ہرات – بے روزگار اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کوشاں، نورالدین کے پاس اپنا ایک گردہ بیچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ نور الدین کا شمار ان ہزاروں افغان شہریوں میں ہوتا ہے، جو اپنے جسمانی اعضاء بیچنے پر مجبور ہیں
یہ رویہ مغربی افغان شہر ہرات میں اس قدر پھیل چکا ہے کہ شہر کی ایک نواحی بستی کو ‘ایک گردے والوں کا گاؤں‘ کا نام دے دیا گیا ہے
ایران کے ساتھ قومی سرحد کے قریب واقع شہر ہرات کے رہائشی نورالدین کا کہنا ہے ”مجھے یہ اپنے بچوں کی خاطر کرنا پڑا۔ میرے پاس اور کوئی راستہ تھا ہی نہیں‘‘
گذشتہ برس اگست میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کئی دہائیوں سے شورش کے شکار اس ملک میں انسانی بحران اپنے عروج پر ہے
افغانستان کو ملنے والی غیر ملکی امداد، جس نے اس ملک کو کچھ سہارا دیا تھا، طالبان کے آنے کے بعد اس میں بھی کافی کمی آئی، جبکہ امریکا کی جانب سے افغانستان کے فنڈز کو نہ صرف منجمند کر دیا گیا، بلکہ اس کا نصف نائن الیون متاثرین کے امریکی لواحقین کو دے دیا گیا
افغانستان کے بیرون ملک اثاثے منجمد ہیں اور انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد بھی بہت محدود ہے۔ اس نئی صورت حال کا براہ راست اثر بتیس سالہ نورالدین جیسے افغان شہریوں پر پڑ رہا ہے
نورالدین نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی فیکٹری کی نوکری اس لیے چھوڑ دی کہ ملک کے فنڈز کے انجماد کی وجہ سے دگرگوں معاشی حالات کے پیش نظر ان کی تنخواہ میں تین ہزار افغانی (تقریباً 30 ڈالر) کی کمی کر دی گئی تھی
نورالدین کو لگا کہ اسے کوئی بہتر نوکری مل جائے گی۔ جب اسے کوئی نوکری نہ ملی تو مایوسی میں، اس نے اپنا ایک گردہ فروخت کر دیا
نورالدین کا کہنا ہے ”مجھے اب ایسا کرنے پر افسوس ہے۔ میں اب مزید کام نہیں کر سکتا۔ میں درد میں ہوں اور کوئی بھاری چیز بھی نہیں اٹھا سکتا‘‘
نورالدین کا خاندان اب آمدنی کے لیے اپنے بارہ سالہ بیٹے پر انحصار کرتا ہے، جو روزانہ جوتے پالش کر کے 70 امریکی سینٹ کے برابر رقم کماتا ہے
نورالدین ان آٹھ لوگوں میں شامل ہیں، جن سے اے ایف پی نے بات کی اور جنہوں نے اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے یا قرض ادا کرنے کے لیے اپنا گردہ فروخت کیا۔ کچھ نے اپنا یہ قیمتی عضو پندرہ سو سے بھی کم ڈالر میں فروخت کردیا
بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں اعضا کی خرید و فروخت غیر قانونی ہے، جہاں عطیہ دہندگان عام طور پر اعضا وصول کرنے والوں کے رشتے دار ہوتے ہیں یا وہ لوگ جو ہمدردی یا ایثار کے جذبے کے تحت اعضا عطیہ کرتے ہیں، تاہم افغانستان میں یہ عمل غیر منظم ہے
افغانستان کے شمالی شہر مزار شریف ایک ہسپتال کے سابق سرجن پروفیسر محمد وکیل متین نے اے ایف پی کو بتایا: ’اعضا کو عطیہ کرنے یا اس کی خرید و فروخت کے حوالے سے یہاں کوئی قانون نہیں ہے، لیکن عطیہ کرنے والے کی رضامندی ضروری ہے۔‘
محمد بصیر عثمانی ان دو ہسپتالوں میں سے ایک میں سرجن ہیں، جہاں ہرات کے گردوں کی پیوند کاری کے زیادہ تر آپریشن کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ ‘رضامندی‘ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم گردے فروخت کرنے والوں سے تحریری رضامندی اور ایک ویڈیو ریکارڈنگ بھی لیتے ہیں۔‘‘ عثمانی کہتے ہیں کہ یہ ان کا کام نہیں کہ تحقیق کریں کہ مریض یا گردے فروخت کرنے والے افراد کہاں سے آتے ہیں اور کیوں آتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں یہاں گردوں کی پیوند کاری کے ہزاروں آپریشن کیے جا چکے ہیں
ڈاکٹر بصیر عثمانی نے بتایا کہ ملک کے نئے حکمرانوں کے پاس اعضا کی تجارت کو روکنے کا ایک منصوبہ ہے اور وہ اسے منظم کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے رہے ہیں
غربت کا شکار افغان شہریوں کا عام طور پر بروکرز (ایجنٹس) کے ذریعے مالدار مریضوں سے رابطہ ہوتا ہے، جو ملک بھر سے ہرات کا سفر کرتے ہیں اور بعض اوقات ان کا تعلق بھارت اور پاکستان سے بھی ہوتا ہے جبکہ ہسپتال کی فیس اور عطیہ کرنے والے کو رقم بھی وصول کنندہ ادا کرتا ہے
افغان خاتون ازیتا کے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے تین میں سے دو بچے غذائی قلت کا شکار ہوگئے۔ اس صورت حال میں انہیں محسوس ہوا کہ ان کے پاس اپنا کوئی عضو بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، جس کے بعد وہ ایک بروکر سے ملیں، جس نے انہیں جنوبی افغان صوبے نمروز سے تعلق رکھنے والے ایک مریض سے ملوایا
ازیتا نے بتایا: ’میں نے اپنا گردہ ڈھائی لاکھ افغانی (2500 ڈالر) میں فروخت کردیا۔‘
’مجھے یہ کرنا پڑا۔ میرے شوہر کوئی کام نہیں کرتے۔ ان کے اوپر قرضہ ہے۔‘
اب ازیتا کے شوہر، جو دیہاڑی دار مزدور ہیں، یہی کام کرنا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’لوگ غریب ہوگئے ہیں۔ بہت سے لوگ مایوسی کے عالم میں اپنا گردہ بیچ رہے ہیں۔‘
ہرات کے مضافات میں واقع سیشنبہ بازار نامی گاؤں، کئی سالوں کے تنازعات کے باعث بے گھر ہونے والے سینکڑوں لوگوں پر مشتمل ہے
اس گاؤں کو ’ایک گردے والوں کا گاؤں‘ کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے درجنوں رہائشیوں نے پیسوں کے حصول کے لیے اپنے اعضا فروخت کر رکھے ہیں
اس گاؤں کے رہائشی ایک ہی خاندان کے پانچ بھائیوں نے گذشتہ چار سالوں میں یہ سوچ کر اپنے گردے بیچے کہ اس طرح ان کی غربت ختم ہوجائے گی
اے ایف پی سے گفتگو میں اپنے زخم دکھاتے ہوئے غلام نبی نے بتایا: ’ہم اب بھی مقروض ہیں اور پہلے کی طرح غریب۔‘
ترقی یافتہ ممالک میں، عطیہ کرنے والے اور وصول کرنے والے عام طور پر مکمل اور نارمل زندگی گزارتے ہیں، لیکن سرجری کے بعد ان کی صحت کی نگرانی کی جاتی ہے اور اس کا دارومدار متوازن طرز زندگی اور خوراک پر بھی ہوتا ہے
تاہم یہ سہولیات اور آسائشیں اکثر غریب افغانوں کو میسر نہیں ہیں، جو گردہ فروخت کرنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو غربت کی دلدل میں دھنسا ہوا پاتے ہیں اور ان کی صحت بھی خراب رہتی ہے
پروفیسر متین نے بتایا کہ اعضا عطیہ کرنے والے محض چند لوگوں نے ہی فالو اپ چیک کا انتظام کیا
انہوں نے مزید کہا: ’گردے فروخت کرنے والوں اور عطیہ دہندگان کی رجسٹریشن کے لیے صحت عامہ کی کوئی سہولیات موجود نہیں ہیں تاکہ یہ جانا جاسکے کہ ان کی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘
انیس سالہ شکیلہ، جو دو بچوں کی والدہ ہیں، طالبان کے اقتدار میں آنے سے کچھ عرصہ قبل ہی ہرات کے ایک ہسپتال میں اس طریقہ کار سے گزری تھیں
انہوں نے بتایا: ’ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
شکیلہ نے اپنے خاندان کا قرضہ چکانے کے لیے اپنا گردہ پندرہ ڈالر میں فروخت کردیا
دوسری جانب تین بچوں کی والدہ عزیزہ، ہسپتال کے عملے کے ایک رکن سے ملنے کے بعد موقعے کا انتظار کر رہی ہیں، جو انہیں ایک ڈونر سے ملانے کی کوشش کر رہا ہے
انہوں نے آنسوؤں بہاتے ہوئے بتایا ”میرے بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ اگر میں اپنا گردہ فروخت نہیں کرتی تو میں اپنی ایک سالہ بیٹی کو بیچنے پر مجبور ہو جاؤں گی“