کراچی – عالمی تناظر میں روس کے حوالے سے کئی بار یہ کہا گیا کہ ’پوتن ایسا کبھی نہیں کریں گے۔‘ لیکن پھر انہوں نے اس سوچ کو غلط ثابت کرتے ہوئے وہی کچھ کر دکھایا
پوتن کے حوالے سے کہا گیا کہ ’وہ کبھی بھی کریمیا پر قبضہ نہیں کریں گے۔‘ مگر انھوں نے کر لیا۔ خیال تھا کہ ’وہ کبھی بھی ڈنباس میں جنگ شروع نہیں کریں گے۔‘ مگر پوتن نے یہ جنگ چھیڑ دی۔ کچھ دن پہلے کہا جا رہا تھا کہ ’پوتن یوکرین پر باقاعدہ حملہ نہیں کر سکتے۔‘ مگر انھوں نے کر دیا۔
اب تجزیہ کار سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ’ایسا کبھی نہیں ہو سکتا‘ کے جملے کا اطلاق ولادیمیر پوتن پر نہیں ہوتا
لیکن بدقسمتی سے یہ نتیجہ ایک اور انتہائی مشکل اور خطرناک سوال کو جنم دیتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ’پوتن کبھی بھی نیوکلیئر بٹن دبانے میں پہل نہیں کریں گے؟‘
خیال رہے کہ یہ کوئی فرضی سوال نہیں ہے۔ روس کے صدر گذشتہ رات اپنے ملک کی جوہری فورسز کو الرٹ رہنے کا حکم دے چکے ہیں۔ انہوں نے اس فیصلے کی وجہ نیٹو رہنماؤں کی جانب سے جاری کردہ ’جارحانہ بیانات‘ کو قرار دیا ہے
پوتن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ صدر ولادیمیر پوتن کا 27 فروری کو روس کی جوہری فورسز کو ’خصوصی الرٹ‘ پر رکھنے کا حکم برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس کے بیانات کا جواب تھا
روسی خبر رساں ایجنسی انٹرفیکس کے مطابق پیسکوف کا کہنا ہے کہ ’مختلف ملکوں کے نمائندوں کے ایسے بیانات سامنےآئے ہیں، جن میں تنازعے کے متعلق اندازے لگائے گئے ہیں، نیٹو اور روسی فیڈریشن کے درمیان تصادم اور جھڑپوں کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ ہم ایسے بیانات کو قطعی طور پر ناقابل قبول سمجھتے ہیں۔ میں ان بیانات دینے والوں کا نام نہیں لوں گا تاہم یہ برطانوی سکریٹری خارجہ تھے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ جوہری فورسز کو ’خصوصی الرٹ‘ پر رکھنے کا حکم دیتے ہوئے پوتن نے کیا فوج کے لیے کوئی اہداف رکھے تھے، پیسکوف نے جواب دیا: ’اس میں کیا سمجھنے کی ضرورت ہے؟ اس کا کوئی دوسرا مطلب نہیں۔ اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ سپریم کمانڈر ان چیف کا حکم ہے۔‘
یہی وجہ ہے تجزیہ کار حالیہ دنوں میں پوتن کے بیانات کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ گذشتہ جمعرات کو جب انہوں نے ٹی وی پر ایک خصوصی فوجی آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا، جو دراصل یوکرین پر باقاعدہ حملہ تھا، تو انہوں نے ایک تنبیہ بھی جاری کی: ’اگر کوئی بھی اس معاملے میں باہر سے مداخلت کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے تو وہ جان لے کہ اگر ایسا کیا گیا تو ایسے نتائج بھگتنا ہوں گے، جن کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔‘
نوبیل انعام یافتہ دمیتری موراتوو نووایا گزیٹا اخبار کے مدیر اعلٰی (چیف ایڈیٹر) ہیں، ان کا ماننا ہے کہ ’پوتن کے یہ الفاظ جوہری جنگ کی براہ راست دھمکی ہیں۔‘
دمیتری موراتوو نووایا کہتے ہیں ”اس خطاب میں پوتن صرف کریملن کے نہیں بلکہ دنیا کے مالک کے طور پر دکھائی دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ جیسے کوئی اپنی نئی گاڑی کی چابی انگلیوں پر گھما کر اس کی نمائش کرتا ہے، ویسے ہی پوتن نے جوہری بٹن پر اپنا ہاتھ پھیرا۔“
”پوتن کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر روس ہی باقی نہیں رہے گا تو پھر باقی دنیا کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ لیکن یہ دھمکی ہے کہ اگر روس سے اس کی خواہش کے مطابق برتاؤ نہیں کیا گیا تو پھر سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔“
یاد رہے کہ سنہ 2018ع میں ایک دستاویزی فلم میں روس کے صدر پوتن نے کہا تھا کہ ”اگر کوئی روس پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کرے تو ہمارے پاس جواب دینے کا قانونی حق ہے۔ ایسا کرنا انسانیت کے لیے اور دنیا کے لیے تباہ کُن ہو گا لیکن میں روس کا شہری اور ریاست کا سربراہ ہوں۔“
پوتن کا کہنا تھا ”ہمیں ایسی دنیا کی ضرورت کیوں ہوگی، جس میں روس نہیں ہوگا؟“
اب پوتن یوکرین کے خلاف جنگ کا آغاز کر چکے ہیں، لیکن روس کی توقع کے برخلاف ایک جانب یوکرین کی افواج شدید مزاحمت کر رہی ہیں، تو دوسری جانب مغربی ممالک ماسکو کے خلاف معاشی اور مالیاتی پابندیاں عائد کرنے پر متحد ہو رہی ہیں۔ ایسے میں پوتن کا وضع کردہ نظام خطرے میں پڑ چکا ہے
پاول فیلگین ہاوئر ماسکو میں ایک دفاعی تجزیہ کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت پوتن مشکل میں پڑ چکے ہیں۔ مغرب کی جانب سے روس کے مرکزی بینک کے اثاثے منجمند کرنے کے بعد روس کا مالیاتی نظام مفلوج ہوگا تو پھر پوتن کے پاس زیادہ راستے نہیں بچیں گے۔ پھر نظام چل ہی نہیں پائے گا۔ پوتن کے پاس ایک راستہ یہ ہے کہ وہ یورپ کی گیس سپلائی منقطع کر دیں اور امید کریں کہ اس سے یورپی ممالک پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایک اور راستہ یہ بھی ہے کہ وہ برطانیہ اور ڈنمارک کے درمیان شمالی سمندر میں کسی مقام پر ایک نیوکلیئر بم گرانے کا حکم دے دیں۔‘
اگر ولادیمیر پوتن نے واقعی جوہری آپشن کا انتخاب کر لیا تو کیا ان کے قریبی لوگوں میں سے کوئی ان کو روکنے کی کوشش کرے گا؟
اس حوالے سے دیمیتری موراتوو کہتے ہیں کہ ’روس کی سیاسی اشرافیہ عوام کے ساتھ کبھی بھی نہیں ہوتی، وہ ہمیشہ حاکم کا ساتھ دیتی ہے۔‘
اور ولادیمیر پوتن کے روس میں حاکم بہت طاقتور ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جہاں کریملن جو چاہتا ہے کر سکتا ہے کیونکہ اسے روکنے والا کوئی نہیں
پاول فیلگین ہاوئر کہتے ہیں کہ ’روس میں کوئی بھی پوتن کے سامنے کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہے۔ ہم واقعی ایک خطرناک موڑ پر کھڑے ہیں۔‘
یوکرین کی جنگ ولادیمیر پوتن کی جنگ ہے۔ اگر کریملن یعنی پوتن نے اپنے جنگی مقاصد حاصل کر لیے تو پھر یوکرین کی خودمختاری کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جائے گا، دوسری جانب اگر پوتن کو بھاری نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں اور ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ناکام ہو رہے ہیں تو پھر ڈر ہے کہ کہیں وہ کچھ اور نہ کر بیٹھیں. اور بدقسمتی سے اس ”کچھ اور“ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خدشہ سرفہرست ہے. خاص طور پر تب، جب ’ایسا کبھی نہیں ہو سکتا‘ کا اطلاق پوتن پر نہ ہو سکتا ہو.