سنگاپور کے وزیر اعظم کے بھارتی اراکینِ پارلیمان سے متعلق بیان پر بھارت میں بحث چھڑ گئی

ویب ڈیسک

نئی دہلی – سنگاپور کے وزیراعظم لی سین لونگ نے 15 فروری کو اپنے ملک کی پارلیمان میں بحث کے دوران بھارتی پارلیمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک تبصرہ کیا۔ بھارت نے اس پر نہ صرف ناراضگی کا اظہار کیا بلکہ لی سین لونگ کے اس بیان پر بھارت بھر میں بحث چھڑ گئی

یاد رہے کہ گذشتہ روز پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے سنگاپور کے وزیر اعظم لی نے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’نہرو کے بھارت میں تقریباً 50 فیصد ممبران پارلیمنٹ کے خلاف قتل اور ریپ کے الزامات زیر التوا ہیں۔‘

تاہم انہوں نے اس بیان کی فوری طور پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے بہت سے الزامات سیاسی محرکات پر مبنی بھی ہیں۔‘

اس کے بعد بھارت نے وزیر اعظم لی کے بیان پر سخت اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیان ‘ناقابل قبول اور غیر ضروری’ ہے

سنگاپور کے وزیراعظم اپنی پارلیمان کی کمیٹی آف پریویلیجز کی رپورٹ پر بحث میں اظہار خیال کر رہے تھے، جس میں وہاں کے حزب اختلاف کے پانچ بڑے رہنماؤں پر ‘جھوٹ بولنے’ کا الزام لگایا گیا تھا

چالیس منٹ کے اپنے خطاب میں، ستر سالہ لی نے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور اسرائیل کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ بین گوریون کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان رہنماؤں نے ’اپنے ملکوں کو آزادی دلوائی، لیکن بعد کی نسلوں کے رہنماؤں نے اقدار کی بربادی کو نہیں روکا۔‘

لی نے یہ بھی کہا کہ بہت سے ممالک کے سیاسی نظام ایسے ہو چکے ہیں کہ ان کے بانیوں کے لیے انہیں پہچاننا بھی مشکل ہو جائے گا

دوسری جانب وزیر اعظم لی کے اس بیان پر بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ بھارت کے بعض سیاسی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم لی کے بیان پر بھارت کا ردعمل ’ضرورت سے کچھ زیادہ‘ تھا

کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے کہا کہ سنگاپور کے وزیراعظم نے نہرو کی مثال دی کہ ملک میں جمہوریت کیسے چلنی چاہیے، جبکہ ہمارے وزیر اعظم پارلیمان کے اندر اور باہر ان کی توہین کرتے رہتے ہیں

کیرالہ سے کانگریس کے رکن پارلیمان اور سابق وزیرِ مملکت برائے امور خارجہ ششی تھرور نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’یہ ناانصافی ہے کہ سنگاپور جیسے دوست ملک کے ہائی کمشنر کو ان کی پارلیمنٹ میں ان کے وزیر اعظم کے بیان پر طلب کیا جائے۔ کبھی کبھی تھوڑا کم حساس ہونا سیکھنا چاہیے۔‘

ششی تھرور نے کہا کہ بھارت کو اس معاملے میں ایک بیان جاری کرنا چاہیے تھا کہ صرف یہ کہتے کہ ’ہم نے وزیر اعظم کے بیان کو بہت سنجیدگی سے سنا۔ تاہم ہم نہ تو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی پارلیمنٹ میں۔ ہم دوسرے ممالک سے بھی اسی پالیسی پر عمل کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔‘

راجیہ سبھا میں راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمان منوج جھا نے کہا کہ جب دوسرے ممالک سے اس طرح کے ردعمل آتے ہیں، جیسا کہ سنگاپور میں ہوا، تو اس پر غور کر کے خود احتسابی ہونی چاہیے

وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر کوئی ہمیں آئینہ دکھا رہا ہے، تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ وہ اس طرح کیوں بول رہا ہے۔‘

منوج جھا نے وزیر اعظم لی کے بیان پر بھارت کے ردعمل کو انتہا پسندانہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کو عام طور پر دوسرے ممالک کی پارلیمان میں ہونے والی بحثوں پر اس طرح کا ردعمل دینے سے گریز کرنا چاہیے

ان کے مطابق بھارتی پارلیمان میں بحث کے دوران پاکستان اور دیگر ممالک پر تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ان ممالک کی طرف سے کبھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا

ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان سکھیندو شیکھر رائے نے کہا کہ ہماری پارلیمان کے حالیہ اجلاس میں کئی ارکان نے چین اور پاکستان کا نام لے کر بحث کی

انہوں نے کہا ’بھارت کو سنگاپور کے وزیر اعظم لی ہسین لونگ کے پارلیمنٹ میں بیان پر سفارتی بیان دینا چاہیے تھا، یہ تھوڑا زیادہ ہو گیا ہے۔‘

جبکہ دوسری جانب بہت سے بھارتی سنگاپور اور اس کے وزیر اعظم کے بیان اور وہاں کی جمہوریت کی حالت پر شدید تنقید کر رہے ہیں

خارجہ امور کے ماہر برہم چیلانی نے برہم ہوتے ہوئے کہا کہ ’سنگاپور میں اظہار رائے کی آزادی اور دیگر قسم کے شہری حقوق پر بہت سی پابندیاں ہیں، اس لیے سنگاپور کو ‘بھارت اور اسرائیل’ جیسی اصل جمہوریتوں کو لیکچر دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘

برہم چیلانی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’یہ عجیب بات ہے کہ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کے ارکان سنگاپور کے وزیر اعظم کے بیان کی تعریف کر رہے ہیں۔ جبکہ سنگاپور ایک ایسا ملک ہے جہاں اپوزیشن کی آواز کو دبا دیا گیا ہے۔‘

ایک اور سیاسی تجزیہ کار آنند رنگناتھن نے بھی ٹوئٹر پر لکھا کہ ’یہ ستم ظریفی ہے کہ ایک طرح سے ایک پارٹی کی آمریت والا ملک ”بھارت کو جمہوریت“ پر نصیحت دے رہا ہے۔‘

ساتھ ہی سابق سفارت کار کنول سبل نے اپنے تئیں سنگاپور کو اس کی اوقات یاد دلانے کے لیے طنز کرتے ہوئے کہا کہ سنگاپور کو جمہوریت کے طور پر بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ انہیں امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے منعقدہ ڈیموکریسی کانفرنس میں بھی مدعو تک نہیں کیا گیا

وزیر اعظم لی نے بھارتی پارلیمان کے ارکان کے بارے میں جب پارلیمنٹ میں یہ بات کہی تو اس وقت ایک رپورٹ پر بحث چل رہی تھی

اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے 2019ع کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت انتخابات میں جیتنے والے لوک سبھا کے 43 فیصد ارکان ایسے ہیں، جنہیں کسی نہ کسی عدالتی مقدمے کا سامنا ہے

سنگاپور کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی رکن اور ورکرز پارٹی کی رکن رئیسہ خان کو کمیٹی آف پریویلیجز نے ایوان میں جھوٹ بولنے کا مرتکب پایا اور ان پر چھبیس ہزار سنگاپوری ڈالر جرمانہ عائد کیا

وہاں کی پارلیمان میں استحقاق کمیٹی نے اپنی رپورٹ ایوان کے فلور پر پیش کی۔ خان کے علاوہ، استحقاق کمیٹی نے ان کی پارٹی کے رہنما فیصل مناپ اور صدر پریتم سنگھ کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close