کراچی – جنگ کہیں بھی ہو بُری ہے۔ اس میں ہونے والا انسانی جانوں کا ضیاع کم ہو یا زیادہ، افسوسناک ہے اور اس جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والا ہر فرد ہی ہمدردی کا مستحق ہے
بقول ساحر لدھیانوی
”خون اپنا ہو یا پرایا ہو،
نسلِ آدم کا خون ہے آخر..
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں،
امنِ عالم کا خون ہے آخر“
لیکن بدقسمتی سے روس کی جانب سے یورپ کے ملک یوکرین ہر حملے کے بعد مغربی میڈیا کی اس تنازع کی کوریج میں ’تعصب‘ اور ’نسل پرستی‘ کا عنصر کافی واضح نظر آتا ہے
تجزیہ کاروں ، رپوٹررز اور پروگرام کے میزبانوں کی جانب سے نہ صرف ’یورپ‘ کی جنگ کو ’زیادہ‘ بُرا قرار دیا جا رہا ہے اور اس میں ہونے والی ہلاکتوں کو دنیا کے باقی ممالک میں ہونے والے ہلاکتوں سے ’زیادہ‘ افسوسناک بتایا گیا، بلکہ اس تنازع کے باعث بے گھر ہونے والے افراد اور پناہ گزینوں کو ایشیائی ممالک کے پناہ گزینوں سے ’بہتر‘ بتایا گیا
اس تنازع کی میڈیا کوریج کے دوران نہ صرف اس کا موازنہ مسلسل افغانستان، شام اور عراق کی جنگوں سے کیا جا رہا ہے، بلکہ شعوری یا لاشعوری طور پر ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ یوکرین تنازع دنیا کے لیے اس لیے بھی زیادہ افسوسناک ہے کیونکہ یہ ملک ترقی یافتہ خطے یورپ میں واقع ہے اور اس کے رہنے والے افراد دنیا کے دیگر مملک کے نسبت ’زیادہ تہذیب یافتہ‘ ہیں
ایسی ہی ایک مثال امریکی چینل ’سی بی ایس‘ کے نمائندہ چارلی ڈی اگیٹا کی گفتگو میں نظر آئی،. جب انہوں نے یوکرین کی صورتحال کا موازنہ مشرق وسطیٰ سے کرتے ہوئے کہا کہ ”روس کے حملے کے پیشِ نظر یوکرین میں لوگ محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں اور باصد احترام یہ کوئی عراق یا افغانستان نہیں ہے، جہاں تنازعے کئی دہائیوں سے جاری ہوں، یہ ان کے مقابلے میں زیادہ ’تہذیب یافتہ‘ اور زیادہ یورپی شہر ہے، جہاں آپ ایسا ہونے کی توقع نہیں کرتے“
دوسری جانب بی بی سی کے پروگرام میں شامل یوکرین کے حکومتی اہلکار کا بیان بھی ایسی ہی ’نسل پرستانہ‘ سوچ کی عکاسی کرتا ہے. انہوں نے وہاں پر ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ”یہ میرے لیے اس لیے بھی زیادہ جذباتی ہے کیونکہ نیلی آنکھوں اور گوری رنگت والے یورپی افراد اور بچے پیوٹن کے میزائلوں سے ہلاک ہو رہے ہیں“
برطانوی اخبار ’ٹیلی گرام‘ میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں ڈینیل حنان نے لکھا کہ ”یوکرین جنگ اس لیے بھی ہمارے لیے بہت چونکا دینے والی ہے کیونکہ وہاں کے لوگ ہماری طرح دکھتے ہیں۔ یوکرین یورپ کا ایک ملک ہے۔ اس کے لوگ نیٹ فلکس دیکھتے ہیں اور ان کے پاس انسٹاگرام کے اکاؤنٹ ہیں اور وہ آزاد اور شفاف الیکشن میں ووٹ ڈالتے ہیں اور سنسرشپ کے بغیر اخبار پڑھتے ہیں“
اس نوعیت کے تبصروں کے بعد بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ کیا یورپ کے لوگ افغانستان، عراق اور شام کی جنگ سے صرف اس لیے نہیں چونکے، کیونکہ وہاں کے لوگ نیٹ فلکس نہیں دیکھتے تھے اور ان کے پاس انسٹاگرام کے اکاؤنٹس نہیں یا اس لیے کیونکہ یہ مملک یوکرین کی طرح یورپ میں واقع نہیں ہیں؟
کسی بھی ملک میں جنگی صورتحال کے بعد پیدا ہونے والا ایک بڑا مسئلہ پناہ گزینوں کا ہے، جو اپنی اور اپنے پیاروں کی جان بچانے کے لیے دوسرے ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔ روس کی جانب سے یوکرین کے متعدد شہروں پر حملے کے بعد یوکرین کے شہریوں کی ایک بھاری تعداد نے پڑوسی مملک کا رخ کیا تو یورپ کے متعدد ممالک جن میں پولینڈ، آئرلینڈ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ شامل ہیں، نے اپنے دروازے ان پناہ گزینوں پر کھول دیے
ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں، جنہوں نے شام اور عراق جنگ کے دوران وہاں سے آنے والے پناہ گزیوں پر اپنے دروازے بند کر دیے تھے
یورپی ملک بلغاریہ کے وزیر اعظم نے یوکرین کے پناہ گزینوں سے متعلق ایک بیان میں کہا کہ ”یہ وہ پناہ گزین نہیں ہیں جن کی ہمیں عادت ہے۔ یہ یورپین ہیں۔ یہ لوگ ذہین اور پڑھے لکھے ہیں۔ یہ ان پناہ گزینوں کی طرح نہیں، جن کی شناخت کے بارے میں ہم نہیں جانتے، جن کا ماضی ہمیں معلوم نہیں، جو دہشتگرد بھی ہو سکتے ہیں“
تاہم پناہ گزینوں میں ’اچھے، برے‘ کی تفریق کرنے والے صرف مغربی ممالک اور ان کی پالیسیاں ہی نہیں بلکہ یہ تفریق فرانسیسی، برطانوی، امریکی یہاں تک کے قطر کے چینل کی کوریج میں بھی نظر آئی، جب یوکرین کے پناہ گزینوں کا موازنہ افغان اور شام کے پناہ گزینوں سے کیا گیا
الجزیرہ کے ایک پروگرام کے میزبان کا کہنا تھا کہ ’یوکرین کے پناہ گزین کے لباس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ترقی یافتہ، مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے یورپی شہری ہیں جو آپ کے اور ہمارے پڑوس میں رہنے والے کسی خاندان کی طرح ہیں یہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے آنے والے پناہ گزین نہیں“
اس متعصب سوچ کے حوالے سے میڈیا کے مسائل پر کام کرنے والی تنظیم ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کی صدف خان کا کہنا ہے ”یوکرین کے تنازع کے دوران مغربی میڈیا کی کوریج نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے نسل پرستی اور تعصب کو ختم کرنے کے دعوے ’کھوکھلے‘ ہیں“
وہ کہتی ہیں ”جب بھی ایک بہترین ’متاثرہ شخص‘ کا تصور قائم کیا جائے گا، چاہے وہ جنس کی بنیاد پر ہو یا نسل کی بنیاد پر، تو ایسا ہی ہوگا۔ اگر آپ دنیا کو بتائیں گے کہ ایک آئیڈیل مظلوم ایسا ہوتا ہے اور اس کے خلاف اگر جنگ و جدال کیا گیا تو یہ غلط ہے، تو ہم ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جن لوگوں میں اس آئیڈیل مظلوم والی خوبیاں نہیں ہیں، وہ ہماری ہمدردی اور مدد کا مستحق نہیں ہے“
صدف خان کا کہنا ہے ”مغربی میڈیا کی جانب سے یہ نسل پرستی اس لیے بھی زیادہ نقصان دہ ہے کیونکہ یہ بین الاقوامی اداروں جیسا کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور نیٹو وغیرہ کے ایجنڈا کا تعین کرتے ہیں اور اگر ان کے پیغام میں ہی نسل پرستی اور تعصب کا عنصر ہوگا تو یہ آپ کو ان اداروں کی پالیسیوں میں بھی نظر آئے گا“
مغربی میڈیا کی تعصب اور نسل پرستی پر مبنی کوریج کی مشرق وسطیٰ کے صحافیوں کی تنظیم نے بھی سخت مذمت کی ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کے بعد ’الجزیرہ‘ نے ٹوئٹر پر اپنے ناظرین سے معافی مانگتے ہوئے لکھا کہ ”پروگرام کے میزبان کی جانب سے یوکرین کے پناہ گزینوں کا موازنہ مشرق وسطیٰ کے پناہ گزینوں سے کرنا غلط تھا اور میزبان کے الفاظ احساس سے عاری اور غیر ذمہ دارانہ تھے“
اسی طرح ’سی بی ایس‘ کے نمائندہ چارلی ڈی اگیٹا کا ٹی وی پر معذرت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ”کسی بھی جنگ یا تنازع کا موازنہ کسی دوسرے جنگ یا تنازع سے کرنا درست نہیں“
مغرب کے تمام ہی بڑے میڈیا ہاؤسز جیسا کہ بی بی سی، سی این این ، سی بی ایس وغیرہ اپنی کوریج کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے صحافیوں کو ٹریننگ کی مواقع فراہم کرتے ہیں اور انھیں سکھایا جاتا ہے کہ کیسے رپورٹنگ کے دوران ذاتی رائے، تعصب اور نسل پرستی کو بالائے طاق رکھ کر صرف حقائق کو ناظرین کے سامنے پیش کیا جائے
تاہم سامراج کی ایک طویل تاریخ کی بنا پر مغربی ممالک کا میڈیا اور اس سے تعلق رکھنے والے افراد اکثر ایسے الفاظ اور جملوں کا استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں جو شاید ان کی نظر میں تعصبانہ یا نسل پرست نہ ہوں لیکن غیر مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے تکلیف دہ ہوتے ہیں
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق پناہ گزینوں سے متعلق میزبان ممالک کے لوگوں میں خوف اور نفرت کی ایک بڑی وجہ ان سے متعلق غیر حساس میڈیا کوریج ہے
اس لیے ضروری ہے دنیا کے تمام ہی تنازعات کو انسانیت کی آنکھ سے دیکھا اور پرکھا جائے جہاں رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہر انسانی جان کی اہمیت ایک جیسی ہو اور ہر پناہ گزین قابل ہمدردی ہو اور ہر جان کا ضیاع قابل افسوس ہو.