تہران – سزائے موت ملنے کے اٹھارہ سال مسلسل امید اور نا امیدی کے بیچ لٹکنے کے بعد ایک انسان کو معافی ملتی ہے، لیکن معافی کے ایک گھنٹے بعد ہی وہ مر جاتا ہے، یہ سن کر کہ متاثرہ کے والدین نے اسے معاف کر دیا ہے
یہ واقعہ ہے ایران کا، جسے مقامی میڈیا نے اتوار کو رپورٹ کیا، جہاں اٹھارہ سال سے پھانسی گھاٹ میں رحم کی اپیل منظور ہونے کا منتظر قیدی بندر عباس کی ایک عدالت سے ملنے والی رہائی کی خوشخبری سُن کر دل کے دورے کے باعث ہلاک ہوگیا
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی جیل میں زندگی اور موت کی کشمکش کے دوران اٹھارہ سال سے پھانسی گھاٹ میں اسیر قیدی رہائی ملنے کی خوشی برداشت نہ کر سکا اور دل کے دورے کے باعث جان کی بازی ہار گیا
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اٹھاون سالہ قیدی نے عدالت میں رحم کی اپیل دائر کر رکھی تھی
گزشتہ اٹھارہ سالوں میں، وہ سزائے موت سے بچنے کے لیے متاثرہ خاندان سے رحم حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا
اپیل بار بار مسترد کرنے کے بعد مقتول کے لواحقین نے بالآخر اسے منظور کر لیا، جس پر عدالت نے قیدی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا
واضح رہے کہ ایران میں قتل کے مرتکب افراد کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ وہ صرف اسی صورت میں سزائے موت سے بچ سکتے ہیں، جب انہیں متاثرہ خاندان کی طرف سے معاف کر دیا جائے
مسلسل اٹھارہ سال سے غیر یقینی صورت حال کے شکار قیدی کو جب رہائی کی خوشخبری ملی، تو اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا اور وہ فرطِ جذبات سے زار و قطار رونے لگا
اسی دوران قیدی کے سینے میں شدید تکلیف ہوئی اور اسے اسپتال لے جایا گیا، جہاں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ اب وہ قیدِ حیات سے آزاد ہو چکا ہے، جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ”وہ عدالت کی جانب سے معافی پر بہت خوش تھا“