کراچی – سندھ کے دارالحکومت، شہر کراچی میں حالیہ مہینوں میں اسٹریٹ کرائمز میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ جیسا کہ کراچی میں کچھ سال پہلے ہوا تھا، لوگ ایک بار پھر سڑکوں پر لُٹ جانے کی وارداتوں سے خوفزدہ ہیں، جس کے نتیجے میں مزاحمت کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی رونما ہوتی ہیں
ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی حکومت دونوں کی جانب سے جرائم میں اضافے اور اس پر قابو پانے میں ناکامی کا ذمہ دار پی پی پی حکومت کو ٹھہرایا گیا ہے۔ یقیناً یہ ایک سنگین صورتحال ہے کیونکہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کسی بھی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے
ایسے ہی ایک واقعے میں کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں جمعہ کی صبح سماء ٹی وی کے لیے کام کرنے والے سینئر پروڈیوسر کو ڈکیتی کے دوران موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا. پینتالیس سالہ اطہر متین اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے کے بعد گھر واپس جا رہے تھے، یہ واقعہ اصغر علی شاہ اسٹیڈیم کے قریب پیش آیا
اس موقعے پر اسلحہ برداروں نے اپنی موٹر سائیکل کو بھی موقع پر چھوڑ دیا، جب اس میں مبینہ طور پر کوئی خرابی پیدا ہوئی اور وہ جائے وقوعہ پر ایک شہری سے دوسری موٹر سائیکل چھین کر فرار ہو گئے
اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کس قدر دیدہ دلیری سے شہر کی مصروف شاہراہوں پر لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں
دوسری جانب کراچی میں اسٹریٹ کرائمز میں خطرناک حد تک اضافے کا مقابلہ کرنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل ناکامی کا مشاہدہ کیا گیا ہے
2022 کے صرف ڈیڑھ ماہ میں گیارہ ہزار رپورٹ شدہ واقعات کے دوران اب تک تیرہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جبکپ پورٹ سٹی میں ڈکیتی کی وارداتوں میں مزاحمت پر اَسی سے زائد افراد زخمی ہو گئے
ایک نجی میڈیا آؤٹ لیٹ کی جانب سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اب تک پولیس اہلکاروں اور ایک صحافی سمیت تیرہ شہری ڈکیتیوں میں مزاحمت کرتے ہوئے جان کی بازی ہار چکے ہیں، جب کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران ڈکیتی کی وارداتوں کی تعداد گیارہ ہزار تھی، جو بدامنی اور لوٹ مار کی انتہا کی نشاندہی کرتی ہے
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں یکم جنوری سے 17 فروری تک 3 ہزار 845 موبائل فون چھین لیے گئے، 672 موٹر سائیکلیں اور 20 کاریں چھینی گئیں
اسٹریٹ کرمنلز کی جانب سے چھینی گئی گاڑیوں کی تعداد چوری کی گئی کاروں اور موٹر سائیکلوں کے علاوہ تھی
محکمہ پولیس نے تصدیق کی کہ مذکورہ مدت کے دوران 6,087 موٹر سائیکلیں اور 296 کاریں چوری ہوئیں
ایک مقامی روزنامے سے گفتگو کرتے ہوئے، نئے تعینات ہونے والے سٹی پولیس چیف، (ایڈیشنل آئی جی) غلام نبی میمن نے صوبائی دارالحکومت میں اسٹریٹ کرائمز کی بے لگام وارداتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے آپریشن ونگ اور تفتیشی برانچ کے درمیان افہام و تفہیم کا فقدان ہے اور پولیس کے مختلف یونٹس ہیں جو کہ بہت سے جرائم سے نمٹ رہے ہیں
انہوں نے مشورہ دیا کہ رابطے کے اس فقدان نے شہر میں اسٹریٹ کرائم کے مسئلے کو جزوی طور پر مزید پیچیدہ کردیا ہے۔ نئی حکمت عملی کے تحت، ایس ایچ اوز کو پولیس کی تفتیشی شاخ کے ساتھ مل کر سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے، شواہد اکٹھے کرنے اور مشتبہ افراد/ملزمان کی شناخت کی ذمہ داری دی گئی ہے
انہوں نے کہا کہ آپریشنل اور انویسٹیگیشن دونوں ونگز کے ایس ایچ اوز، ڈی ایس پیز اور ایس ایس پیز کی کارکردگی کا ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے گا، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کتنی سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کی گئیں اور مشتبہ افراد/ملزمان کی شناخت کی گئی اور جرائم کی نشاندہی کس حد تک ہوئی
یاد رہے کہ جب 2013ع میں کراچی میں کلین اپ آپریشن شروع ہوا تو شہر نسلی، سیاسی اور فرقہ وارانہ تشدد کا گڑھ بنا ہوا تھا، جس میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتی کی وارداتیں ہوئیں
ان بڑے جرائم کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اسٹریٹ کرائمز میں بیک وقت کمی واقع ہوئی۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ یہ سلسلہ دوبارہ واپس آ گیا ہے اور یہ ان تمام لوگوں کے لیے خوفناک خبر ہے جو کراچی میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ تاہم شہریوں کی حفاظت پولیس کا فرض ہے
گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ نے شہر میں اسٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے ٹارگٹڈ آپریشن کرانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس اور رینجرز کچھ بھی کرے مجھے رزلٹ چاہئے
گزشتہ روز کراچی میں امن و امان کی صورتحال پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ہنگامی اجلاس طلب کیا، جس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ یکم فروری سے گزشتہ روز تک تک شہر میں ڈکیتی کے دوران 12 افراد جاں بحق اور 58 افراد زخمی ہوئے۔ جس پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ صورتحال کسی صورت قبول نہیں، امن و امان ہر صورت ٹھیک ہونا چاہئے
وزیراعلیٰ سندھ نے نشے کے عادی افراد کو بحالی سینٹر شفٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح وہ کرمنل ایکٹوٹیز نہیں کر سکیں گے، جب کہ بار بار جرم کرنے والے مجرمان کی ای ٹیگنگ پر مشیر قانون کو قانونی رائے دینے کی ہدایات دیتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ جرائم پیشہ افراد کی بیل ہونے کو مشکل کرنے کے لئے ضروری قانون سازی کی جائے گی
اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے اسٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے ٹارگٹڈ آپریشن کرانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایچ او کو اپنے علاقے کا پتہ ہوتا ہے کہ کون اسٹریٹ کرمنلز ہیں، تمام ایس ایچ اوز پندرہ دن کی پرفارمنس بنائیں، اور جو ایس ایچ او کنٹرول نہیں کر پا رہا اس کو فارغ کریں، پولیس جو بھی اقدامات کرے مجھے فوری بہتری چاہئے
اجلاس میں انکشاف ہوا کہ جیل سے کچھ گینگ آپریشن ہوتے ہیں۔ جس کے بعد جیل میں بھی آپریشن کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے ہدایت جاری کی کہ شہر میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں، مجھے پولیس اور رینجرز سڑکوں پر نظر نہیں آتیں، میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں اب بلکل برداشت نہیں کروں گا، اور اب شہر کے خود سرپرائز وزٹ کروں گا، پولیس ہر ضلع میں رینجرز کی مدد سے ٹارگٹڈ آپریشن کرے، پولیس اور رینجرز کی جو بھی حکمت عملی ہے وہ بنائے، مجھے رزلٹ چاہئے، شہریوں کے جان و حفاظت کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے
اس سے قبل وائی ایم سی گراونڈ میں شجرکاری مہم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کا بڑھ جانا تشویشناک ہے، صورتحال سے خود اور حکومت کو بری الزمہ قرار نہیں دے رہا لیکن ملکی معاشی حالات کی وجہ سے بھی جرائم میں اضافہ ہوا ہے، افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہم بھی بھگت رہے ہیں
وزیر اعلیٰ نے اطہر متین کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ہر حال میں عوام کی جان و مال کو محفوظ بنانا ہے، اس حوالے سے کچھ سخت اقدامات کروں گا
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان سے صوبوں کو تقریبا نکال دیا گیا، کچھ عرصہ پہلے آئی جی کی مشاورت سے تبدیلی لائے تھے، کراچی پولیس سے کہا ہے کہ اپنی تجاویز میرے پاس لائیں، کراچی میں جرائم کی روک تھام کے لیےاقدامات کریں گے
منگل کے روز میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی میں غیر ملکیوں کی تعداد زیادہ ہے اس لیے یہاں جرائم کی شرح بھی زیادہ ہے، افغانستان اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے اثرات بھی کراچی کو بھگتنے پڑتے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ جب یہ شہر جرائم کے حوالے سے چھٹے نمبر پر تھا، تب بھی ہم نے امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کی کوشش کی اور اب کراچی جرائم کے حوالے سے 125 یا 130 نمبر پر آگیا ہے
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حال ہی میں ہونے والے واقعات پر سخت کارروائی کی جائے گی، اور پولیس کو بھی مناسب ہدایات دی جائیں گی، اور اس میں اگر پولیس نے کوئی کوتاہی کی تو انہیں سزا بھی دی جائے گی
انہوں نے کہا کہ اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ملوث کچھ افراد کو پکڑا بھی گیا ہے، میں اس کے حوالے سے تفصیلات پیش کروں گا، جرائم کی وارداتوں پر بے بس نہیں ہیں ، حکومت پولیس اور میں خود بھی ان مسائل سے بری الزمہ نہیں ہوں
ایک سوال کے جواب میں مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا، جس پر عمل درآمد کے لیے ملک بھر کے لیے ایپکس کمیٹی بنائی گئی تھی، اس کے تحت صوبوں کو ایپکس کمیٹی بنانے کے لیے کہا گیا تھا
انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ نے ایپکس کمیٹی کے چھبیس اجلاس کیے کسی اور صوبے نے نہیں کیے، بعدازاں حکومت نے ایپکس کمیٹی کے نظام کو تبدیل کردیا، بیس کی جگہ چودہ نکات کردیے گئے اور صوبوں کو اس میں سے نکال دیا گیا
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ ایپکس کمیٹی کے بیس نکات میں اسٹریٹ کرائم کہیں نہیں تھا
کراچی میں جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے حوالے سے اسپیشل فورس بنانے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ پولیس کو تجویز پیش کرنے کی ہدایت دی ہے.