کراچی – جب زندگی اپنی ہے
تو مرضی دوسروں کی کیوں؟
جیسا چاہے جی لے گی میں
تکلیف دوسروں کو ہوتی کیوں۔۔۔۔
یہ الفاظ ایوا بی کے ہیں، جنہیں تین سال قبل انہوں نے ایک ریپ سانگ میں ڈھال کر پٹاری میوزک ایپ پر ریلیز کیا تھا
ایوا بی بلوچ ہیں اور لیاری میں پلی بڑھی ہیں اور لیاری کی گلیوں میں ہی گھومتے ہوئے انہوں نے ریپ میوزک سیکھا۔ ایوا کے بھائی ان کے ریپ میوزک سیکھنے پر نا خوش تھے مگر ایوا بی انہیں منانے میں کامیاب ہو گئی۔ ایوا کو ”گلی گرل“ کا نام دیا گیا ہے، وہ رنویر سنگھ کی فلم ’گلی بوئے‘ کے گانے ’اپنا ٹائم آئے گا‘ کا ری میک بھی بنا چکی ہیں
مکمل حجاب پہن کر گانے اور شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی کراچی کے پسماندہ علاقے لیاری کی گلوکارہ ایوا بی کا کہنا ہے کہ نقاب میرے ٹیلنٹ کی راہ کی رکاوٹ نہیں ہے
لیاری کے پسماندہ محلے میں پروان چڑھنے والی باصلاحیت ریپر ایوا بی ملک کی مقبول نوجوان ریپ اسٹار بن چکی ہیں
ریپر ایوا بی نے اپنے فن سے دھوم مچادی ہے اور ملک کی مقبول نوجوان ریپ اسٹار بن گئیں ہیں، ایوا بی ہمیشہ نقاب پہن کر اسٹیج پر پرفارم کرتی ہیں
ایوا بی کا کہنا ہے کہ میرا برقع میرے ٹیلنٹ کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے، بھائی نے کہا تھا اگر میں ریپ میوزک کرنا چاہتی ہوں تو نقاب پہننا ہوگا
گلوکارہ ایوا بی مسلسل نقاب کرتی ہیں، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی کوئی پرفارمنس نقاب کے بغیر نہیں ہے، جبکہ بطور گلوکار و موسیقار نقاب ایوا بی کی شناخت اور شخصیت کا حصہ بن چکا ہے
لیاری سے تعلق رکھنے والی ایوا بی کا کہنا ہے کہ لیاری صرف غنڈہ گردی سے نہیں، فٹبالرز، فنکاروں اور موسیقاروں کے لیے بھی مشہور ہے
وہ کہتی ہیں ”افسوس ہے کہ تشدد ہماری پہچان بن گیا تھا“
ایوا بی کا کہنا ہے ”میں چاہتی ہوں اب میڈیا میں یہ بات کرنی بند ہونی چاہیے کہ لیاری ایسا تھا یا ویسا تھا، لیاری کو اس کے مثبت ٹیلنٹ کے حوالے سے پہچانا جائے. جو بچے گم سم اور چپ تھے، اب ان کا ٹیلنٹ بولنے لگا ہے. یہ سب کچھ ہم نے کسی اور سے نہیں، حالات سے سیکھا ہے“
ایوا بی نے کوک اسٹوڈیو میں بھی ”کنا یاری“ گا کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا اور ان کا گیت 90 لاکھ سے زائد بار دیکھا گیا
لیاری کی ایک پسماندہ شہری بستی سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی پہلی خاتون ریپر، ایوا بی، ، اپنی منفرد موسیقی اور انداز کے لیے جانی جاتی ہیں۔ کوک اسٹوڈیو میں ان کے پرفارم کرنے کے بعد وہ شہرت کی روشنی میں آئیں. کنا یاری جس میں کیفی خلیل اور عبدالوہاب بگٹی شامل تھے، لوک بلوچی گانا غضبناک تھیم کے باوجود اپنے گرووی بیٹ کے لیے یوٹیوب پر لاکھوں مرتبہ دیکھ گیا
جہاں یہ گانا پورے ملک میں گاڑیوں میں لاؤڈ سپیکر پر چلنے لگا، وہیں صرف چند ہی لوگوں کو اس بات کا علم تھا کہ پردہ دار ریپر کو اپنی آواز کو عوام تک پہنچانے کے لیے کن مشکلات سے گزرنا پڑا
پردہ ایک موسیقار کے طور پر ایوا بی کی شناخت اور شخصیت کا حصہ بن چکا ہے۔ “اس کے بغیر میں آرام دہ محسوس نہیں کرتی. اگر میں اسے نہیں پہنتی ہوں تو اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکتی۔ نقاب صرف میرے چہرے کو ڈھانپتا ہے۔ یہ میری صلاحیتوں کو نہ روک سکتا ہے اور نہ ہی چھین نہیں سکتا ہے“
نوجوان ریپر کا موسیقی کا سفر ایمینیم کے گانوں سے بھرے کمپیوٹر سے شروع ہوا۔ موسیقی کے اس انداز اور تال سے متاثر اور متجسس، انہوں نے اس صنف کے بارے میں پوچھا۔ “یہ ریپ ہے، اور آپ کو اپنی دھنیں لکھنی ہیں اور گانا ہے“ اسے بتایا گیا
ایوا بی کہتی ہیں ”میں اپنے ریپ میوزک کے ذریعے چاہتی تھی کہ لوگ میری کہانی اور لیاری کی خواتین کی کہانی سنیں۔ میں ایک ایسی جگہ سے آئی ہوں جہاں صرف چند لڑکیوں کو کام کرنے کا موقع ملا اور میرا معاشرہ ریپ میوزک سے وابستہ لڑکی کو قابل احترام نہیں سمجھتا – میں اسے چیلنج کرنا چاہتی تھی“
جب کہ اس نے اپنے بھائی کی شدید ناپسندیدگی کے نتیجے میں اپنے میوزیکل کیریئر کو روک دیا، لیکن اس نے لکھنا بند نہیں کیا۔ اس نے شیئر کیا، ’’میں اندر ہی اندر جل رہی تھی اور لڑکیوں پر سماجی پابندیوں، لیاری اور بہت کچھ کے بارے میں لکھتی رہی۔‘‘ ایک طویل وقفے کے بعد، انہیں پاکستان کے سب سے بڑے میوزک اسٹریمنگ پلیٹ فارم پٹاری نے دریافت کیا، اور ان سے ایک اصل گانا لکھنے اور پرفارم کرنے کو کہا گیا
موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بے چین، ایوا بی نے پیشہ ورانہ آڈیو آلات کی کمی کی پرواہ نہیں کی اور صرف اپنے موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے گلی گرل کی ریکارڈنگ کے ساتھ ساتھ چلی گئی۔ موبائل کو الماری میں رکھ کر ریپ ریکارڈ کرنا ہے تو حیران کن، لیکن ایوا نے ریکارڈنگ ایپ ڈاؤن لوڈ کی اور وہاں بیٹھ کر یہ ریکارڈنگ کی
راتوں رات اس ٹریک نے اسے گلی گرل کے نام سے مشہور کر دیا۔ اس کا ٹریک ان نوجوان خواتین کی کہانی سناتا ہے جو اسے ہپ ہاپ میں بڑا بنانا چاہتی ہیں، یہ مشہور رنویر سنگھ اسٹارر فلم گلی بوائے کی کہانی ہے
ایوا بی، جو کہتی ہیں کہ اس کا نام حوا سے آیا ہے، جو کہ زمین کی پہلی خاتون ہیں، اس کے بدلے میں وہ ملک کی پہلی خاتون ریپر ہیں، اور بی اس کی بلوچی نژاد کی علامت ہے
اردو اور بلوچی میں لکھتے ہوئے، نوجوان ریپر نے معاشرے کو درپیش مسائل، اور خاص طور پر لیاری کی رجعت پسند تصویر کے بارے میں بات کی۔ اس کے گانوں میں قلم بولے گا (دی قلم بولے گا)، تیرا جسم میری مرضی (تیرا جسم، میرے حقوق)، اور قرنطینہ باجی شامل ہیں
ان کا کہنا ہے کہ لیاری اپنے فٹبالرز، فنکاروں اور موسیقاروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ علاقے میں تشدد کی تاریخ ہماری پہچان بن چکی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی طرح بہت سی خواتین ہیں، جو اپنے مرد ہم منصبوں سے کمتر محسوس کرتی ہیں کیونکہ وہ ان پر اور ان کی منظوری پر منحصر ہیں
مہر لگی ہوئی پرتشدد شناخت سے باہر ایک نام بنانے کے لیے درکار اضافی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے، انہوں نے بتایا ”خواتین کو معاشرے میں اپنے مقام کے حصول کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر نہیں دیا گیا تو ہمیں چھیننا پڑے گا‘‘
ایوا کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا ٹائم آ تو گیا ہے لیکن میں پاکستان کی بڑی ریپر بننا چاہتی ہوں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ حجاب پہن کر کیسے آگے بڑھیں گی، تو انہوں نے کہا کہ ’مارش میلو کے بھی تو لاکھوں فالورز ہیں لیکن اسے کسی نے انہیں نہیں دیکھا۔‘
ایوا کا کہنا تھا کہ وہ بچپن سے گاتی رہی ہیں۔ ایمینم کے ریپس سے وہ بہت متاثر ہوئیں لیکن آج کل وہ دیسی آرٹسٹس کو زیادہ سنتی ہیں کیونکہ وہ سمجھ بھی آتی ہے
سیکریٹ سپر سٹار کے نام سے ایک بھارتی فلم کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایوا نے بتایا کہ ’میں نے وہ فلم بہت بار دیکھی ہے اور ہر کوئی مجھے کہتا تھا کہ یہ تمھاری کہانی ہے۔‘
ایوا نے بتایا کہ لیاری کے بلوچ ریپر زیادہ تر لیاری کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لیاری کا سب سے بڑا مسئلہ بے روز گاری ہے اور میں اس مسئلے کو سامنے لانا چاہتی ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے موضوع پر بھی کچھ لکھنا چاہتی ہوں۔‘
ایوا کے الفاظ کو موسیقی میں مکمل طور پر ڈھالنے میں زری فیصل کا ایک بڑا ہاتھ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ایوا سے میری پہلی ملاقات اب ہو رہی ہے ورنہ ہمارا رابطہ انسٹاگرام پر تھا۔
وہ کہتی ہیں ’یہ پراجیکٹ میرے ذہن میں گلی بوائے کو دیکھ کر آیا اور ہم نے فیصلہ کیا کہ کسی لڑکی ریپر کو لیں گے۔‘
’لیاری سے تعلق رکھنے والے میری ٹیم ممبر شہزاد نے مجھے ایوا کے بارے میں بتایا۔‘
وہ کہتی ہیں ایوا کو سنا تو لگا ’گو کہ یہ لڑکی انڈر گراؤنڈ کام کرتی ہے، لیکن وہ آگاہی پوری طرح سے رکھتی ہے۔‘
زری کہتی ہیں کہ دو کمپنیز نے مل کر اسے بنایا ہے۔ ’پٹاری نے میوزک اور بیٹ دی اور ہماری کمپنی نے ویڈیو بنائی۔‘