خضدار – پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان، بلوچستان کا علاقہ خضدار، اسی خضدار کے ایک گھر کے اس کمرے میں داخل ہوتے ہی آپ کو لگے گا کہ شاید یہ کسی کا رہائشی کمرہ نہیں بلکہ سائنس کے تجربات کے لیےبنائی گئی کوئی تجربہ گاہ ہے
یہاں دیواروں پر خلائی راکٹ اور ستاروں کی تصاویر اور سائنس کے حوالے سے دیگر چیزیں ملیں گی، جو اکثر فلموں یا سائنس کے تجربات کرنے والے اداروں میں ہوتی ہیں
یہ کمرہ ہے پاکستان کی کم عمر سائنسدان علینہ بلوچ کا، جو نہ صرف خود سائنس کا شوق رکھتی ہیں بلکہ اپنے اسکول اور دوسرے بچوں کے لیے ایک مثال بن چکی ہیں
خضدار سے تعلق رکھنے والی علینہ کو بچپن سے خلا میں جانے کا شوق تھا
علینہ بلوچ کہتی ہیں ”بچپن سے ہی ان کے ذین میں تھا کہ مجھے آسمان میں جانا ہے لیکن اس وقت یہ علم نہیں تھا کہ وہاں کس طرح جاتے ہیں۔“
علینہ کا کہنا ہے ”جب میں بڑی ہوتی گئی تو کچھ چیزوں کی سمجھ آئی کہ آسمان پر جانے کے لیے علم ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ سیکھنا پڑتا ہے“
علینہ کا بچپن دوسروں سے مختلف تھا اور وہ ان چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتی تھیں جو عموماً بچیاں پسند کرتی ہیں۔ وہ مشین اور اس سے بننے والی چیزوں کی طرف راغب ہوتی تھیں
ان کی والدہ سمیرہ محبوب نے بتایا کہ علینہ بچپن میں بہت شرمیلی اور اکیلی رہنے والی بچی تھی۔ ”اسے گڑیا اور اس جیسی دوسری چیزوں میں کوئی دلچپسی نہیں ہوتی تھی۔“
سمیرہ محبوب کہتی ہیں ”علینہ میری لائی ہوئی بچیوں کے کھلونوں اور دیگر اشیا مثلا گڑیا وغیرہ سے نہیں کھیلتی تھی اور یہ چیزیں ویسی ہی پڑی رہتی تھیں“
والدہ کے مطابق ”یہ بچی ہمیشہ ان چیزوں میں زیادہ دلچسپی لیتی تھی، جو مشین سے چلتی ہوں، جیسے ریموٹ سے چلنی والی گاڑیاں اور دوسری ایسی چیزیں جن میں مشین لگی ہو“
سمیرہ نے بتایا ”کھلونوں کے علاوہ یہ بچی بچپن میں ایسے سوالات پوچھتی تھی، جو ہمیں اُس وقت اُس کی عمر کے لحاظ سے فضول/عجیب لگتے تھے“
سمیرہ نے بتایا کہ ”ہم نے گذشتہ سال اسکول میں سائنس فیوز کے ساتھ ایک منصوبہ شروع کیا، جس میں ادارے نے ہمارے بچوں کے ساتھ سائنس کے حوالے سے کچھ تجربات پر کام کرنا تھا اور انہیں سائنس سے متعلق تربیت دینا شامل تھا“
انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کےشروع ہونے کے بعد علینہ کے لیے راستے اور مواقع کھلتے گئے اور وہ خود سیکھتی رہی دوسروں کو بھی بتاتی تھی۔ ان کے مطابق: ”پھر ہمیں کچھ نہیں کرنا پڑا۔ جو کچھ بھی اس نے سیکھا اور رابطے کیے وہ سب اس نے خود کیے“
علینہ نے بتایا کہ سائنس فیوز کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ انہوں نے جرنی ٹو اسپیس اور ربوٹکس کی فیلو شپ بھی حاصل کی اور اس طرح انہوں نے ٹیکنالوجی سے واقفیت کے ساتھ سائنس کے تجربات کرنا بھی سیکھا
علینہ کے مطابق: ’سائنس فیوز نے ہمیں بہت کچھ سکھایا۔ جو سائنس کو سمجھنے اور تجربات کرنے میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔ اس کے ذریعے میں دنیا کے ساتھ رابطے میں رہی پہلے مجھے لیپ ٹاپ اور سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس کا پتہ نہیں تھا۔ اب میں اپنی وڈیوز بناتی ہوں، انہیں اپ لوڈ کرسکتی ہوں۔ زوم پر میٹنگز کرتی ہوں اور میں نے اپنی ویب سائٹ بھی ڈیزائن کی ہے۔ یہ سب میں نے ان فیلوشپس کے دوران سیکھا ہے۔‘
علینہ کی آنکھوں میں نہ صرف خلا میں جانے کا خواب ہے، بلکہ وہ اس کی لگن بھی رکھتی ہیں۔ وہ خلانورد بننا چاہتی ہیں۔ انہیں نیپچون سیارے پر جانے کا شوق ہے
وہ معصومیت سے کہتی ہیں ”کہیں اور جائیں نہ جائیں، لیکن اس سیارے پر ضرور جائیں گی، کیوں کہ اس کی مٹی اور میرا پسندیدہ رنگ ایک جیسے ہیں“
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے کوسمک ٹرائب کے ساتھ کام کیا، جس نے میرے لیے ایک کٹ بھیجی ہے۔ جس میں بہت ساری مشینں ہیں اور میں اس کے ذریعے ربوٹ اور پنکھا بناسکتی ہوں۔ لائٹس آن کرسکتی ہوں۔‘
علینہ نے بتایا ”ہمارے اسکول میں سائنس کے حوالے سے کام کے باعث اب ہر بچی سائنس کا شوق رکھتی ہے اور تجربات کرنا چاہتی ہے، لیکن خضدار میں بجلی نہ ہونا اور انٹرنیٹ کی سہولت کے محدود ہونے کے باعث انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ دونوں سہولتیں بہت کم علاقوں کے مکینوں کو میسر ہیں“
علینہ کا کہنا ہے کہ ’میں بہت شرمیلی تھی۔ لیکن اب میں اپنے اسکول کی طالبات کو سائنس کی تعلیم میں رہنمائی کررہی ہوں۔‘
سائنس فیوز کے ذریعے آپ و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں جاننے کے بعد علینہ اب اپنی جماعت کی 73 ہم جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ تاکہ وہ اپنی کمیونٹی میں آب وہوا کی تبدیلی کے اثرات کو کم کر سکیں.