کراچی – جدید دور میں ڈی این اے کے گہرے رازوں کو جاننا ایک طاقتور ہتھیار ہو سکتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی رہنما کورونا ٹیسٹ کی آڑ میں اپنا ڈی این اے روس کے حوالے نہیں کرنا چاہتے
فی الحال ممکن ہے کہ یہ بات محض ایک افسانہ ہی ہو کہ روس کورونا ٹیسٹ کے ذریعے ڈی این اے حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حال ہی میں جرمن چانسلر اولاف شولس اور فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں دونوں ہی رہنماؤں نے روسی ماہرین کو کورونا کا پی سی آر ٹیسٹ دینے سے انکار کر دیا تھا
بتایا جاتا ہے کہ روس کی جانب سے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات سے قبل ان مغربی رہنماؤں کا کورونا ٹیسٹ خود روسی طبی حکام کریں گے
ان دونوں رہنماؤں کے انکار کے بعد ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی تھی کہ مغربی رہنما اپنا جینیاتی مواد روس کے ہاتھ لگنے نہیں دینا چاہتے
دنیا میں بڑھتی ہوئی نیشنل سکیورٹی اور بین الاقوامی جاسوسی کے دور میں عالمی طاقتیں نئے سے نئے محاذوں میں طاقتور ہونے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ انٹیلیجنس ماہرین کے مطابق جینیاتی سائنس نئے ہتھیاروں میں ایک بڑا اضافہ ہو سکتی ہے
ایسے میں یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ڈی این اے سے کیا ہو اور کیا نہیں ہو سکتا اور یہ اتنا اہم کیوں ہے؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ عالمی رہنماؤں کی جانب سے روس کو ڈی این اے دینے سے انکار کے پیچھے کیا ممکنہ طور پر یہ وجہ ہے کہ وہ ڈی این کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے؟
اگرچہ اس حوالے سے کسی بھی یورپی رہنما کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہو
فرانسیسی حکام نے ان خیالات کو مسترد کیا ہے کہ روسی حکام خفیہ طریقے سے صدر ماکروں کا ڈی این اے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ایک فرانسیسی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اصل میں پیوٹن کے قریب جانے کے لیے روسی شرائط ”ناقابل قبول اور ایجنڈے سے مطابقت“ نہیں رکھتی تھیں
یہی وجہ ہے کہ جرمن چانسلر اور فرانسیسی صدر کی پیوٹن سے ملاقات کے وقت درمیان میں ایک طویل ماربل میز رکھی گئی تھی اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف میمز کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اس حوالے سے مختلف تبصرے منظر عام پر آئے
جرمن حکام کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ اپنے طریقہ کار کو نہیں بدلنا چاہتے تھے۔ ہمارا اپنے پی سی آر ٹیسٹوں پر یقین ہے اور اگر کسی کو شک ہے تو وہ ہمارے کیے گئے ٹیسٹوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے
دوسری جانب روس کا اصرار ہے کہ اگر کوئی ٹیسٹ قابل اعتماد ہے، تو وہ صرف ان کا اپنا ٹیسٹ ہے۔ تاہم جرمن چانسلر نے فیصلہ کیا کہ وہ روسی ٹیسٹ کے لیے دستیاب نہیں ہیں
ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا روسی طبی ماہرین کورونا ٹیسٹ کریں گے یا نہیں۔ لیکن ایک چیز واضح ہے کہ اگر عمران خان روسی صدر سے ہاتھ ملانا چاہتے ہیں تو انہیں روسی حکام سے ہی پی سی آر ٹیسٹ کروانا ہوگا
عمران خان روسی پی سی آر ٹیسٹ کروائیں گے یا نہیں، اس کا اندازہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والی تصاویر سے ہو جائے گا، جن میں دیکھا جا سکے گا کہ وزیراعظم عمران خان روسی صدر کے کتنے قریب تھے
آخر یہ معاملہ اتنا اہم کیوں ہے اور ڈی این اے سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈی این اے جسم کے ہر خلیے کے اندر ہوتا ہے اور اسے متعدد طریقوں سے نکالا جا سکتا ہے اور ان میں کورونا ٹیسٹ بھی شامل ہے۔ اس طرح کئی طرح کا جینیاتی مواد حاصل ہوتا ہے اور اس میں ایک وائرس کا آر این اے بھی شامل ہے
یونیورسٹی آف مینیسوٹا جینومکس سینٹر کے کینی بیک مین کہتے ہیں ”ایسے نمونوں میں کئی ٹن انسانی ڈی این اے ہوتا ہے۔ ایسے نمونے سے آپ ڈی این اے نکالیں، اس پر آپ ہر وہ تجربہ کر سکتے ہیں، جو آپ کسی شخص پر کرنا چاہتے ہیں‘‘
آپ کے ڈی این اے میں وہ ہدایات ہوتی ہیں، جو آپ کو زندہ رہنے اور بڑھنے کے لیے درکار ہیں۔ ہر انسان کا ڈی این اے منفرد ہوتا ہے۔ آپ ڈی این اے سے جان سکتے ہیں کہ آپ کے آباؤ اجداد کا تعلق کس علاقے سے ہے اور یہ کہ آپ میں کون کون سی جینیاتی بیماریاں موجود ہیں یا آپ کی طبی حالت کیسی ہے۔ فرانزک سائنس میں آپ مجرموں کو پکڑنے کے لیے اس کا استعمال کر سکتے ہیں
اس سارے تناظر میں اہم نکتہ یہ ہے کہ ڈی این اے کو عالمی رہنماؤں کے خلاف کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے، اس پر بات کرتے ہوئے جینیات کے ماہر اور فلوریڈا میں جیریاٹرک آنکولوجی کنسورشیم میں صحت سے متعلق شعبہ ادویات سے منسلک ہاورڈ میکلوڈ کہتے ہیں، ”آپ بیماری کے خطرے کی نشاندہی کرنے کے لیے ڈی این اے کا استعمال کر سکتے ہیں، یا اس لیے کہ (کسی عالمی رہنما) کو کونسی بیماری کا خطرہ ہو سکتا ہے‘‘
ان کا مزید کہنا تھا ”آپ ایسے عناصر سے متعلق معلومات تلاش کر سکتے ہیں، جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے‘‘
تاہم یونیورسٹی آف مینیسوٹا جینومکس سینٹر کے کینی بیک مین کہتے ہیں ”یہ ابھی بہت دور کی بات ہے کہ ڈی این اے کے ڈیٹا سے کسی کو سیاسی سطح پر نقصان پہنچایا جائے‘‘
جارج ایناس ایک حیاتیاتی ماہر ہیں اور وہ جینیاتی رازداری کی اہمیت کے حوالے سے کافی زیادہ لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا ”میں ایک چیز واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ڈی این اے کوئی میجک نہیں ہے۔ اس سے آپ کو کچھ معلومات مل جاتی ہیں لیکن یہ آپ کو یہ نہیں بتائے گا کہ آپ کسی کو کیسے قتل کر سکتے ہیں؟‘‘
دوسری جانب ماہرین کے مطابق ڈی این سے حاصل ہونے والی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے کسی کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ معلومات ایسی ہوتی ہیں، جو کسی شخص کے لیے انتہائی باعث شرمندگی بھی ہو سکتی ہیں
امریکا کے حوالے سے بظاہر تو یہی کہا جاتا ہے کہ اگرچہ امریکی صدر سے ملاقات سے پہلے بھی کورونا ٹیسٹ کروانا لازمی ہے، لیکن وائٹ ہاؤس میں کورونا ٹیسٹ کو ایک آپشن کے طور پر رکھا گیا ہے اور عام طور پر دیگر ملکوں کے لیڈر اپنے کورونا ٹیسٹ کا خود ہی انتظام کرتے ہیں، جس پر وائٹ ہاؤس کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا
لیکن امریکا پر بھی ماضی میں ایسے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ غیرملکی لیڈروں کا ڈی این اے جمع کرنے میں ملوث رہا ہے۔ اوباما دور کی وکی لیکس میں انکشاف ہوا تھا کہ مخصوص افریقی ممالک میں امریکی سفارت کاروں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ ابھرتے ہوئے لیڈروں، مذہبی اور کاروباری رہنماؤں کے انگلیوں کے نشانات، چہرے کی تصاویر، ڈی این اے اور ایرس اسکین حاصل کریں
ماہرین اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ ڈی این اے سے کوئی اسکینڈل تو پیدا کیا جا سکتا ہے، لیکن کوئی صدارتی کلون نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن آپ یہ نہیں جان سکتے کہ آخر کار آپ کا ڈی این اے کس کے ہاتھ آئے گا؟
یاد رہے کہ چند سال پہلے خود کو ارنسٹ پروجیکٹ کہنے والے ایک گمنام گروپ نے ڈیووس سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے متعدد عالمی رہنماؤں کا ڈی این اے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا
اس گروپ نے کہا تھا کہ وہ یہ نمونے نیلامی کے لیے پیش کریں گے، لیکن پھر قانونی کارروائی کے خدشات کے پیش نظر اسے موخر کر دیا گیا اور پھر یہ نیلامی کبھی بھی نہیں ہوئی.