کیف – یوکرین کی مسلح افواج کا کہنا ہے کہ کیف شہر کی گلیوں میں لڑائی کا آغاز ہو گیا ہے، لیکن وہ روسی حملوں کو پسپا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب یوکرین کے صدر ولادیمر زیلنسکی نے یوکرین سے انخلا میں مدد کے لیے واشنگٹن کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے
جمعرات کو طلوع آفتاب سے قبل روس کی جانب سے شروع ہونے والی کارروائی میں بڑے پیمانے پر فضائی اور میزائل حملوں اور شمال، مشرق اور جنوب سے یوکرین میں فوجیں داخل ہونے کے بعد سے کل دو سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں
ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ اس وقت ہوا جب ہفتے کے روز روسی فوجیوں نے یوکرین کے دارالحکومت کی طرف دھاوا بولا اور سڑکوں پر لڑائی شروع ہوگئی جبکہ شہری انتظامیہ نے رہائشیوں سے پناہ لینے کی اپیل کی ہے
ملک کے صدر نے انخلا کی امریکی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ لڑائی کے دوران وہ ملک میں ہی رہیں گے
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے پی’ کے مطابق ہفتے کی صبح فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ فوجیوں نے کیف میں کس حد تک پیش قدمی کی، تاہم شہر کے سرحدی علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں سے پتا چلتا ہے کہ چھوٹے روسی یونٹس یوکرین کے دفاعی نظام کا اندازہ لگا رہے ہیں تاکہ مرکزی افواج کے لیے راستہ صاف کیا جاسکے
تاہم تین دن سے بھی کم لڑائی کے بعد فوجیوں کی تیز رفتار حرکت نے روسی حملے کے بعد جمہوری حکومت کو خطرے میں ڈال دیا ہے
امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، یوکرین کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اس کی جگہ اپنی حکومت لانے کے لیے پرعزم ہیں، یہ حملہ روسی صدر کی یورپ کے نقشے کو دوبارہ بنانے اور ماسکو کے سرد جنگ کے دور کے اثر و رسوخ کو بحال کرنے کی بے باکانہ کوشش ہے
یوکرین کو دھماکوں اور گولیوں کا سامنا ہے اسی دوران صدر ولودیمیر زیلنسکی نے جنگ بندی کی اپیل کی اور ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ متعدد شہر حملے کی زد میں ہیں، انہوں نے کہا کہ ملک کا مستقبل ہوا میں معلق ہو گیا ہے
انہوں نے مزید کہا کہ اس رات ہمیں ثابت قدم رہنا ہے، اس وقت یوکرین کی قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہے
امریکی اہلکار نے یوکرین صدر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کا کہنا تھا کہ لڑائی یہاں ہے اور انہیں ٹینک شکن گولہ بارود کی ضرورت ہے لیکن اس پر سوار ہو کر بھاگنے کی نہیں
کریملن نے کیف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو قبول کر لیا، لیکن روسی فوج نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے
گزشتہ روز جنوبی یوکرین کے شہر میلیٹوپول پر قبضے کا دعویٰ کیا گیا، جنگ کی دھند میں یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ ملک کا کتنا حصہ اب بھی یوکرین کے کنٹرول میں ہے اور روسی افواج نے کتنے حصے پر قبضہ کرلیا ہے
یوکرین کی فوج نے خبر دی ہے کہ اس نے کیف سے چالیس کلومیٹر جنوب میں واقع شہر واسلکیو کے قریب لڑائی میں ایک II-76 روسی ٹرانسپورٹ طیارے کو گولی مار کر گرا دیا گیا ہے جس میں پیرا ٹروپرز سوار تھے، جس کی تصدیق ایک سینئر امریکی انٹیلی جنس اہلکار نے کی ہے
یہ واضح نہیں ہے کہ جہاز میں کتنے لوگ سوار تھے، ٹرانسپورٹ طیارے میں ایک سو پچیس پیراٹروپرز بیک وقت سفر کر سکتے ہیں
یوکرین کے زمینی حالات سے براہ راست علم رکھنے والے دو امریکی عہدیداروں کے مطابق ایک دوسرا روسی فوجی ٹرانسپورٹ طیارہ کیف سے 85 کلومیٹر جنوب میں بلا تسرکوا کے قریب گرایا گیا، تاہم روسی فوج نے کسی بھی طیارے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا
ادہر روسی فوج کے یوکرین کے حملے کے بعد اپنے ملک کے دفاع میں سابق صدر پیٹرو پوروشینکو کلاشنکوف اُٹھا کر سڑکوں پر نکل آئے جب کہ خاتون رکن اسمبلی کیرا روڈک بھی اسلحہ تھام کر جنگ کے لیے تیار ہیں
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یوکرین کے سابق صدر پیٹرو پوروشینکو نے براہ راست نشر ہونے والے انٹرویو میں کلاشنکوف لہراتے ہوئے کہا کہ اپنے وطن کے دفاع میں روس سے جنگ کو تیار ہوں
2014 سے 2019 تک یوکرین کے صدر رہنے والے پیٹرو پوروشینکو نے مزید بتایا کہ ان کے پاس رائفلز اور دو مشین گنیں بھی ہیں جو وہ روسی فوجیوں کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے استعمال کریں گے جس کے لیے وہ سڑک پر ہر وقت موجود رہیں گے
اسی طرح یوکرین کی خاتون رکن اسمبلی کیرا روڈک نے بھی سوشل میڈیا پر اپنی ایک تصویر شیئر کی ہے جس میں انھیں کلاشنکوف تھامے دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنے پیغام میں خاتون رکن اسمبلی نے خواتین کے جنگ میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی
یوکرین پارلیمنٹ کی رکن اسمبلی کیرا روڈک نے مزید لکھا کہ وہ کلاشنکوف کا استعمال سیکھ رہی ہیں اور روس کے خلاف جنگ کے لیے ہتھیار اٹھانے کی تیاری کر رہی ہیں تاکہ مردوں کے شانہ بشانہ جنگ لڑ سکیں
دوسری جانب فرانس کے صدر ایمانوئل میکخواں نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کو روس اور یوکرین کے درمیان ایک طویل جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے
فرانسیسی خبر رساں اداے کے مطابق سنیچر کو فرانسیسی صدر کا یہ بیان ماسکو کی جانب سے اپنے مغرب نواز ہمسائے یوکرین پر حملے بعد سامنے آیا ہے
صدر میکخواں نے پیرس میں زراعت کے سالانہ میلے کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ’اس صبح اگر میں آپ کو کچھ بتا سکوں تو وہ یہ ہے کہ جنگ جاری رہے گی، بحران جاری رہے گا اور اس کے بعد آنے والے بحران بھی طویل مدتی نتائج لائیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم کو تیار رہنا چاہیے۔‘