نمرتا چندانی: لاڑکانہ کی میڈیکل طالبہ کی پراسرار ہلاکت، عدالتی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا انکشافات سامنے آئے؟

ریاض سہیل

سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ نمرتا چندانی کی موت کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے کی گئی عدالتی تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ نمرتا کو گلا گھونٹ کر ہلاک نہیں کیا گیا بلکہ ان کی موت ’خودکشی‘ تھی۔

یہ واقعہ 16 ستمبر 2019 کو پیش آیا تھا جب بختاور ڈینٹل کالج کے گرلز ہاسٹل کے کمرے سے بی ڈی ایس کے آخری سال کی طالبہ نمرتا چندانی کی لاش ملی تھی۔

اس واقعے پر کئی سوالات اٹھائے گئے تھے جس کے بعد حکومت سندھ نے عدالتی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاڑکانہ نے 30 نومبر 2019 کو رپورٹ مکمل کر کے محکمہ داخلہ کو بھیج دی لیکن اس رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا تاہم اس رپورٹ کی ایک نقل بی بی سی نے حاصل کر لی ہے۔

اس رپورٹ میں عدالتی تحقیقات کے دوران نمرتا کے ساتھ کمرے میں رہنے والی دو طالبات، ساتھ پڑھنے والی طالبات، یونیورسٹی انتظامیہ، ملازمین، پولیس حکام اور میڈیکو لیگل افسر سمیت 45 افراد کے انٹرویوز لیے گئے تھے۔

یہ تحقیقات دو نکات کے گرد کی گئی تھیں کہ وہ کون سے حالات تھے جن میں نمرتا چندانی کی لاش ہاسٹل کے کمرہ نمبر 47 سے ملی اور نمرتا کی موت کی کیا وجوہات تھیں؟

ذیل میں دی گئی تفصیلات کچھ قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

نمرتا کی روم میٹس نے تحقیقاتی افسر کو بتایا ہے کہ دوپہر دو بجے وہ کالج سے واپس آئیں تو کہ دیکھا کہ نمرتا کے کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ اُنھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا مگر اندر سے کوئی جواب نہیں آیا۔ کمرے کے دروازے میں ایک سوراخ تھا جس سے دیکھا تو نمرتا کا آدھا جسم ایک پلنگ اور آدھا دوسرے پلنگ پر تھا، جس کے بعد وہ گارڈ کے پاس گئیں اور اس کو دروازہ توڑنے کے لیے کہا۔

شور شرابے پر دیگر طالبات بھی متوجہ ہوئیں، چوکیدار نے دروازہ توڑا تو دیکھا گیا کہ نمرتا بے سدھ پڑی تھی، اس کا جسم ٹھنڈا ہو چکا تھا، سیاہ رنگ کا دوپٹہ ان کی گردن کے گرد لپٹا ہوا تھا اور جسم کا رنگ نیلا ہو گیا تھا۔

ہاسٹل وارڈن نے تحقیقاتی افسر کو بتایا کہ وہ 16 ستمبر کو صبح ساڑھے آٹھ بجے سے دوپہر دو بجے تک ڈیوٹی پر تھی، اُنھوں نے نمرتا کو راہداریوں میں دیکھا تھا، وہ نارمل اور خوشگوار موڈ میں تھیں اور اُن کے ہاتھ میں موبائل تھا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹر آئی ٹی کے بیان کے مطابق یونیورسٹی میں 100 سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں جن میں سے 43 کی نگرانی ان کا دفتر کرتا ہے، ان میں سے سات کیمرے جن سے زوم کیا جا سکتا ہے کالج کے مرکزی مقامات پر نصب ہیں اور کچھ کیمرے کالج کے گرلز ہاسٹل کی جانب جانے والی سڑک پر بھی موجود ہیں تاہم گرلز ہاسٹل کے دروازے اور راہداری میں کوئی کیمرا نہیں لگا ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے لمحہ بہ لمحہ مشاہدہ کیا ہے مگر واقعے والے روز کوئی مشکوک شخص سٹوڈنٹ ہاسٹل جاتے ہوئے نظر نہیں آیا۔

عدالتی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی افسر نے سینیئر سپرینٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی)، یونیورسٹی کے رجسٹرار پرووسٹ اور ڈپٹی پرووسٹ کی موجودگی میں جائے وقوع کا دورہ کیا جس کے تحت مذکورہ کمرہ نمبر 47 ہاسٹل نمبر تین کی پہلی منزل پر ہے، کمرے کا داخلی دروازہ راہداری میں ہے جبکہ دو کھڑکیاں ہیں ایک اگلی دیوار اور ایک عقبی دیوار میں ہے جو جالی سے سیل تھیں۔

’میں نے مشاہدہ کیا کہ کسی کی مدد کے بغیر ہاسٹل کی پچھلی دیوار سے کوئی کمرے کے اندر داخل نہیں ہو سکتا، زمینی منزل پر کچھ طالبات غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف تھیں، کسی فرد کو عقبی حصے سے کمرے میں داخل ہونے کا کوئی موقع دستیاب نہیں، جبکہ دروازے سے اندر داخل ہونے کی بھی کوئی شہادت نہیں ملی، سی سی ٹی وی کیمرے میں بھی کسی اجنبی کے ہاسٹل کے اندر داخل ہونے کا سراغ نہیں ملا۔‘

رپورٹ میں چانڈکا میڈیکل کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر برائے فورنزک میڈیسن ڈاکٹر رشید احمد خان کی رپورٹ اور بیان کو شامل کیا گیا ہے، ڈاکٹر رشید احمد خان نے بتایا ہے کہ نمرتا کے چہرے، ہاتھوں، پیروں پر کسی قسم کے تشدد کا نشان نہیں تھا، گردن کے اگلے حصے میں لیگیچر (پھندے) کا نشان تھا جو 22 سینٹی میٹر لمبا اور 1.5 سیٹی میٹر چوڑا تھا جبکہ پچھلے حصے پر کوئی نشان نہیں تھا۔

تحقیقاتی افسر نے منطقی انجام پر پہنچتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ڈاکٹر رشید کی شہادت سے معلوم ہوتا ہے کہ گلے پر موجود نشان زیادہ تر خودکشی کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘ اس کے برعکس (میڈیکولیگل افسر) ڈاکٹر امرتا مخمصے کی شکار ہیں کہ یا تو اُن کا گلا گھونٹ کر مارا گیا ہے یا اُنھوں نے لٹک کر خودکشی کی ہے، جبکہ نشان سے واضح ہے کہ ان کا گلا نہیں گھونٹا گیا اور گلے کے گرد نشان نہیں تھا۔

’میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نمرتا کی موت خودکشی تھی، میرے (نتائج) ابتدائی ہیں، ان کو عدالتی کارروائی یا کسی ادارے کی کارروائی پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔‘

عدالتی رپورٹ کے مطابق نمرتا اور اُن کے قریبی کالج کے دوستوں مہران ابڑو اور عالیشان میمن کے موبائل فونز کا فارنزک بھی کروایا گیا اور تحقیقاتی افسر نے ان کے درمیان بات چیت کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔

عالیشان نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ ان کے علاوہ کالج میں نمرتا کے مرد دوست نہیں تھے، ان کے خاندانی مسائل تھے، والدین ان کی سرگرمیاں کالج تک محدود رکھنا چاہتے تھے، وہ مہران ابڑو سے زیادہ قریب تھیں، وہ ان کے گھر بھی جاتی اور وہاں رہتی بھی تھیں۔

عالیشان کے مطابق نمرتا کے ٹیکسٹ میسج میں اُنھوں نے محسوس نہیں کیا کہ وہ زندگی کا خاتمہ کرنے جا رہی ہیں، وقوعہ کے روز 11 سے ساڑھے گیارہ بجے کے درمیان نمرتا نے اُنھیں ٹیکسٹ میسج بھیجا کہ وہ زبانی امتحان کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ میں ہیں، جس پر عالیشان نے اُن سے لائبریری آ کر ساتھ تیاری کرنے کے لیے کہا۔

عالیشان کے مطابق ’اس نے ایک بار پوچھا تھا کہ اگر کوئی غیر مسلم لڑکی مجھے سے شادی کرنا چاہے تو میں کیا کروں گا، تو میں نے جواب دیا تھا کہ اگر والدین نے اجازت دی تو میں شادی کروں گا۔‘

مہران ابڑو نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ نمرتا اپنے خاندانی مسائل بھی اُنھیں بتاتی تھیں اور وہ ڈپریشن اور بے چینی کی شکار تھیں۔

مہران ابڑو کے مطابق نمرتا نے ابتدائی دنوں میں بتایا تھا کہ کراچی میں اُن کے والدین اُنھیں اپنی سہیلیوں کے ساتھ بھی گھر سے باہر جانے نہیں دیتے تھے، وہ خاندان کی جانب سے عدم توجہی اور محبت کے فقدان کی بھی شکایت کرتی تھیں، اور غیر ضروری پابندیوں کی وجہ سے انٹر کے دوران اُنھوں نے خواب آور گولیاں کھا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔‘

مہران کے مطابق وہ خود کو ’ونڈر گرل‘ تصور کرتی تھیں، ان کو یہ بھی شکایت تھی کہ اُن کا خاندان زندگی کے ہر شعبے میں ان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، بی ڈی ایس میں داخلے سے قبل اُنھوں نے بحریہ یونیورسٹی کراچی میں سیلف فنانسنگ پر داخلہ لیا تھا۔ اُن کا خاندان اُن کا مذاق اڑاتا تھا کہ نمرتا نے ہمارے پیسوں پر داخلہ لیا جس سے وہ ڈپریشن میں آ گئیں، پھر اُنھوں نے تیاری کی اور بی ڈی ایس میں میرٹ پر داخلہ حاصل کیا۔

’وہ اکثر ہمارے گھر میں میرے گھر والوں کے ساتھی رہتی تھیں، ہم شادی کے لیے رضامند تھے لیکن وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں تھی جس کی وجہ سے اپنے والدین کو اس سے آگاہ نہیں کیا۔‘

تحقیقاتی افسر نے لکھا ہے کہ کسی بھی گواہ اور خاندان نے نمرتا کی نجی زندگی پر بات نہیں کی، عالیشان میمن اور مہران ابڑو نے اس سے پردہ اٹھایا، اس کی تصدیق واٹس ایپ پیغامات سے بھی ہوتی ہے۔

تحقیقاتی افسر کا کہنا ہے کہ ’میں نے باریک بینی سے کال ڈیٹا ریکارڈز (سی ڈی آر) اور رپورٹس کا جائزہ لیا ہے، مہران ابڑو کے نمرتا کے ساتھ قریبی مراسم تھے اور وہ مایوس تھیں کہ وہ اس سے شادی کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور اس کے علاوہ والدین کا بھی جارحانہ رویہ تھا۔ مہران ابڑو کی خود غرضی ظاہر ہوتی ہے اور وہ مذہب کا فائدہ لینا چاہ رہا تھا، اس کی غفلت انضباطی کارروائی اور تحقیقات کی متقاضی ہے۔‘

رپورٹ میں پوسٹ مارٹم کرنے والی ڈاکٹر کی اہلیت اور قابلیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور ہاسٹل میں وارڈن، ڈپٹی پرووسٹ اور پرووسٹ کی غیر حاضری کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی متعلقہ افراد پر کوئی کارروائی کی گئی ہے، اس عرصے میں ایک اور طالبہ نوشین کی کمرے سے پنکھے میں لٹکی ہوئی لاش مل چکی ہے جس واقعے کی بھی عدالتی تحقیقات کی جا رہی ہے۔

بشکریہ : بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close