کیلیفورنیا/پیرس – امریکی اور فرانسیسی سائنسدانوں نے دنیا کا سب سے بڑا جرثومہ دریافت کیا ہے، جس کی جسامت عام مکھی سے بھی زیادہ ہے۔ اسے ’’تھیومارگریٹا میگنیفیکا‘‘ (Thiomargarita magnifica) کا سائنسی نام دیا گیا ہے
پتلے دھاگے کی طرح دکھائی دینے والا یہ جرثومہ کیریبیئن/ ویسٹ انڈیز کے ساحلوں پر مینگرووز کے جنگلات میں پایا جاتا ہے
واضح رہے کہ عام بیکٹیریا کی لمبائی صرف دو مائیکرومیٹر ہوتی ہے، لیکن یہ جرثومہ اوسطاً 10,000 مائیکرومیٹر جتنا لمبا ہوتا ہے، جبکہ اس کا سب سے بڑا نمونہ 20,000 مائیکرومیٹر جتنا دیکھا گیا ہے۔ یعنی یہ عام بیکٹیریا کے مقابلے میں پانچ ہزار سے دس ہزار گنا تک بڑا ہے
اس سے پہلے جو سب سے بڑے جراثیم دریافت ہوئے تھے، وہ 750 مائیکرومیٹر طویل تھے۔ یعنی یہ ان کے مقابلے میں بھی تیرہ سے پچیس گنا بڑا ہے
اس سے قبل حیاتیاتی ماہرین کا خیال تھا کہ بیکٹیریا کی جسامت (لمبائی) 750 مائیکرومیٹر سے زیادہ ممکن ہی نہیں۔ لیکن اس نئی دریافت نے اس خیال کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے اور اب سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر کوئی جرثومہ اتنا بڑا کیسے ہوسکتا ہے؟
دوسری حیرت انگیز بات اس کا جینوم ہے. عام جرثوموں کے جینوم میں ڈی این اے کے چالیس لاکھ اساسی جوڑے (بیس پیئرز) اور لگ بھگ 3,900 جین ہوتے ہیں، لیکن اس نودریافتہ جرثومے کا جینوم ایک کروڑ دس لاکھ ڈی این اے اساسی جوڑوں اور گیارہ ہزار جین پر مشتمل ہے، یعنی عام بیکٹیریا سے تقریباً چار گنا زیادہ
پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ ’’تھیومارگریٹا میگنیفیکا‘‘ میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے بیکٹیریا (جرثوموں) نے آپس میں مل کر ایک لمبی لڑی جیسی شکل اختیار کرلی ہو، لیکن درحقیقت یہ ایک ہی بیکٹیریم (جرثومہ) ہے
ان سب سے بڑھ کر حیرت انگیز بات اس کا ڈی این اے ہے، جو اس کی خلوی جھلی (سیل میمبرین) میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے مختلف کھوکھلے مقامات کے اندر بند ہے
جراثیم کا شمار ’’پروکیریوٹ‘‘ (prokaryote) قسم کے جانداروں میں ہوتا ہے جن کا ڈی این اے ایک گچھے کی شکل میں خلوی مائع میں تیرتا پھرتا ہے
ترقی یافتہ جانداروں یعنی ’’یوکیریوٹس‘‘ (eukaryotes) کے خلیوں میں تمام ڈی این اے ایک مرکزے (نیوکلیئس) کے اندر بند ہوتا ہے جس کے گرد ایک حفاظتی جھلی کسی حصار کی طرح موجود ہوتی ہے
’’تھیومارگریٹا میگنیفیکا‘‘ میں بیک وقت پروکیریوٹ اور یوکیریوٹ، دونوں کی خصوصیات موجود ہیں جو اسے باقی تمام یک خلوی (یونی سیلولر) جانداروں سے منفرد بناتی ہیں
سائنسدانوں نے اس دریافت کا اعلان ’’بایوآرکائیو‘‘ (BioRxiv) پری پرنٹ سرور پر ایک تحقیقی مقالے کی شکل میں کیا ہے، جو کچھ روز پہلے ہی وہاں شائع کیا گیا ہے
اگرچہ اب تک یہ باقاعدہ طور پر کسی ریسرچ جرنل میں شائع نہیں ہوا، لیکن اس دریافت کے پسِ پشت امریکا کے انتہائی معتبر سائنسی تحقیقی اداروں کی مشترکہ کاوش ہے، لہٰذا اس مقالے پر اب تک کسی نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا ہے.