راجندر مینگھواڑ کا کہنا ہے کہ ’میرے دادا تعلیم یافتہ نہیں تھے، ان کی جوتوں کی دکان تھی، والد اپنے خاندان کے پہلے گریجویٹ اور ڈاکٹر ہیں، ہماری مینگھواڑ کمیونٹی کے پاس نہ کوئی پراپرٹی ہے اور نہ زرعی زمین، ان کے پاس تعلیم اور ملازمتوں کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں۔‘
راجندر نے بتایا کہ وہ جب کالج میں زیر تعلیم تھے، تو وہاں دھرمو مل بھوانی آئے تھے، جو ڈی ایم جی گروپ کے افسر تھے، ان سے متاثر ہو کر انہوں نے سی ایس ایس کا ارادہ کیا
وہ کہتے ہیں کہ ’سی ایس ایس میرا خواب تھا، میں انگریزی ناول پڑھتا، انگریزی اخباروں کا مطالعہ کرتا اور بی بی سی ریڈیو سنتا. انٹر کے بعد میرا داخلہ مہران انجینیئرنگ یونیورسٹی میں ہوا، لیکن میں انگریزی ادب پڑھنا چاہتا تھا
’والد سے مشورہ کیا اور بتایا کہ میں سی ایس ایس میں دلچسپی رکھتا ہوں، تو انہوں نے کہا جو آپ بہتر سمجھیں وہ فیصلہ کریں، تو میں نے انگریزی ادب کا انتخاب کیا۔ یونیورسٹی میں پہنچے تو شعور آتا رہا کہ سول سروسز کیا ہوتی ہے، اس میں کیا چیلینجز ہوتے ہیں۔‘
سندھ میں اس وقت ہندوؤں میں مینگھواڑ کمیونٹی کے نوجوانوں میں شرح خواندگی متاثر کن ہے اور اس وقت اس کمیونٹی کے نوجوان، فوج، میڈیکل، انجینیئرنگ اور تدریس سمیت زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہیں
حکومت سندھ کے مرتب کردہ انسائیکلوپیڈیا سندھیانا کے مطابق مینگھواڑ ہندوؤں کی نچلی ذات میں شامل کی جاتی ہے، جو دراصل راجپوتانا کے رہائشی ہیں۔ یہ بعد میں سندھ میں آ کر آباد ہوئے۔ یہ کمیونٹی موچی کا کام کرتی تھی اور ان کی ذاتیں راجپوتوں سے ملتی ہیں، جیسے راٹھوڑ، چوہان، سولنکی، اور یہ پرماریہ مھادیو اور رام دیو عرف راما پیر کے پیروکار ہیں
محقق و صحافی معصوم تھری کا کہنا ہے کہ مینگھواڑ کمیونٹی بھی ان دراوڑ قبائل میں شامل ہے، جو یہاں کے قدیمی لوگ ہیں۔ جب آریا اس خطے میں آئے تو انہوں نے ان کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دیے، جس کی وجہ سے وہ پسماندگی کی طرف دھکیلے گئے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا، جب تک انگریز اس خطے میں نہیں آئے
’انگریزوں نے ایک شیڈول پاس کیا اور اس میں ان کمیونٹیز کو شامل کیا جن کو اچھوت سمجھا جاتا تھا اور انہیں تعلیم کی سہولیات فراہم کیں، ان کمیونٹیز میں کولھی، بھیل، باگڑی سمیت دیگر بھی شامل تھے، لیکن مینگھواڑ سب سے بڑی کمیونٹی تھی۔‘
مینگھواڑ کمیونٹی کے آگے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا تعلق مارکیٹ اور شہروں سے تھا، کیونکہ یہ ایک ہنر مند قبیلہ ہے، جبکہ دیگر قبائل جیسے کولھی بھیل وغیرہ ان کا تعلق دیہی علاقے اور زراعت سے تھا، لہٰذا مینگھواڑوں کو شہروں کی وجہ سے تعلیم کے حصول کے زیادہ مواقع میسر ہوئے
تقسیمِ ہند سے قبل کانگریس نے شیڈول کاسٹ کی تعلیم کے لیے کئی اسکول قائم کیے جنھیں ہریجن سکول کا نام دیا گیا ان سکولوں سے کئی طالب علموں نے خاصی ترقی کی
ان میں کانگریس کے مشہور رہنما کامریڈ سگل چند بھی شامل تھے، جن کا تعلق ننگر پارکر سے تھا. وہ تحصیل دار رہے اور انہوں نے بعد میں ملازمت سے مستعفی ہو کر رانا چندر سنگھ کے خلاف انتخاب میں حصہ لیا تھا
معصوم تھری کا کہنا ہے کہ ’سندھ کی بمبئی (موجودہ ممبئی) سے علیحدگی کے بعد مینگھواڑ کمیونٹی نے تعلیم کی طرف راغب ہونا شروع کیا، جو ابتدائی تعلیم ہوتی تھی، وہ حاصل کی کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وسائل میسر نہیں تھے، اس ابتدائی تعلیم کے بعد کئی تعلیم کے شعبے سے جڑ گئے اور اس طرح استاد بن گئے
’1970 کی دہائی سے کچھ پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے یوں یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور تعلیم کے شعبے سے جڑنے کی وجہ سے یہ تبدیلی آئی۔‘
ایسے ہی ایک سی ایس ایس پاس وفاقی افسر گوبند مینگھواڑ کہتے ہیں کہ ’ہم دھتکارے ہوئے لوگ تھے، سی ایس ایس ایسا ذریعہ تھا، جس سے ہمارے اپنے اور خاندان کے سماجی اور معاشی مسائل حل ہو سکتے تھے اور ترقی کی نئی راہیں کھل گئیں
’یہ دھتکار نہ صرف سماج میں بلکہ ہمارے اپنے دھرم کے لوگوں میں مذہبی تفریق کی وجہ سے بھی موجود تھی۔ اس صورتحال میں صرف تعلیم واحد راستہ تھا، جو ہمیں اوپر لا سکتا تھا، اس لیے مینگھواڑ کمیونٹی نے یہ راستہ اپنایا، اس سب کے لیے ہمارے والدین جو پہلی یا دوسری نسل سے تھے، انہوں نے قربانیاں دیں اور نتیجے میں ہم اس مقام پر پہنچے ہیں۔‘
کیا یہ افسران کمیونٹی کے مددگار ہوتے ہیں؟ اس حوالے سے ایس ایس پاس کر کے ڈی ایم جی گروپ حاصل کرنے والےدھرمو مل مینگھواڑ بتاتے ہیں کہ کمیونٹی سطح پر بالکل مدد فراہم کی جاتی ہے
دھرمو مل مٹھی میں جواہر لال کی مثال دیتے ہیں، جو ٹیچر ہیں، لیکن وہ پسماندہ بچوں کو انگریزی سکھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے ان بچوں کے لیے ایسا نصاب بنایا ہے تاکہ انہیں سی ایس ایس امتحانات میں آسانی ہو، ان کے طالب علم پوزیشن ہولڈر ہیں اور کئی اسکالر شپ پر پڑھ رہے ہیں۔‘
’میں ذاتی پر خود بھی وقت دیتا ہوں، ہم بچوں کو بتاتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں ٹیوشن پڑھائیں، میڈیکل، انجنیئرنگ کے علاوہ بھی فیلڈ ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’نوجوان ایک دوسرے کو دیکھ کر بھی آگے بڑھتے ہیں، جیسے کئی تھر کے بچے اس وقت بیرون ملک سکالرشپ پر پڑھ رہے ہیں۔ ایک بچہ دیکھتا ہے کہ اگر ایک کسان کا بیٹا باہر جا کر پڑھ سکتا ہے تو وہ کیوں نہیں جا سکتا۔
’دوسری بات یہ ہے کہ اسکالرشپ کے حصول کے لیے جی آر ای کے لیے انگریزی، میتھس اور فزکس کی ضرورت ہے جس میں یہ بچے ماہر بن جاتے ہیں۔‘
’پہلے کہتے تھے پتہ نہیں لپ اسٹک لگا کر کہاں جاتی ہے، اب کہتے ہیں یہ تو ہماری بہو ہے‘
تاہم راجندر مینگھواڑ کہتے ہیں کہ ’کمیونٹی سپورٹ کوئی خاص نہیں ہے، کوئی منظم سپورٹ پروگرام نہیں جو لوئر کلاس کی مدد کرتا ہو، لیکن انفرادی سپورٹ حاصل ہو جاتی ہے، اگر آگے بڑھنے والا بندہ ہو تو یہ بھی کافی ہوتا ہے۔‘
جیون لال نے بھی رواں سال سی ایس ایس پاس کیا ہے اور انہیں کسٹم گروپ دیا گیا ہے۔ ان کے دادا پرائمری پاس تھے، والد میٹرک تک پڑھ سکے جبکہ بھائی انجینیئر اور سرکاری ملازمت میں ہیں۔ ان کا تعلق تھر کی تحصیل چھاچھرو سے ہے
ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ دھرمو مل سے متاثر ہوئے تھے اور سوچا تھا کہ اس سے وہ مین اسٹریم میں آ سکتے ہیں
وہ کہتے ہیں کہ ’کمیونٹی میں مدد کا کوئی نظام موجود نہیں تاہم انفرادی مدد حاصل ہوتی ہے لیکن جب کوئی ہماری کمیونٹی کا شخص کسی منصب پر پہنچتا ہے تو کمیونٹی سمجھتی ہے کہ ہمارا کوئی وہاں موجود ہے۔‘
گوبند مینگھواڑ کہتے ہیں کہ ’کمیونٹی کو اس طرح فائدہ ہوتا ہے کہ کسی ضلع میں کوئی افسر اگر ہمارا کوئی جان پہچان والا ہے اور اس میں ہماری کمیونٹی کے کسی بندے کا کام ہو تو ہمارے ریفرنس کی وجہ سے وہ کام نسبتاً جلدی ہو جاتا ہے. یہ معاشرے کا کڑوا سچ ہے کہ واسطے اور تعلقات سے کاموں میں آسانی ہوتی ہے۔‘
معصوم تھری کہتے ہیں کہ ’جو لوگ آگے بڑھے ہیں، ان کی کلاس تبدیل ہوئی تو ان کے درمیان بھی وہ ہی فاصلے آ رہے ہیں، جو اس سے قبل اپر کاسٹ اور لوئر کاسٹ کے تفریق کی وجہ سے تھے، جس کا سامنا مینگھواڑ کمیونٹی کر رہی تھی جو رجحان کافی منفی ہے۔
معصوم تھری نے کہا ”اس تعلیم سے لوگوں کو بطور کمیونٹی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ انفرادی طور پر زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔“