وزیرِاعظم کا دورہ ماسکو: کیا پاکستان نے اپنا رخ بدلنے کا فیصلہ کرلیا؟

آصف شاہد

وزیرِاعظم عمران خان کا دورہ ماسکو انتہائی غیر معمولی ماحول میں مکمل ہوا کیونکہ وزیرِاعظم کی ماسکو موجودگی میں ہی صدر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔

اس اعلان کو وزیرِاعظم اور ان کے وفد نے اپنے ہوٹل میں ٹی وی پر سنا ہوگا، جب دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوئی تو روس کی بری، بحری اور فضائی افواج یوکرین پر تین اطراف سے حملہ شروع کرچکی تھیں۔

وزیرِاعظم کے دورہ کی ٹائمنگ پر ملکی اور بین الاقوامی میڈیا بالخصوص بھارت میں تبصرے ہوئے اور دورے کے وقت کو نامناسب قرار دیا گیا۔ وزیرِاعظم کا دورہ دراصل کئی ماہ سے طے تھا لیکن اس کی تاریخوں کا اعلان شاید اسلام آباد کے لیے زیادہ اچھا نہیں تھا۔

ماسکو کو امریکا اور نیٹو اتحاد سزا دینے اور اچھوت بنانے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور ایسے وقت میں پاکستان کے امریکا اور نیٹو کے پرانے اتحادی ہونے کی حیثیت سے وزیرِاعظم کے دورے کو دیکھنے کی کوشش ہوئی۔

وزیرِاعظم کے دورے کا شیڈول مرتب کرتے ہوئے دفترِ خارجہ نے ماحول اور اس کے اثرات ضرور جانچے ہوں گے، اگر ایسا ہی ہے تو یہ دورہ دنیا کے لیے ایک پیغام ہے لیکن اگر ملکی سیاسی ماحول میں دورہ ماسکو کو استعمال کرنے کی کوئی کوشش ہوئی ہے تو یہ خارجہ پالیسی میں ایک بہٹ بڑا بلنڈر ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس دورے سے پہلے ملک کی ایک اور طاقتور شخصیت نے برسلز اور واشنگٹن کا دورہ کیا تھا، اگر دورہ ماسکو مشاورت کے ساتھ کسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے تو بہت بڑا پالیسی شفٹ ہے۔ سوویت یونین کے خلاف امریکا کا ساتھ دینے اور نائن الیون (9/11) کے بعد امریکا کے نان نیٹو اتحادی کا درجہ رکھنے والے ملک کا روس کے ساتھ اس نازک وقت میں قربت بڑھانا اور اسے ظاہر کرنا بالکل نیا منظرنامہ ہے جس کی توقع بھی شاید نہیں کی جا رہی ہوگی۔

افغانستان سے امریکی فوجی انخلا جن حالات میں ہوا اور پاکستان، چین، روس نے افغان طالبان کو جس طرح بین الاقوامی مذاکرات میں مدد دی، اس کو دلیل بنا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ روس کے ساتھ گرمجوشی اور قربت نئی نہیں لیکن یہ دلیل کمزور ہوگی۔ افغانستان کے معاملے پر تینوں ملکوں کا تعاون مشترکہ مفاد کے لیے تھا اور اسے روس، پاکستان قربت یا گرمجوشی نہیں کہا جاسکتا۔

یوکرین تنازع جس طرح سے دنیا کو متاثر کرنے جا رہا ہے وہ خارجہ امور کے ماہرین اور اسٹیبلشمنٹ سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس تنازع کو تیسری جنگِ عظیم کا پیش خیمہ بتایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ورلڈ وار ابھی دُور ہے، فی الوقت اسے دوسری سرد جنگ کا نام دیا جاسکتا ہے کیونکہ روس اور اس کی حمایت کرنے والے ملکوں پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے پابندیوں کے اعلانات شروع ہوچکے ہیں۔

صدر بائیڈن نے روسی ہم منصب کو بین الاقوامی سطح پر اچھوت بنانے کی دھمکی دی اور روس کو دنیا کے مالیاتی نظام سے الگ کرنے کی پہلی کڑی کے طور پر اسے ڈالر اور جاپانی ین میں لین دین سے ہر ممکن روکنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ سرد جنگ کی ابتدا ہے۔

یوکرین کی جنگ دراصل امریکا، روس اور چین کے درمیان بالادستی کی کشمکش ہے اور دنیا کو چلانے کے لیے نئے نظام کی تشکیل کی کوششوں کا حصہ ہے۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اس نئی سرد جنگ میں بالکل مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا، کیونکہ امریکی بالادستی کے خاتمے کے لیے اب بننے والا روس-چین اتحاد، 1950ء کی دہائی کے چین سوویت بلاک سے مختلف ہے۔

سوویت بلاک کے برعکس اب روس یورپ کا سب سے بڑا گیس سپلائی کرنے والا ملک ہے جبکہ چین بھی روس کا غربت اور جنگ سے تباہ حال شراکت دار نہیں بلکہ دنیا کی معیشت کا پاور ہاؤس ہونے کے ساتھ دنیا کی بڑی فوجی طاقت بھی ہے۔

یوکرین میں فوج داخل کرنے سے پہلے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے مطالبات کیا تھے، ان پر غور کیا جائے تو سیدھا اور صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ سرد جنگ کے بعد یورپ کی سیکیورٹی کے لیے تشکیل دیے گئے سیکیورٹی معاملات کو بدلنے کا مطالبہ کر رہے تھے اور یوکرین میں فوج داخل کرکے صدر پیوٹن نے دنیا کو بتا دیا کہ وہ معاشی پابندیوں اور یورپی تحفظات کو خاطر میں نہیں لائے اور بزورِ طاقت بات منوانے کی صلاحیت کا گمان رکھتے ہیں۔

یوکرین جنگ کے لیے روس نے چین کے بارڈر کو تقریباً خالی چھوڑ کر تمام فوج محاذ پر لگا رکھی ہے جس سے صدر پیوٹن کا بیجنگ پر اعتماد جھلکتا ہے۔ روس اور چین باضابطہ اتحادی نہیں ہیں لیکن اپنے مفاد میں گلوبل آرڈر کو تبدیل کرنے کے لیے باہم تعاون کر رہے ہیں۔

امریکا دنیا کے دو مختلف خطوں میں، جہاں اس کے گہرے سیکیورٹی اور معاشی مفادات جڑے ہیں، بیک وقت دو فریقوں سے نبردآزما ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کو اب بڑے فیصلے کرنے ہوں گے اور فوجی اخراجات میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔

طویل جنگوں کے بعد واپس بلائے گئے فوجیوں کو دوبارہ بیرونِ ملک منتقل کرنا پڑے گا اور بائیڈن ایسا کر بھی رہے ہیں اور اس کے ساتھ یورپ کے ہیٹنگ سسٹم کو رواں رکھنے کے لیے ماسکو کی گیس پر انحصار کم کرنے کے راستے بھی تلاش کرنا پڑیں گے۔

امریکی صدر نے کہا کہ ‘انہوں نے صدر پیوٹن کو کمزور نہیں سمجھا تھا اور وہ ان کے اس سے بھی بڑے اقدام کی توقع کر رہے تھے لیکن اگر صورتحال کا بغور جائزہ لیں تو امریکا اور نیٹو پچھلے کئی ماہ سے جاری کشمکش کو اس قدر سنجیدہ نہیں لے رہے تھے اور وہ یوکرین پر براہِ راست حملے کی توقع نہیں رکھتے تھے’۔

اگرچہ پچھلے 2، 3 ہفتوں سے یوکرین پر حملے کی تاریخیں بھی امریکی انٹیلی جنس نے بتانا شروع کردی تھیں لیکن اس وقت تک حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ صدر پیوٹن کو روکنا ممکن نہیں رہا تھا۔ امریکا کا خیال تھا کہ صدر پیوٹن کریمیا اور ڈونباس جیسی کوئی چھوٹی موٹی کارروائی کریں گے اور یوں ایک آزاد ملک پر حملے کا امکان انہوں نے شاید نہیں دیکھا تھا۔

روس یا صدر پیوٹن کو کمزور نہ سمجھنے کا دعویٰ اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ امریکی انتظامیہ چین کو اصلی چیلنج قرار دیتی رہی ہے جبکہ روس کو کم خطرناک کہا جاتا رہا ہے۔

صدر بائیڈن روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر چین کے مقابلے پر توانائیاں اور وسائل خرچ کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے اس لیے اب ان کا یہ کہنا کہ انہوں نے پیوٹن کو کمزور نہیں سمجھا، سیاسی بیان ہے جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جواب ہے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن اور ان کے منصوبے کو سراہا تھا۔ روس کے ساتھ تعلقات بہتری کے لیے صدر بائیڈن نے اپنے ہم منصب کے ساتھ پچھلے سال جون میں سربراہی ملاقات بھی کی تھی اور نیو اسٹارٹ معاہدے میں 5 سال توسیع پر بھی اتفاق کیا تھا۔

بائیڈن نے وسطی ایشیا میں روس کے فوجی اڈوں کو استعمال کرکے افغانستان میں دہشتگردی پر نظر رکھنے کی تجویز پر بھی غور کیا تھا۔ یوں واضح ہوگیا کہ صدر بائیڈن نے اندازے لگانے میں کئی غلطیاں کیں جو اب انہیں بھگتنا پڑ رہی ہیں۔

صدر پیوٹن امریکی اندازوں سے زیادہ ہوشیار نکلے اور انہوں نے واشنگٹن کی توجہ کسی اور طرف پاکر بیلا روس اور یوکرین کو اپنے زیرِ اثر لانے کی منصوبہ بندی شروع کردی اور آج وہ یوکرین کو قبضے میں لے کر یورپ اور نیٹو کے دروازے پر کھڑے ہیں۔

چین اور روس کبھی مثالی اتحادی نہیں رہے، یوکرین پر حالیہ حملہ بھی بیجنگ کے برسوں پرانے اور مستقل مؤقف سے میل نہیں کھاتا کہ ملکوں کی خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہیے اور ان کے معاملات میں دخل اندازی سے بھی گریز کیا جانا چاہیے، لیکن اس کے باوجود بیجنگ اس بار ماسکو کی حمایت میں کھڑا نظر آتا ہے اور چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے روس کو جارح ملک کہنے سے گریز کیا اور کہا کہ ماسکو کو اشتعال دلایا گیا اور اس کے پاس دیگر کوئی آپشن نہیں رہنے دیا گیا تھا۔

صدر بائیڈن جمہوری ملکوں کے اتحاد یا بلاک کی پالیسی کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں، یوں یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ امریکا خود دنیا کو 2 دھڑوں میں تقسیم کرنے پر کاربند ہے۔ امریکا نے جمہوریت کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہتھیار بنا رکھا ہے، جہاں چاہتا ہے جمہوریت کی حمایت کے بہانے احتجاج اور تحریکیں برپا کروا دیتا ہے اور مرضی کی حکومتیں بنواتا ہے۔ سوویت یونین کی سابق ریاستوں میں بھی اس کی یہی پالیسی ہے۔

یوکرین کے صدر زیلنسکی اسی پالیسی کے تحت مزاحیہ اداکاری سے صدارت تک پہنچائے گئے۔ بیجنگ امریکا کے اس جمہوری ایجنڈے کو خطرہ سمجھتا ہے اور ہانگ کانگ میں حالیہ احتجاج اس کی ایک مثال ہے۔ تائیوان کو بھی جمہوریت کے نام پر چین کے سامنے کھڑا کیا گیا ہے۔ صدر شی جن پنگ ایسے احتجاج کو بزورِ طاقت دبانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔

تخفیف اسلحہ کے معاہدے بے اثر ہونے کے بعد امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ اب مزید بجٹ بڑھائے گی۔ فوج کی تعداد بھی بڑھے گی اور میزائلوں پر بھی پیسہ خرچ کیا جائے گا۔ امریکا جو جنگوں سے جان چھڑا کر معاشی مقابلے کی تیاری کر رہا تھا مگر اب ایک بار اسی دلدل میں واپس دھنس جائے گا۔

بیجنگ نے جنوبی بحیرہ چین میں فوجی اڈے بنانے کے ساتھ ساتھ دُور دراز فوجی اڈوں کے حصول پر کام تیز کر رکھا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل دنیا کی کئی بندرگاہیں اس کے مستقبل کے فوجی اڈوں میں بدل سکتی ہیں۔

یوکرین جنگ کے نتیجے میں امریکا اور اتحادیوں نے ماسکو پر جو معاشی اور ٹیکنالوجی پابندیاں عائد کی ہیں ان کے نتیجے میں روس کا چین پر انحصار بڑھ جائے گا اور دونوں کا اتحاد مضبوط ہوگا۔

امریکا اور اتحادیوں نے فوری طور پر عائد کی گئی پابندیوں میں بین الاقوامی بینکنگ نظام (سوئفٹ) کے حوالے سے پابندیاں شامل نہیں کیونکہ امریکا اور اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ چین اور روس مل کر ادائیگیوں کا نیا نظام وضع کرلیں گے۔

یورپ کا توانائی کے لیے روس پر انحصار بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور توانائی کا مسئلہ اب قومی سلامتی میں شامل ہوگیا ہے۔ نیٹو اتحاد بھی مستقبل میں فوجی اخراجات کی وجہ سے بکھر سکتا ہے، جیسے ماضی میں سابق صدر ٹرمپ نیٹو کو طفیلی قرار دے کر دفاعی رقم بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالتے تھے، یورپی ملک بھی دفاعی اخراجات میں اضافے سے اختلافات کا شکار ہوسکتے ہیں۔

یوکرین پر روس کا قبضہ ہوگیا تو روس کی بری، بحری اور فضائی افواج پولینڈ، سلواکیہ، ہنگری اور رومانیہ کے سرپر ہوں گی جبکہ مالدووا پر بھی روسی کنٹرول کا خدشہ ہے۔ سب سے زیادہ خطرہ بالٹک ریاستوں کو ہوگا۔ روس ایسٹونیا اور لٹویا کا پہلے ہی ہمسایہ ہے جبکہ بیلاروس کے راستے وہ لتھوینیا تک بھی رسائی رکھتا ہے۔ یوکرین پر روس کا قبضہ مکمل ہونے کے بعد بالٹک ریاستوں کے دفاع کا سوال سر اٹھائے گا۔

دوسری طرف چین یوکرین کے تجربے کے بعد تائیوان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ تائیوان پر قبضہ مشرقی ایشیا میں چینی بالادستی کے لیے اہم ہے اور اگر تائیوان بیجنگ کے قابو میں نہیں آتا تو مشرقی ایشیا پر بالادستی مشکل ہوگی۔ تائیوان پر چین کا قبضہ ہوگیا تو خطے کے باقی ملک مدد کے لیے امریکا کی جانب دیکھیں گے۔ یوں امریکا اور اتحادیوں کو دو محاذوں پر لڑنا پڑے گا جو انہیں مشکل میں ڈال دے گا۔

دنیا میں بدلتے ہوئے سیکیورٹی منظرنامے میں وزیرِاعظم عمران خان کا دورہ ماسکو پاکستان کے لیے کیا رنگ لائے گا یہ دیکھنا ابھی باقی ہے، تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس دورے کے لیے عجلت دکھائی گئی جو مناسب نہیں تھی۔ کسی بھی کیمپ کا حصہ بننے سے پہلے حکمتِ عملی طے کی جانی چاہیے اور یہ حکمتِ عملی کسی فرد کو تشکیل دینے کا اختیار نہیں، اس کے لیے عوام کے نمائندہ فورم پارلیمنٹ سے رہنمائی لی جانی چاہیے۔

بحوالہ : ڈان نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close