اسٹونیا – ایک مرتے ہوئے شخص کے دماغ کی سرگرمی پر مشتمل ایک تاریخی مطالعہ لوگوں کی ان رپورٹوں کی وضاحت فراہم کر سکتا ہے جو موت کے قریب کے تجربات میں اپنی زندگیوں کو بالکل واضح طور پر یاد کرتے ہیں
اس مطالعے میں موت کے وقت دماغ میں بننے والے نمونوں کا انکشاف کیا گیا ہے، جو اس طرح کے ہیں، جیسے خواب یا پرانی یادداشت کو یاد کرتے وقت بنتے ہیں اور زندگی کے خاتمے کے متعلق ہماری سمجھ کو چیلنج کرتے ہیں
’فرنٹیئرز ان ایجنگ نیوروسائنس‘ نامی جریدے میں منگل کو شائع ہونے والے یہ نتائج اعضا عطیہ کرنے کے وقت سے متعلق بھی اہم سوالات بھی اٹھاتے ہیں
اسٹونیا کی یونیورسٹی آف ٹارٹو کے راؤل ویسینٹ سمیت نیورو سائنسدان ابتدائی طور پر الیکٹرو اینسیفالوگرافی (ای ای جی) ڈیوائس کا استعمال کرتے ہوئے ایک ستاسی سالہ مرگی کے مریض کی دماغی لہروں کا معائنہ کر رہے تھے، لیکن معائنے کے درمیان ہی مریض کو دل کا دورہ پڑا اور وہ انتقال کر گیا
جیسے ہی مریض کی موت واقع ہوئی، ای ای جی ریکارڈنگ نے اس شخص کے دماغ کی سرگرمی کے تقریباً نو سو سیکنڈ دکھائے اور سائنسدانوں نے اس بات کی تحقیقات کرنے کی کوشش کی کہ دل کی دھڑکن بند ہونے سے پہلے اور بعد کے تیس سیکنڈ میں کون سی خاص سرگرمی وقوع پذیر ہوئی
نتائج سے معلوم ہوا کہ جب وہ شخص مر رہا تھا تو دماغ کی لہروں میں اضافہ ہوا، جس کو گاما ارتعاش کے نام سے جانا جاتا ہے، جو عام طور پر خواب دیکھنے اور کسی چیز کو دوبارہ یاد کرنے کے دوران پیدا ہوتا ہے، اسی طرح دیگر جیسے ڈیلٹا، تھیٹا، الفا اور بیٹا ارتعاش میں بھی اضافہ ہوا
عام زندہ انسانوں کے دماغ کی لہریں نشیب و فراز کی طرح ہوتی ہیں اور ان لہروں کی مختلف اقسام کا تعلق مختلف صورتحال سے ہوتا ہے
ایک مثال کا حوالہ دیتے ہوئے محققین نے کہا کہ گاما ارتعاش کا تعلق توجہ مرکوز کرنے، خواب دیکھنے، مراقبہ، چیزوں کو دوبارہ یاد کرنے اور شعوری تاثر جیسے اعلیٰ علمی افعال سے ہے
اور مطالعات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ الفا لہریں، جو 8-12 ہرٹز کی فریکوئنسی سے ارتعاش پیدا کرتی ہیں، حساس معلومات کو فلٹر کرنے اور توجہ دینے میں مدد مرکوز کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں
دماغ کی مختلف لہروں سے وابستہ سرگرمیوں کے موجودہ علم کی بنیاد پر سائنسدانوں کا قیاس ہے کہ مرنے والا ستاسی سالہ شخص’اپنی گزری ہوئی پوری زندگی کو آخری بار یاد‘ کر رہا ہوگا
محققین نے مطالعے میں لکھا ”یہ دیکھتے ہوئے کہ صحت مند انسان میں ادراک کے عمل اور کسی یادداشت کو یاد کرنے میں الفا اور گاما لہروں کا ملاپ شامل ہے، یہ قیاس کرنا دلچسپ ہے کہ قریب المرگ اس طرح کی سرگرمی ’زندگی کی آخر یاد‘ میں معاون ہو سکتی ہے۔“
امریکا کی یونیورسٹی آف لوئیزویل کے نیورو سرجن اجمل ضمیر نے ایک بیان میں کہا کہ ”پرانی یادوں کو یاد کرنے میں مدد کرنے والے ارتعاش پیدا کر کے مرنے سے کچھ دیر پہلے دماغ زندگی کے اہم واقعات کو آخری بار یاد کر رہا ہوگا، جو قریب المرگ کے تجربات میں رپورٹ کیے گئے واقعات کی طرح ہے“
اگرچہ یہ انسانوں میں اس طرح کا پہلا مطالعہ ہے، لیکن سائنسدانوں اس سے قبل کنٹرول شدہ ماحول میں رکھے گئے چوہوں میں گاما ارتعاش میں اسی طرح کی تبدیلیوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موت کے دوران دماغ ایک حیاتیاتی ردعمل کا اہتمام کرتا ہے اور اسے عملی جامہ پہناتا ہے
اسی تناظر میں سائنسدانوں نے مطالعے میں لکھا کہ ”انتہائی کنٹرول شدہ تجرباتی چوہوں کے مطالعے اور موجودہ مطالعے کے درمیان ارتعاش کی تبدیلیوں میں مجموعی مماثلت سے معلوم ہوا کہ تنبیہات کے باوجود ہوسکتا ہے موت کے دوران دماغ دقیانوسی سرگرمی کے نمونوں کے سلسلے سے گزرے“
لیکن چونکہ نئی تحقیق ایک ایسے مریض پر کی گئی ہے، جس کو چوٹ، دورے اور سوجن کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا، محققین نے کہا کہ اعداد و شمار کی تشریح پیچیدہ ہوسکتی ہے
انہوں نے مزید کہا کہ مزید کیسز کی تحقیقات کرنے اور تازہ ترین نتائج کو ’امید کا ذریعہ‘ سمجھنے کی ضرورت ہے
ڈاکٹر ضمیر کہتے ہیں ”ہم اس تحقیق سے کچھ سیکھ سکتے ہیں، اگرچہ ہمارے پیاروں کی آنکھیں بند ہیں اور مرتے ہوئے وہ ہمیں چھوڑنے والے ہیں، لیکن ہوسکتا ہے کہ ان کا دماغ ان کی زندگی کے کچھ اچھے لمحات کو دوبارہ یاد کر رہا ہو“