اسٹوڈیو میں معمول کے پروگرام کی ریکارڈنگ کرتے ہوئے میرے ہاتھ کنٹرول پینل کے بٹنوں پر تھے اور آنکھیں سامنے اسکرین پر، لیکن میرا ذہن دفتر آتے ہوئے راستے میں سنی گئی بین الاقوامی بریکنگ نیوز پر تھا، جس کے مطابق جمعرات کی صبح روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے قوم سے خطاب کے بعد روسی فوجوں نے یوکرین کے خطے ڈونباس پر حملہ کردیا۔
جنگ جنگ ہوتی ہے جس میں بہت سی جانیں جاتی ہیں۔ بہت سا خون بہتا ہے۔ برسوں کی محنت سے بنائی گئی بلند و بالا عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں اور بہت سا سبزہ جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔
میرا روس سے کوئی تعلق نہیں اور یوکرین کے بارے میں بھی کوئی مخصوص جذبات نہیں ہیں۔ لیکن جان کہیں بھی جائے، خون کہیں بھی بہے، ایک انسان ہونے کے ناتے میرا دل غمزدہ ہے۔
جنگیں کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتیں۔ یوکرین ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ اندرونی اختلافات اور تنازعات کس ملک میں نہیں ہوتے۔ یہ خالصتًا یوکرین کا اندرونی معاملہ ہے لیکن ان تنازعات اور اختلافات کا فائدہ اٹھا کر کسی بیرونی طاقت یا کسی ہمسائے کو ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس ملک کی سالمیت، خودمختاری اور سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اینٹ سے اینٹ بجا دے، عوام میں خوف و ہراس پھیلا دے اور برسوں کی ترقی کو آگ اور بارود کے دھویں میں اُڑا دے۔ وہ بھی تب جب وہ ملک کمزور ہو اور آپ دنیا کی دوسری بڑی ایٹمی طاقت ہوں۔
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد امریکا نے فوری طور پر جی ایٹ ممالک کے سربراہان کا اجلاس بلایا اور سب نے مل کر روس پر نئی معاشی پابندیاں عائد کردیں۔ امریکی قوم سے خطاب میں صدر بائیڈن نے کہا کہ ہم نے بینکوں میں موجود دس کھرب ڈالر سے زائد کے روسی اثاثے منجمد کردیے ہیں۔
اس حوالے سے جمعرات کی شام ہی اقوام متحدہ کے بلائے گئے ہنگامی اجلاس میں اقوام عالم نے بھی روس کی اس ہٹ دھرمی اور جارحیت کے خلاف سخت سے سخت ردعمل اور پابندیوں کا عندیہ دیا۔
روس کا کہنا ہے کہ صرف فوجی تنصیبات اور فوجی علاقوں کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن دنیا بھر کا میڈیا چیخ چیخ کر یوکرین سے آنے والی خون اور گرد آلود تصاویر کا حوالہ دے رہا ہے جس میں یوکرینی عوام حملے کے بعد دھوئیں اور بارود میں کہیں بھاگتے دوڑتے جان بچاتے نظر آرہے ہیں اور کہیں زیرِ زمین سب ویز میں پناہیں لیتے دکھائی دیتے ہیں۔
میں نے روسی صدر پوٹن کی تقریر بھی سنی، جس میں وہ اقوامِ عالم کو اس جنگ میں مداخلت پر خطرناک نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے نظر آتا ہے اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی بھی، جس میں وہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یوکرینی عوام امن چاہتے ہیں، ہم امن چاہتے ہیں، جنگ سے متاثر سب سے زیادہ عام لوگ ہوں گے، میں نے صدر پوٹن کو فون بھی کیا لیکن جواب میں خاموشی تھی۔
ساری دنیا اس جنگ کے خلاف ہے۔ میں پھر کہوں گی کہ خون کہیں بھی بہے خون ہے۔ اختلافات جو بھی ہوں ان کو بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے، جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔
یوکرین اور روس کی جنگ دراصل اب یوکرین اور روس کی جنگ نہیں، یہ روس کی دنیا بھر سے جنگ کا اعلان ہے کیونکہ لگ بھگ پوری دنیا نے روس کو اس جنگ سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن پوٹن نے پھر بھی یوکرین پر حملہ کردیا۔
دیکھا جائے تو یہ روس کی آدھی سے زیادہ دنیا کے ساتھ جنگ ہے۔ یہ ہاتھیوں کی لڑائی ہے۔ یورپ سمیت دنیا کے زیادہ تر ممالک یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ہاتھیوں کی اس لڑائی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
عین اس موقع پر جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا پاکستانی وزیرِاعظم روس میں موجود تھے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس سارے معاملے میں ہمیں فریق بننے کی کیا ضرورت تھی؟
امریکا، برطانیہ اور سارا یورپ جہاں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر ہے، وہ پاکستان کے اس اقدام کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ ہم دنیا بھر کو کیا پیغام دینے جارہے ہیں؟
روس اور یوکرین میں تو شاید پاکستانی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوں گے۔ یورپ، برطانیہ، امریکا سمیت باقی ممالک میں موجود پاکستانیوں (جو ایک بڑی تعداد ہے) کو اب کس نگاہ سے دیکھا جائے گا؟
وہاں ان کےلیے کیا کیا مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں؟ سبز پاسپورٹ کےلیے کہاں کہاں کے دروازے مزید بند ہوسکتے ہیں؟ بیرون ملک مقیم پاکستانی، جن کا بھیجا گیا زرِمبادلہ جو اس بدترین معاشی صورتحال میں خود عمران خان کے مطابق ایک بڑا کنٹری بیوشن اور ڈھارس ہے ان کےلیے اب کیا کیا نئے چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں؟ کیا ایک بار بھی ہاتھیوں کی لڑائی میں فریق بنتے وقت وزیرِاعظم عمران خان نے سوچا؟
مجھے نہیں لگتا یورپ اور باقی دنیا اس بات کو اتنی آسانی سے بھول جائے گی یا نظر انداز کردے گی کہ جس وقت ساری دنیا کے منع کرنے کے باوجود روس نے یوکرین پر حملہ کیا پاکستانی وزیرِاعظم روس میں موجود تھے۔
ہم تو پردیس میں ہیں لیکن وہاں دیس میں موجود لوگوں سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بے انتہا مہنگائی کے بارے سنتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں ایک عام ایماندار انسان کا جینا کتنا دوبھر ہے۔ اور اب ڈر ہے کہ ہاتھیوں کی اس لڑائی میں فریق بننے کی پاداش میں ایسے اسباب پیدا کردیے گئے ہیں کہ پاکستانی تلاش روزگار کےلیے دوسرے ممالک کا رخ بھی نہ کرسکیں۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
سنگت میگ اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بلاگر مختلف میڈیا آرگنائزیشن کے ساتھ کام کرنے کے ساتھ مختلف قومی اور بین الاقوامی جرنلسٹس باڈیز کی ممبر ہیں۔ آج کل دبئی میں رہایش پذیر اور فری لانس صحافی کے طور پر کام کررہی ہیں۔