ٹوبیاس مائنڈرنکل (جرمن ادب سے منتخب افسانہ)

تھامس مان (ترجمہ: جاوید بسام)

گودی سے شہر کے وسط تک جاتی گلیوں میں سے ایک گلی گرے اسٹریٹ کہلاتی ہے۔ اگر آپ دریا کی طرف سے جائیں تو تقریباً درمیان میں دائیں طرف مکان نمبر سینتالیس ہے، ایک پتلی اور خاکستری عمارت، جو اپنی پڑوسی عمارتوں سے مختلف نہیں ہے۔ نچلی منزل پر ایک دکان ہے، جہاں سے دوسری چیزوں کے علاوہ آپ ربڑ کے برساتی جوتے اور کیسٹر آئل بھی خرید سکتے ہیں۔ داخلی احاطے سے گزرنے کے بعد، جو غصیلی بلیوں سے آباد ہے، ایک تنگ اور خستہ حال لکڑی کا زینہ اوپر کی منزل تک جاتا ہے، جس سے ناقابلِ برداشت سیلن بھری بُو آتی ہے۔ پہلی منزل پر بائیں طرف ایک الماری ساز رہتا ہے اور دائیں طرف ایک دائی۔ دوسری منزل پر بائیں طرف موچی رہتا ہے اور دائیں طرف ایک عورت جو سیڑھیوں پر قدموں کی آواز سن کر فوراً گانا شروع کر دیتی ہے۔ تیسری منزل پر بائیں طرف اپارٹمنٹ خالی ہے اور دائیں جانب منڈرنکل نامی ایک آدمی رہتا ہے، جسے ٹوبیاس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کہانی اس آدمی کے بارے میں ہے۔ جو دلچسپ بھی ہے اور ناگوار بھی۔۔

منڈرنکل کا ظاہری حلیہ عجیب اور مضحکہ خیز ہے۔ مثال کے طور پر جب وہ گھر سے چہل قدمی کے لیے نکلتا ہے تو اس کے ہاتھ میں سہارے کے لیے ایک چھڑی ہوتی ہے اور وہ سر سے پاؤں تک سیاہ لباس میں نظر آتا ہے۔ وہ پرانی وضع کی خمدار کنارے والی ایک گِھسی ہوئی ٹوپی بھی پہنتا ہے اور ایک چست فراک کوٹ، جو کثرتِ استعمال سے بوسیدہ لگتا ہے۔ اس سے ہی میل کھاتا ہوا پتلون جو نیچے سے اتنا اُچکا ہوتا ہے کہ جوتے کی ربڑ کی تراش صاف نظر آتی ہے۔ تاہم، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے لباس کو صاف ستھرا رکھتا ہے۔ اس کی سوکھی پتلی گردن نیچے مڑے ہوئے کالر سے باہر نکلی بہت لمبی لگتی ہے۔ اس کے بال سفید ہو گئے ہیں، جو کنپٹیوں تک بڑے ہیں۔ اس کی ٹوپی کا چوڑا کنارہ دھنسے ہوئے گالوں کے ساتھ زرد مونڈے ہوئے چہرے پر سایہ ڈالتا ہے، سوجی ہوئی سرخ آنکھیں جو زمین سے شاذ و نادر ہی اوپر اٹھتی ہیں اور گالوں پر دو گہری اداس لکیریں جو ناک سے کانوں تک جاتی ہیں، جن سے چہرے پر رنجیدگی کا تاثر ہمیشہ قائم رہتا ہے۔

منڈریکل شاذ و نادر ہی گھر سے نکلتا ہے، گھر سے نہ نکلنے کی اس کے پاس ٹھوس وجہ بھی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جیسے ہی وہ سڑک پر نمودار ہوتا ہے، بچوں کا ایک گروہ دوڑتا ہوا اس کے پاس چلا آتا ہے۔ وہ اس پر ہنستے، اس کے کوٹ کا کنارا کھینچتے اور اس پر آوازیں کستے ہیں۔ ”ہو۔۔۔ہو۔۔۔ ٹوبیاس!“ وہ دور تک اس کے پیچھے آتے ہیں اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ وہ چہل قدمی کرتا آگے بڑھتا رہتا ہے، کوئی مزاحمت نہیں کرتا، بس گھبرائی ہوئی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتا ہے، اس کا سر اس کے کندھوں میں دھنسا ہوا اور گردن جھکی ہوئی ہوتی ہے، جیسے کوئی شخص بغیر چھتری کے عجلت میں، بارش میں سے گزر رہا ہو۔

اگرچہ بچے اس پر ہنستے ہیں، مگر وہ وقتاً فوقتاً عاجزی اور شائستگی سے ان لوگوں کو سلام کرتا ہے جو اپنے برآمدے میں نظر آتے ہیں۔ بعد میں جب بچے پیچھے رہ جاتے ہیں اور شاذ و نادر ہی کوئی اس کی طرف توجہ دیتا ہے، تب بھی منڈرنکل کی اطوار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی۔ وہ شرمندہ اور خوف سے جھکا ہوا چلتا ہے، گویا اپنی طرف ہزاروں حقارت بھری نگاہیں اٹھی محسوس کر رہا ہو اور جب وہ جھجھکتے ہوئے نظریں زمین سے اٹھاتا ہے تو عجیب بات نظر آتی ہے۔ وہ لوگوں، یہاں تک کہ بے جان چیزوں کی طرف بھی اعتماد اور یکسوئی کے ساتھ دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ یہ بہت عجیب بات ہے کہ اس میں حسی ادراک کی اس فطری خود مختاری کا فقدان ہے جو اس کو بیرونی مظاہر کو دیکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ وہ احساسِ کمتری کا شکار ہے اور اس کی بے مقصد متزلزل نگاہیں انسان اور چیزوں کے سامنے جھکنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتیں۔

اس شخص کی وضاحت کیسے کی جائے جو ہمیشہ اکیلا رہتا ہے اور بہت زیادہ اداس لگتا ہے؟ اس کا سراسر بورژوا لباس، اس کی ٹھوڑی کو نرمی سے رگڑنے کی عادت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ معاشرے کے اس طبقے کے ساتھ کسی بھی وابستگی کو مسترد کرتا ہے، جس کے درمیان وہ رہ رہا ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس کو کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اس کے چہرے سے ایسا لگتا ہے جیسے زندگی نے حقارت سے ہنستے ہوئے اسے پوری طاقت سے ٹھونسا مارا ہو۔۔

تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ اسے قسمت کی شدید چوٹیں نہ لگی ہوں اور وہ زندگی اور مصائب کا مقابلہ نہ کر سکتا ہو۔ مسلسل تذلیل اور مضحکہ خیزی اس میں ایک عجیب وغریب اور تکلیف دہ تاثر پیدا کرتی ہے۔ گویا اس کے جسم میں ظاہر ہونے والی جھجک اور عاجزی دراصل یہ بتاتی ہے کہ قدرت نے اسے طاقت، توازن اور ریڑھ کی ہڈی کے اس پیمانے سے محروم کر دیا ہے جو انسان کے سر کو سیدھا رکھ کر زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔

شہر کے وسط تک اپنے مقررہ راستے پر کالی چھڑی کے ساتھ چہل قدمی کرنے کے بعد وہ گرے روڈ کی طرف لوٹتا ہے، جہاں اس کے استقبال کے لیے بچے موجود ہوتے ہیں۔ وہ نم دبیز پھپھوندی لگی سیڑھیوں پر چڑھ کر اپنے کمرے میں جاتا ہے، جہاں کسی قسم کی سجاوٹ نہیں ہے، اگر کوئی قیمتی اور خوبصورت چیز ہے تو وہ واحد بھاری دھاتی دستوں اور مضبوط درازوں کی کموڈ الماری ہے۔ کمرے کی واحد کھڑکی کے سامنے، جس کا نظارہ پڑوسی کے گھر کی سرمئی دیوار سے اچانک کٹ جاتا ہے، وہاں مٹی سے بھرا ہوا ایک گملا رکھا ہے، جس میں کچھ بھی نہیں اگتا۔
بہرحال ٹوبیاس مانڈرنکل کبھی کبھار اس کے پاس جا کر اس کا معائنہ کرتا ہے اور سوکھی مٹی کو سونگھتا ہے۔ اس کمرے کے آگے ایک چھوٹی سی تاریک خواب گاہ ہے۔

اپنے کمرے میں داخل ہو کر ٹوبیاس اپنی ٹوپی اور چھڑی میز پر رکھتا ہے اور دھول سے بھرے سبز مخملی غلاف والے صوفے پر بیٹھ کر ٹھوڑی ہاتھ پر ٹکا دیتا ہے۔ پھر بھنویں اٹھا کر فرش کی طرف دیکھتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے پاس دنیا میں کرنے کو کچھ کام نہیں ہے۔

جہاں تک اس کے کردار کا تعلق ہے، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، حالانکہ مندرجہ ذیل واقعہ اس کے حق میں بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔

ایک دن جب وہ عجیب آدمی اپنے پیچھے ہنستے اور چیختے بچوں کے ایک گروہ کے ساتھ گھر سے نکلا تو تقریباً دس سال کا ایک لڑکا کسی دوسرے لڑکے کے پاؤں سے ٹکرا کر پتھریلی سڑک پر ایسا گرا کہ اس کی پیشانی اور ناک خون آلود ہو گئی۔ وہ روتے ہوئے وہیں لیٹ گیا۔ یہ دیکھ کر ٹوبیاس فوراً مڑا، جلدی سے گرے ہوئے بچے کے پاس آیا اور جھک کر ہلکی لرزتی آواز میں اسے تسلی دینے لگا۔ ”آہ بے چارہ بچہ! کیا تم کو بہت تکلیف ہو رہی ہے؟ اوہ، تمہارا خون بہہ رہا ہے۔۔۔ لیکن تمہاری اپنی غلطی تھی، لو میں رومال سے سر پر پٹی باندھ دیتا ہوں۔۔۔ خود کو سنبھالو! چلو اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ!“ تسلی دینے کے بعد اس نے رومال سے پٹی باندھی، لڑکے کو آہستہ سے کھڑا کیا اور آگے بڑھ گیا۔ تاہم، وہ ان خاص لمحوں میں اپنے رویے اور تاثرات میں بالکل بدلا ہوا آدمی نظر آیا۔ وہ تن کر اور سیدھا چل رہا تھا اور گہری سانسیں لے رہا تھا۔ اس کا سینہ اس کے چست فراک کوٹ کے نیچے پھولا ہوا تھا، کشادہ آنکھیں چمکتے ہوئے لوگوں اور چیزوں کو اعتماد سے دیکھ رہی تھیں، جب کہ ہونٹوں پر غم آمیز مگر مطمئن مسکراہٹ کھل رہی تھی۔ اس واقعے کا قلیل مدتی نتیجہ یہ نکلا کہ گرے روڈ کے لڑکوں نے اس کی توہین میں کسی حد تک نرمی اختیار کر لی۔ تاہم، کچھ عرصے بعد وہ اس گم گزشتہ آدمی کے حیران کن رویے کے بارے میں بھول گئے اور شریر، چلبلے اور ظالم لڑکوں کا ایک گروہ پھر اس کے پیچھے تمسخر آمیز آوازیں اور ہنسی ٹھٹھول کرنے لگا: “ہاہاہا۔۔۔۔ٹوبیاس!”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک روشن صبح گیارہ بجے کے قریب منڈرنکل گھر سے نکلا اور شہر کے پار لیرچینبرگ کی طرف روانہ ہو گیا، جہاں پہاڑی ڈھلوان شہر کے لوگوں کو دوپہر کے وقت ٹہلنے کے لیے بہترین میدان فراہم کرتی تھی۔ کئی لوگ موسم بہار سے لطف اندوز ہونے کے لیے پیدل اور سواریوں میں وہاں آئے ہوئے تھے۔

وہاں وسیع سیرگاہ کی پٹری کے ساتھ ایک درخت کے نیچے ایک آدمی پالتو کتا لیے کھڑا تھا۔ وہ اسے تمام راہگیروں کو دکھا رہا تھا، ظاہر ہے اسے کسی خریدار کی تلاش تھی۔ وہ خوبصورت اور صحت مند چھوٹا کتا تھا، بھورا رنگ اور تقریباً چار ماہ کا، اس کا ایک کان کالا اور ایک آنکھ کے گرد سیاہ دھبہ تھا۔

جب ٹوبیاس کی نظر اس پر پڑی تو وہ دس قدم چل کر رک گیا اور اپنی ٹھوڑی بار بار رگڑتے اور کچھ سوچ وبچار کرتے ہوئے مالک اور کتے کو باغور دیکھنے لگا جو دم ہلا رہا تھا۔ ایک لمحے بعد وہ اپنی چھڑی کا ہینڈل منہ پر رکھے واپس پلٹا اور جس درخت سے آدمی ٹیک لگائے بیٹھا تھا، اس کے گرد تین چکر لگائے۔ آخرکار کتے پر نظریں مرکوز کیے قریب آ کر نرم، مگر گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا: ”کتا کتنے کا ہے؟“

”دس مارک۔“ آدمی نے جواب دیا۔

پہلے ٹوبیاس نے کچھ نہیں کہا۔ پھر ہچکچاتے ہوئے دہرایا، ”دس مارک؟“

”ہاں۔“ آدمی نے کہا۔

اسی دوران ٹوبیاس نے اپنی جیب سے چمڑے کا بٹوہ نکالا، پانچ مارک کے ایک نوٹ کے ساتھ تین اور دو مارک کے سکے الگ کیے اور جلدی سے رقم بیچنے والے کے حوالے کر دی۔

پھر اس نے پٹا پکڑا اور خوف سے ادھر ادھر دیکھا، دو تین لوگ، جو سودا ہوتے دیکھ رہے تھے، اُس پر ہنس پڑے۔ اس نے سسکتے اور احتجاج کرتے جانور کو کھینچا اور چل دیا۔ کتا لڑکھڑاتا ہوا اس کے پیچھے چلا آ رہا تھا۔ اس نے سارے راستے اَڑنے کی کوشش کی۔ اپنے اگلے پنجوں کو زمین میں گاڑ کر اپنے نئے مالک کو خوف زدہ اور متلاشی نظروں سے دیکھتا رہا۔ تاہم ٹوبیاس خاموشی اور استقامت سے پٹا کھینچتا رہا اور پہاڑی سے نیچے اور پھر شہر میں لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔

جب ٹوبیاس، کتے کے ساتھ گرے روڈ پر نمودار ہوا تو وہاں کے لڑکوں نے گلی کوچوں میں خوفناک شور بلند کیا، لیکن اس نے کتے کو اٹھا کر اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا اور لڑکوں کے طنز طعن، قہقہوں اور کھینچا تانی کے درمیان تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں پہنچ گیا۔ وہاں اس نے کراہتی مخلوق کو زمین پر بٹھا کر پیار سے تھپتھپایا پھر نرم لہجے میں کہا: ”ہاں، ہاں، مجھ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، تم احمق ہو۔ یہ ضروری نہیں ہے۔“

اس کے ساتھ ہی اس نے کموڈ (درازوں اور شیلفوں کی چھوٹی میز نما الماری) کو کھولا اور ابلے ہوئے گوشت اور آلوؤں کی ایک پلیٹ نکالی اور کچھ کھانا اس کے آگے ڈالا۔ جس سے اس کا کراہنا بند ہو گیا اور وہ خوشی خوشی دم ہلاتے اور لرزتے ہوئے جلدی جلدی کھانے لگا۔

”اچھا، تمہارا نام ایسو ہے۔“ ٹوبیاس نے کہا، ”کیا تم سمجھ گئے؟ ایسو آسان لفظ ہے۔ تم کو یاد رکھنے میں آسانی ہوگی۔“

پھر اپنے سامنے زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حاکمانہ لہجے میں پکارا، ”ایسو!“

کتا غالباً کچھ اور کھانے کی توقع کر رہا تھا، وہ فوراً آگے آیا۔ ٹوبیاس نے تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ ”خوب! میرے دوست۔ تم قابلِ تعریف ہو۔“

پھر دو قدم پیچھے ہٹ کر ایک بار پھر فرش کی طرف اشارہ کیا اور پکارا: ”ایسو!“

کھانا کھا کر کتے کی روح تازہ دم ہو گئی تھی۔ وہ ایک بار پھر آگے بڑھا اور اپنے مالک کا جوتا چاٹ لیا۔

ٹوبیاس نے حکم دینے اور ان پر عمل درآمد ہوتے دیکھ کر خوشی میں اس مشق کو تیرہ یا چودہ بار دہرایا۔ تا آنکہ کتا تھک گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ رک کر اپنا کھانا ہضم کرنا چاہتا ہے۔

وہ پالتو کتے کی طرح خوبصورت انداز میں اگلے دونوں لمبے اور نازک پنجے ایک دوسرے کے ساتھ پھیلائے فرش پر لیٹ گیا۔

”ایسو! دوبارہ!“ ٹوبیاس نے حکم دیا۔

لیکن ایسو نے اپنا سر گھما لیا اور وہیں پڑا رہا۔

”ایسو!“ ٹوبیاس بے صبری سے بولا۔ اس کی آواز بلند تھی، ”تمہیں میرے حکم پر عمل کرنا چاہیے! چاہے تم تھک گئے ہو!“

لیکن ایسو نے سر اپنے پنجوں پر رکھ لیا اور آنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔

”اے سنو!“ ٹوبیاس نے دھیمے لیکن خطرناک لہجے میں کہا، ”میرے حکم کی تعمیل کرو۔۔ ورنہ تم نہیں جانتے یہ کتنا غیر دانشمندانہ عمل ہے۔“

کتے نے مشکل سے اپنی دم ہلائی۔

اس وقت ٹوبیاس کو شدید غصے کی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس نے غصے میں بھنّاتے ہوئے اپنی کالی چھڑی لی اور ایسو کو گردن سے پکڑ کر اُٹھا لیا، پھر اسے پیٹنے لگا۔ وہ خوفناک پھنکارتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔ ”تم نے میری اطاعت سے انکار کیا۔ تم نے میرا حکم نہ ماننے کی ہمت کیسے کی؟“

کچھ دیر بعد اس نے چھڑی ایک طرف پھینک دی اور روتے چلاتے کتے کو زمین پر بٹھا دیا۔ پھر وہ کمر پر ہاتھ باندھے، گہری سانسیں لیتا کمرے میں ٹہلنے لگا، کبھی ایک آدھا تکبرانہ اور غصیلی نظر ایسو پر ڈالتا۔ کچھ دیر تک چکر لگانے کے بعد وہ ایسو کے سامنے رک گیا، جو اپنی پشت پر لیٹا اگلی ٹانگیں ہلاتے ہوئے سسک رہا تھا۔

ٹوبیاس نے اپنے بازوؤں کو سینے پر باندھا اور سرد اور سخت لہجے میں نپولین کے سے انداز میں بات کی، جو وہ اس رجمنٹ کے سامنے کھڑے ہوکر کرتا تھا، جو جنگ میں اپنا عَلم کھو چکی ہوتی تھی۔ ”میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم ایسا برتاؤ کیوں کر رہے ہو؟“

اس صلح پر کتا خوش ہو کر رینگتا ہوا مالک کی ٹانگ کے قریب چلا آیا اور اپنی چمکتی اور التجائی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

کافی دیر تک ٹوبیاس کچھ نہ بولا، بس اس عاجز مخلوق کو دیکھتا رہا، لیکن پھر ایسو کے جسم کی گرمی اس کی ٹانگ کو محسوس ہوئی تو اس نے اسے دوبارہ اٹھا لیا۔

”ٹھیک ہے، میں تمہارے ساتھ اچھا سلوک کروں گا۔“ اس نے کہا۔ پھر جیسے ہی نیک طبیعت کا جانور اس کے چہرے کو چاٹنے لگا۔ اس کا مزاج یکسر بدل گیا۔ وہ اداس اور جذباتی ہوگیا تھا۔ اس نے دکھ بھرے پیار کے ساتھ کتے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ بار بار لڑکھڑاتی آواز میں کچھ بول رہا تھا اور جملہ مکمل نہیں کر پارہا تھا۔

”تم ۔۔۔ تم دیکھو، تم صرف۔۔۔۔ میرے ہی ہو۔ صرف میرے۔۔۔“

پھر اس نے ایسو کو آہستگی سے صوفے پر بٹھا دیا اور خود بھی اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اپنا ہاتھ اس کی ٹھوڑی پر رکھا اور اس کو دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں سکون اور نرماہٹ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد ٹوبیاس منڈریکل پہلے کی نسبت گھر سے کم ہی نکلتا، کیوں کہ اسے ایسو کے ساتھ لوگوں میں ظاہر ہونے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ اس نے اپنی تمام تر توجہ کتے پر مرکوز کردی تھی۔ صبح، دوپہر اور رات ٹوبیاس اسے کھانا کھلانے، اس کی آنکھیں پونچھنے، حکم دینے، اسے ڈانٹنے اور انسان کی طرح اس سے بات کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا تھا، لیکن بات یہ تھی کہ ایسو ہمیشہ ایسا نہیں کرتا تھا، جیسا کہ اس کا مالک چاہتا تھا۔ جب تک کتا تازہ ہوا کی کمی اور گھر میں قید کی وجہ سے صوفے پر سستی سے لیٹ کر اداس نظروں سے اپنے مالک کے چہرے کو گھورتا رہا۔ ٹوبیاس کو کوئی شکایت نہیں ہوئی، وہ سکون اور اطمینان سے بیٹھا رہتا، ایسو کی پیٹھ تھپتھپاتا اور اسے تسلی دیتا۔ ”میرے دوست! تم اِس قدر افسردگی سے میری طرف کیوں دیکھتے ہو؟ ہاں، واقعی دنیا ایک اداس جگہ ہے۔ تم اپنی چھوٹی سی عمر میں یہ محسوس کرنے لگے ہو۔“

تاہم، بعض اوقات کتے کی حیوانی جبلتیں اسے اندھے جنون میں مبتلا کر دیتیں۔ وہ پورے کمرے میں کھیلتے ہوئے دیوانہ وار گھومتا اور جوتی منہ میں دبا کر کرسیوں پر چھلانگ لگاتا اور شوخی سے فرش پر لوٹنے لگتا۔ ٹوبیاس اِس سرگرمی کو بے بسی، حیرت، نفرت اور احمقانہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتا تھا۔

آخر وہ اکھڑے لہجے میں بولتا۔ ”بس بہت ہو گیا، بدمعاشی چھوڑو۔ اِدھر اُدھر گھومنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“

ایک دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ ایسو اپنے مالک کے کمرے سے فرار ہو کر نیچے گلی میں آ گیا، جہاں وہ فوراً ایک بلی کے پیچھے بھاگا، گھوڑے کا گوبر کھایا اور خوشی سے بچوں کے آس پاس اچھلنے کودنے لگا۔ جب ٹوبیاس ذلت سے بگڑا چہرہ لیے گلی میں نمودار ہوا تو اس کا استقبال تالیوں اور قہقہوں کی گونج میں ہوا۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ کتے نے لمبی چھلانگ لگائی اور مالک کے پاس سے بھاگ گیا۔۔۔ اس دن ٹوبیاس نے کافی دیر تک اس کی سخت پٹائی کی۔

ایک دن کھانے کے وقت جب کتا کئی ہفتوں سے اس کے قبضے میں تھا، ٹوبیاس نے کموڈ کے دراز سے روٹی کا ایک ٹکڑا لیا اور ہڈی کے دستے والے لمبے چاقو سے، جو وہ ہمیشہ اس طرح کے کاموں کے لیے استعمال کرتا تھا، روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر زمین پر گرانے لگا۔ تاہم، ایسو بھوک اور چلبلے پن کے زیرِ اثر تیزی سے اپنے مالک کی طرف لپکا اور اپنے داہنے کندھے کو اناڑی پن سے پکڑے ہوئے چاقو سے زخمی کر لیا۔ چاقو اس کے کندھے میں گھس گیا تھا۔ وہ فرش پر گرا اور تکلیف سے تڑپنے لگا۔ اس کا خون بہہ رہا تھا۔

ٹوبیاس نے چونک کر سب ایک طرف پھینک دیا اور زخمی جانور کے اوپر جھک گیا۔۔ تاہم اس کا چہرہ بدل گیا تھا، سچ یہ تھا کہ ایک عجیب خوشی کی چمک اس پر پھیل گئی تھی۔ وہ آہستہ سے کراہتے کتے کو اٹھا کر صوفے پر لے گیا۔ آپ اس عقیدت کا تصور نہیں کر سکتے، جس کے ساتھ اس نے مریض کی تیمارداری شروع کی۔ دن کے وقت ٹوبیاس ایک لمحے کے لیے بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا تھا اور رات کو اسے اپنے بستر پر سلاتا، اسے نہلاتا، اس کی مرہم پٹی کرتا، اسے تھپکی اور تسلی دیتا اور اپنی ہمدردی اور تشویش کے اظہار میں کبھی نہیں تھکتا تھا۔

”بہت دردناک۔ ہاں تم سخت تکلیف میں ہو، میرے دوست! ٹھیک ہے، پرسکون ہو جاؤ، تم کو صبر کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔“ یہ الفاظ ادا کرتے وقت اس کے چہرے پر سکون اور اداسی کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوتی تھی۔

تاہم، جوں جوں دن گزرتے رہے، ایسو کا زخم ٹھیک ہوتا گیا اور جیسے جیسے وہ صحت یاب ہوتا گیا، اس کی شوخی اور کھلنڈرا پن دوبارہ عود آیا، لیکن ٹوبیاس بے چین اور ناخوش تھا۔ اب وہ زخم کی پروا کرتا، مگر اس سے پیار اور ہمدردی کا اظہار نہ کرتا تھا۔ آخر ایسو صحت یاب ہوگیا اور اٹھ کر کمرے میں چلنے پھرنے لگا۔

ایک خوشگوار دن، جب وہ مکمل طور پر صحت مند ہوگیا تھا، اس نے روٹی کے ساتھ ایک پیالہ دودھ پیا اور صوفے سے چھلانگ لگا کر اترا۔ پھر خوشی سے بھونکنے اور پھرتی کے ساتھ کمروں کے چکر لگانے لگا۔ اس نے اپنے دانتوں سے بستر کی چادر کھینچی، آلو لے کر بھاگا اور خوشی سے مغلوب ہو کر قلابازی کھائی۔

ٹوبیاس کھڑکی کے قریب پھولوں کے گملے کے پاس کھڑا تھا۔ اگلی عمارت کی دیوار کے پسِ منظر میں اس کی شکل تاریک لگ رہی تھی، اس کے بازو لمبی اور خستہ حال آستینوں میں دبلے نظر آرہے تھے اور وہ بے خیالی میں اپنے بالوں کو مروڑ رہا تھا جو اس کی کنپٹیوں سے نیچے لٹک رہے تھے۔ اس کے زرد چہرے پر غم کے سائے منڈلا رہے تھے۔ جھکی ہوئی شرمندہ، حاسدانہ اور بدنیتی پر مبنی نظریں بے حسی سے چھلانگیں لگاتے ایسو کا پیچھا کر رہی تھیں، پھر اچانک اس نے حرکت کی، کتے کے پاس گیا، اسے پکڑا اور آہستہ آہستہ اوپر اٹھایا۔

”میرا بے چارہ کتا۔۔۔“ وہ روہانسی آواز میں بولا، لیکن شرارتی ایسو اس طرح کے سلوک کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔ اس نے خود کو تھپتھپانے کی کوشش میں اس کے ہاتھ پر ہلکا سا کاٹ لیا، پھر ٹوبیاس کے بازوؤں کو جھٹک کر زمین پر چھلانگ لگائی شرارت سے ایک طرف لپکا اور بھونکتا ہوا خوشی خوشی بھاگ گیا۔

پھر کچھ ایسا ناقابلِ فہم اور گھناؤنا ہوا کہ میں اس کی تفصیل میں جانے سے انکاری ہوں۔ ٹوبیاس مائنڈرنکل اپنے ہونٹوں کو بھینچے اور کندھے جھکائے کھڑا تھا، اس کے بازو نیچے لٹکے تھے اور اس کی آنکھوں کی پتلیاں اپنے حلقوں میں پراسرار طور پر کانپ رہی تھیں۔ پھر اچانک کسی جنونی کی طرح چھلانگ لگاتے ہوئے اس نے کتے کو پکڑ لیا، ایک لمبی چمکدار چیز اس کے ہاتھ میں لہرائی اور۔۔۔۔ دائیں کندھے سے سینے کے نچلے حصے تک۔۔
۔۔ ایسو بغیر آواز نکالے فرش پر گر گیا۔ وہ تڑپ رہا تھا اور خون میں لت پت۔۔۔۔

چند لمحوں بعد ایسو صوفے پر پڑا تھا اور ٹوبیاس اس کے سامنے گھٹنے ٹیکے زخم پر رومال رکھے بڑبڑا رہا تھا۔ ”میرے دوست! یہ سب کتنا افسوسناک ہے! ہم دونوں کتنے اداس ہیں! کیا تم تکلیف میں ہو؟ ہاں ہاں، میں جانتا ہوں کہ تم تکلیف میں ہو۔۔۔ یہاں پڑے ہو، ناخوش ہو! لیکن میں تمہارے ساتھ ہوں! میں تمہارا خیال رکھوں گا! میرا بہترین رومال۔۔۔“

ایسو تکلیف سے کراہا۔ اس کی بجھتی سوالیہ نظروں میں الجھن، معصومیت اور مالک سے شکایت بھری تھی، پھر اس نے اپنی ٹانگیں تھوڑی سی سیدھی کیں اور مرگیا۔

تاہم ٹوبیاس اپنی جگہ پر موجود رہا، کوئی حرکت نہیں کی۔ بس اس نے اپنا چہرہ ایسو کی لاش پر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close