ماسکو /واشنگٹن – روس نے ماسکو میں امریکی سفارتی مشن کے ڈپٹی سربراہ بارٹ گورمن کو ملک بدر کردیا، جس کی تصدیق کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ نے ملک بدری کو بلاوجہ قرار دیا ہے
روس کا یہ اقدام امریکا اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات کے بعد سامنا ہے آیا، امریکا کو خدشہ ہے کہ ماسکو یوکرین پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ امریکا کا کہنا ہے ”روس یوکرین پر حملے کا بہانہ تلاش کر رہا ہے“
واضح رہے کہ بارٹ گورمن ماسکو میں واقع امریکی سفارتخانے میں دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے پاس اوپن ویزا ہے، انہوں نے ماسکو میں تین سال سے بھی کم عرصے کے لیے کام کیا ہے
واشگٹن نے ماسکو پر غلط معلومات سے دنیا کی رہنمائی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو نے اپنے فوجی دستے واپس بیسز میں بھیجنے کے بجائے یوکرین کی متنازعہ سرحد پر مزید سات ہزار فوجی شامل کردیے ہیں
ملک کے مشرق میں موجود یوکرینی فورسز کو روس کی حمایت یافتہ فورسز کے علیحدہ کرنے والی لائن پر کشیدگی میں گزشتہ روز سے اضافہ ہوا ہے، دونوں فریقین کی جانب سے شدید گولہ باری کا الزام لگایا جارہا ہے
امریکی نیٹو اتحادی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اب تک روس کی جانب سے فوجی ہٹانے سےمتعلق وعدے کا کوئی اشارہ نہیں دیکھا
برسلز میں قائم نیٹو ہیڈ کوارٹرز میں موجود امریکی سیکریٹری دفاع ایل لوئیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ ’میں نے دیکھا ہے کہ ان میں کچھ فوجی دستے سرحد کے قریب ہیں، ہم نے انہیں جنگی طیاروں میں دیکھا‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے بلیک سی میں دیکھا کہ انہوں (روس) نے اپنی تیاری تیز کرتے ہوئے خون کا ذخیرہ کرنا شروع کردیا ہے، میں خود بھی فوجی رہا ہوں اور میں اپنے تجربات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب بلاوجہ نہیں ہے، ہم نے اس طرح کی چیزیں کبھی بلاوجہ نہیں ہوتے دیکھیں، اور اگر آپ سب ختم کر کے گھر جانے کی کوشش کر رہے ہوتے تو آپ ایسا بالکل نہیں کرتے‘
واضح رہے کہ روس نے سفارت کاری کی پیشکش کرتے ہوئے امریکا کو یورپ میں میزائلوں کی تعیناتی کو محدود کرنے، فوجی مشقوں پر پابندیوں اور اعتماد سازی کے دیگر اقدامات پر بات چیت میں شامل ہونے کی پیشکش کا جواب بھی دیا ہے
امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے نیو یارک میں اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل اجلاس اور اس کے بعد جرمنی کے لیے میونخ کانفرنس کی سربراہی کی، روس نے یوکرین اور وسیع تر یورپی سلامتی کے بارے میں امریکی تجاویز پر طویل انتظار کے بعد جوابات دیے
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ روس نے یہ جوابات ماسکو میں امریکی سفیر جوہن سولیوان کو جمع کروائے ہیں
اس حوالے سے برسلز میں مغربی اتحادیوں کے اجلاس سے قبل برطانوی سیکریٹری دفاع بین والیس کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دیکھا کے بیان کے برعکس اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کم از کم سات ہزار فوجیوں میں اضافہ ہوا ہے‘
برطانوی وزیر برائے مسلح فورسز جیمز ہیپی نے روس کے فوج ہٹانے کے دعوے کو غلط معلومات قرار دیا، جبکہ روس کی جانب سے بھی مغرب پر یہ ہی الزامات لگائے گئے ہیں
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولین برگ کا کہنا تھا کہ روس کے پاس موجود فوج اور صلاحیت مختصر وقت کے انتباہ کے بعد پورے یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے کافی ہے
ان کا کہنا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک جنگی ٹینک کو ٹرین پر ڈال رہے ہیں اور اسے کسی سمت میں لے جا رہے ہیں، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فوجیوں کا انخلا ہوگیا ہے‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم بہت سنجیدہ ہیں اور ہمیں اس وقت لاحق اس خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا‘
واضح رہے کہ ماسکو نے بارہا کہا ہے کہ کچھ روسی افواج یوکرین کی سرحد سے واپس اپنی بیس کی طرف جا رہی ہیں، لیکن آزادانہ جائزہ لیتے ہوئے ان میں سے کچھ کی تفصیلات دی گئی ہے
قبل ازیں روس کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ اس کی افواج یوکرین کے قریب فوجی مشقوں میں حصہ لینے کے بعد واپس لوٹ رہی ہیں۔ اس نے ایک وڈیو بھی جاری کی جس میں ٹینکوں، بھاری ہتھیاروں اور دیگر فوجی سازو سامان کو کریمیا سے واپس ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے
روسی وزارت دفاع کے ترجمان میجر جنرل ایگور کوناشینکوف نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ روسی ٹینک اور پیدل فوج کے یونٹ جنہوں نے کروسک اور بریانسک کے علاقوں میں مشقوں میں حصہ لیا تھا، یہ دونوں پڑوسی ملک یوکرین کی سرحد کے قریب نزنی کے علاقے نوگوروڈ میں اپنی مستقل بیس پر واپس جا رہی ہیں
روس یوکرائن پر حملہ کرنے کے لیے بہانہ تلاش کر رہا ہے، امریکا
امریکا کا کہنا ہے کہ یوکرین کی سرحد سے اپنی فوج واپس بلانے کا روس کا دعویٰ ‘جھوٹا’ ہے۔ اس کے برعکس حالیہ دنوں میں سات ہزار مزید روسی فوج وہاں پہنچ چکے ہیں اور ماسکو یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لے سکتا ہے
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ عنقریب فوجی کارروائی شروع ہوسکتی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ یوکرین بحران کا سفارتی حل اب بھی ممکن ہے
یوکرائن پر روسی حملے کے حوالے سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کے روز وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے کہا ”ہمارے پاس یقین کرنے کے لیے بہت سارے اسباب موجود ہیں کہ وہ (روس) کسی بناوٹی کارروائی کے ذریعہ حملے کرنے کا بہانہ تلاش کررہا ہے۔“
بناوٹی حملے کے ذریعہ بالعموم کوئی ملک خود اپنے مفادات کے خلاف کارروائی کرتا ہے تاکہ وہ جوابی کارروائی کو درست قرار دے سکے۔ امریکا پچھلے کئی ہفتوں سے کہہ رہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات روسی منصوبے کا حصہ ہیں
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں کہا کہ روس اس طرح کے بناوٹی حملے کی تیاری کر رہا ہے
بلنکن نے ایسے کئی طریقوں کا ذکر کیا، جو ماسکو یوکرین پر حملے کو جائز قرار دینے کے لیے استعمال کرسکتا ہے
جبکہ روس نے اس طرح کے دعووں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے امریکا پر کشیدگی میں اضافہ کرنے کا الزام لگایا ہے
کیا روسی فضائیہ کی تیاریوں میں تیزی آئی ہے؟
یوکرین کے وزیر خارجہ دیمترو کولیبا نے بتایا کہ علیحدگی پسندوں نے روس کے زیر کنٹرول یوکرین کے عارضی مقبوضہ علاقے مشرقی لوہانسک سے ایک ٹینک کے ذریعہ گولہ باری کی۔ ایک گولہ بچوں کے ایک اسکول پر گرا جس سے دو ٹیچر زخمی ہوگئے۔ یوکرینی فوج نے علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول علاقے پر جوابی فائرنگ سے انکار کیا ہے
اس دوران برسلز میں نیٹو کے ہیڈکوارٹر میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ روس کے بہت سارے فوجی طیارے فضا میں پرواز کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ”ہم نے بحیرہ اسود میں ان کی تیاریوں میں تیزی دیکھی ہے“
صدر بائیڈن نے بھی کہا کہ انہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ روس یوکرائن کی سرحد سے اپنی فوج واپس لے جا رہا ہے
روس کا انکار
روسی خبر رساں ایجنسی آر آئی اے کے مطابق کریملن کا کہنا ہے کہ بائیڈن کی جانب سے حملے کے تنبیہ سے کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے
جمعرات کے روز روسی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ”یوکرائن پر روس کا کوئی حملہ نہیں ہوا، جس کے بارے میں امریکا اور اس کے اتحادی پچھلے کچھ عرصے سے باضابطہ اعلان کررہے ہیں۔ اور نہ ہی حملے کا کوئی منصوبہ ہے“
تاہم روس نے یہ بھی کہا کہ اگر واشنگٹن سکیورٹی کے حوالے سے ماسکو کے مطالبات کو پورا نہیں کرتا تو وہ فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔ روس کے مطالبات میں یوکرین کے نیٹو کو رکن بنانے پر پابندی اور وسطی اور مشرقی یورپ سے امریکی فوج کی واپسی شامل ہے
روس سرد جنگ والے مطالبات کر رہا ہے، جرمنی کا الزام
جرمنی نے الزام عائد کیا ہے کہ روس سرد جنگ دور کے مطالبات کے ذریعے یورپی سلامتی کو خطرات کا شکار کر رہا ہے۔ جنوبی جرمن شہر میونخ میں عالمی سکیورٹی کانفرنس میں شرکت سے قبل جرمن وزیرخارجہ انالینا بیئربوک نے کہا کہ یوکرائن کے ساتھ کشیدگی میں کمی کے لیے ماسکو حکومت کو سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ بیئربوک کا کہنا تھا کہ یوکرائنی سرحد پر غیرمعمولی تعداد میں فوجیوں کی تعیناتی اور سرد جنگ کے دور کے مطالبات کے ذریعے روس یورپ میں امن کے بنیادی اصولوں کو ہدف بنا رہا ہے۔ جرمن شہر میونخ میں تین روزہ عالمی سکیورٹی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے، جس میں یوکرائنی تنازعہ بنیادی موضوع ہوگا
یوکرین اور روس کی جنگ سے مشرق وسطیٰ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اگر یوکرائن میں جنگ ہوئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، بالخصوص عرب ممالک اس مسلح تنازعے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
حالیہ دنوں میں یوکرین کا بحران کچھ ٹھنڈا ہوتا دکھائی دے رہا تھا، تاہم بدھ کے دن اس حوالے سے خدشات پھر بڑھ گئے کہ روس اپنے اس ہمسایہ ملک پر حملہ کر سکتا ہے. کم از کم امریکا اور اس کے اتحادی اپنے بیانات سے یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں
نیٹو کے سربراہ ژینس اشٹولٹن برگ نے بدھ کے دن کہا کہ روس کی جانب سے یوکرینی سرحد سے فوجی دستوں کی واپسی کے اعلانات فقط دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے والے دعوے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دعوؤں کے برخلاف روس نے مزید سات ہزار فوجی یوکرائنی سرحد پر پہنچائے ہیں
روس کی جانب سے رواں ہفتے کے آغاز پر ایسے اشارے دیے گئے تھے کہ وہ یوکرینی سرحد سے کچھ فوجی دستے واپس بلا رہا ہے۔ ژینس اشٹولٹن برگ نے روس کی جانب سے معاملے کے سفارتی حل کی خواہش کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم کہا ہے کہ روس نے اب تک یوکرینی سرحد سے فوجی دستوں کی واپسی کا کوئی عملی اشارہ نہیں دیا ہے
واضح رہے کہ یوکرین اور روس کے مابین مسلح تنازعہ نہ صرف یورپ کو متاثر کرے گا بلکہ دنیا بھر پر اور خصوصاً مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے خطوں پر بھی اس کے شدید اثرات پڑیں گے
یوکرین میں جنگ کی وجہ سے سب زیادہ متاثر لیبیا ہوگا۔ سکیورٹی تجزیہ نگار سمیع حمدی کے مطابق روس نے لیبیا کے ضلع الجفرہ میں ایک ایئر بیس بنا رکھی ہے، اگر یہ جنگ شروع ہوئی تو ماسکو حکومت الجفرہ ایئر بیس کو فوری طور پر فعال بنا سکتا ہے
سمیع حمدی کا کہنا ہے کہ لیبیا کا داخلی تنازعہ ہی ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے اور اگر یوکرین اور روس کی جنگ ہوئی تو اس کے اثرات اس شمالی افریقی ملک کو زیادہ ابتر بنا دیں گے
سیاسی تجزیہ نگار سنزیا بیانکو کا کہنا ہے کہ روس مغربی مالک پر دباؤ ڈالنے کی خاطر لیبیا سے مہاجرین کا ایک نیا سیلاب یورپ کی طرف موڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیلاروس اور پولینڈ کی سرحد پر جوا ہوا ہے، وہ یہاں بھی ہو سکتا ہے
روس کی افواج شام میں بھی تعینات ہیں۔ بالخصوص طرطوس کی بندرگاہ میں روس کی بحریہ نے ایک اڈہ بنا رکھا ہے۔ ماسکو حکومت اپنے اہم اتحادی ملک شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ مل کر علاقائی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے
سیاسی تجزیہ نگار سنزیا بیانکو کے مطابق شام میں روس کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ اس خطے میں سمندری راستے سے جتنی بھی امداد جاتی ہے، وہ شام سے ہو کر دیگر ممالک تک پہنچائی جاتی ہے۔ بیانکو کو کہنا ہے کہ روس نے یہ امداد روک دی تو مہاجرین کا ایک طوفان یورپ کے لیے نکل کھڑا ہوگا
شام کا ہمسایہ ملک اسرائیل بھی یوکرین اور روس کے مابین جاری تناؤ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے
گزشتہ ہفتے ہی یوکرینی وزیر خارجہ نے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ روس کے ساتھ جنگ کی صورت میں اس کے منفی اثرات اسرائیل پر بھی پڑیں گے۔ ان میں ایک تو یوکرینی یہودی آبادی کا اسرائیل کی طرف رخ ہوگا، جبکہ دوسرا گندم کی ایکسپورٹ میں کٹوتی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا
یوکرین اور روس کی جنگ کے منفی اثرات جزیرہ نما عرب بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر
پر بھی پڑیں گے
سمیع حمدی کے مطابق سعودی عرب اوپیک میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے جبکہ اس نے روس کے ساتھ عسکری تعاون کا ایک سمجھوتہ بھی کر رکھا ہے۔ کسی تنازعے کی صورت میں سعودی عرب امریکا کا ساتھ دے گا یا روس کا، یہ ریاض حکومت کے لیے ایک درد سر بن سکتا ہے
دوسری طرف یمن کا تنازعہ بھی جاری ہے، جہاں سعودی عسکری اتحاد ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف فعال ہے۔ اس خطے میں ایران کے اثرورسوخ کے خدشات بھی ہیں، جو روس کا اہم اتحادی ہے۔ اس حوالے سے کریملن یوکرین کے ساتھ جنگ کی صورت مغربی ممالک پر دباؤ ڈالنے کی خاطر اپنا یہ کارڈ بھی استعمال کر سکتا ہے.