سڈنی – دنیا بھر کے لاکھوں افراد زندگی میں کبھی نہ کبھی تناؤ، الجھن اور کسی بدترین خوف کا سامنا کرتے ہیں
صرف آسٹریلیا میں ہی بتیس لاکھ افراد کو انزائٹی یا گھبراہٹ سے منسلک مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور حالیہ برسوں میں پندرہ سے چوبیس سال کی عمر کے افراد میں ان مسائل کی شرح بڑھی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں
انزائٹی یا گھبراہٹ ایک عام کیفیت ہے، جو ہماری معاشرتی زندگی کو مشکلات سے دوچار کر دیتی ہے. ہم سب کو اس کا تجربہ اس وقت ہوتا ہے، جب ہم کسی مشکل یا کڑے وقت سے گذرتے ہیں
خطرات سے بچاؤ، چوکنا ہونے اور مسائل کا سامنا کرنے میں عام طور پر خوف اور گھبراہٹ مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ تاہم اگر یہ احساسات شدید ہوجائیں یا بہت عرصے تک رہیں تو یہ ہمیں ان کاموں سے روک سکتے ہیں جو ہم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہماری زندگی تکلیف دہ بن سکتی ہے
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ گھبراہٹ سے بچنا بہت آسان ہے؟ جی ہاں، اس کے لیے آپ کو بس پانی کے استعمال میں اضافہ کرنا ہوگا
آسٹریلیا کے وفاقی طبی حکام نے حال ہی میں عندیہ دیا تھا کہ پانی کے استعمال سے گھبراہٹ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جس پر آن لائن لوگوں نے شکوک و شبہات بھی ظاہر کیے تھے
لیکن طبی شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ پانی اور ہائیڈریشن گھبراہٹ کی علامات کی روک تھام یا ان کو کنٹرول کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں
گرم موسم میں ٹھنڈے پانی سے ہم سب ہی لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے جسم ہمیں اس بات سے آگاہ کرنے کے لیے ڈیزائن ہوئے ہیں کہ کس وقت ہمیں پانی کی ضرورت ہے
کچھ سال قبل طبی ماہرین کے ایک گروپ نے پانی کے صحت پر متعدد اثرات کا مطالعہ کیا اور نتائج دیکھ کر وہ دنگ رہ گئے
انہوں نے دریافت کیا کہ جسم میں پانی کی کمی یا ڈی ہائیڈریشن کے نتیجے میں منفی جذبات جیسے غصہ، چڑچڑے پن، الجھن اور تناؤ کے ساتھ ساتھ تھکاوٹ کے احساس میں اضافہ ہوجاتا ہے
حتیٰ کہ ایک ٹرائل میں دریافت ہوا کہ پانی کی معمولی کمی سے بھی لوگوں میں گھبراہٹ اور تھکاوٹ جیسے احساسات بڑھ گئے
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ جو لوگ روزمرہ اوقات میں زیادہ پانی پینے کے عادی ہوتے ہیں، اگر ان کا پانی کا استعمال کم ہوجائے تو وہ کم پرسکون اور زیادہ تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں
اس کے مقابلے میں جو افراد زیادہ پانی پیتے ہیں، وہ زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں، چاہے روزمرہ میں وہ جتنا مرضی پانی پیتے ہوں
ایک اور بڑی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزانہ پانچ یا اس سے زیادہ گلاس پانی پینے سے ڈپریشن اور گھبراہٹ کا خطرہ کم ہوتا ہے، جبکہ دن بھر میں دو گلاس سے کم پانی پینے والوں میں یہ خطرہ دگنا بڑھ جاتا ہے
اس مطالعے کے دوران پانی کی کمی اور بچوں میں گھبراہٹ کے درمیان تعلق کا مشاہدہ بھی ہوا ہے، جبکہ پانی کی کمی ہماری نیند پر بھی اثرانداز ہوتی ہے
ناقص نیند گھبراہٹ کی علامات کی شدت کو بڑھانے کا باعث بنتی ہے
ہمارے دماغ کے 75 فیصد پانی پر مبنی ہیں اور ڈی ہائیڈریشن سے دماغ میں توانائی بننے کا عمل گھٹ جاتا ہے اور دماغی ساخت میں تبدیلی آسکتی ہے
یعنی دماغ سست ہوجاتا ہے اور اپنے افعال درست طریقے سے سرانجام نہیں دے پاتا
اگر پانی کی بہت زیادہ کمی ہو تو دماغی خلیات اپنے افعال سرانجام نہیں دے پاتے اور دماغ کو کام مکمل کرنے میں زیادہ سکت محنت کرنا پڑتی ہے
ہمارے خلیات پانی کی کمی کو بقا کے خطرے کے طور پر شناخت کرتے ہیں جس سے گھبراہٹ کا احساس بڑھتا ہے
دماغی خلیات کے درمیان رابطے کا کام کرنے والے ایک کیمیکل سیروٹونین مزاج اور جذبات کو مستحکم رکھنے کا کام کرتا ہے، مگر پانی کی کمی کے دوران اس کے بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے
درحقیقت پانی کی معمولی کمی سے بھی جسم میں تناؤ بڑھانے والے ہارمون کورٹیسول کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے جو متعدد ذہنی عوارض بشمول گھبراہٹ میں کردار ادا کرتا ہے
اب تک دستیاب شواہد کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ طرزِ زندگی مین تبدیلیوں جیسے پانی کی مقدار میں اضافے، اچھی غذا، جسمانی سرگرمیوں اور نیند سے لوگوں کی ذہنی صحت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے
اسی طرح شواہد سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ پانی کی کمی ہمارے مزاج پر اثرانداز ہوتی ہے
لیکن یہ بات مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ متعدد دیگر عناصر بھی لوگوں میں گھبراہٹ کی شرح پر اثرانداز ہوتے ہیں، کوئی ایک چیز مکمل طور پر ان جذبات کو ختم نہیں کرسکتی
یہ بات ان افراد کے لیے خاص طور پر زیادہ درست ہے، جن کو بہت زیادہ گھبراہٹ کا تجربہ ہوتا ہے، ماہرین نے ایسے افراد کو صرف زیادہ پانی پینے پر اکتفا کرنے کے بجائے کسی معالج سے رجوع کرنے کا بھی مشورہ دیا ہے.