کراچی – گزشتہ روز افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی پہلی بار منظر عام پر آئے تو یہ خبر ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ میں حیرت کے ساتھ شایع کی گئی کیونکہ انتہائی خفیہ زندگی بسر کرنے والے سراج الدین حقانی پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آئے ہیں، قبل ازیں ان کی صرف ایک ہی تصویر سامنے آئی تھی اور وہ بھی واضح نہیں تھی. حتیٰ کہ گزشتہ برس وسط اگست میں طالبان کی طرف سے افغانستان پر قبضے کے بعد سے بھی وہ ابھی تک عوامی سطح پر نمودار نہیں ہوئے تھے
ہفتے کے روز افغان میڈیا اور طالبان رہنماؤں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سراج الدین حقانی کی تصاویر شیئر کیں، جو کابل میں محکمہ پولیس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے دوران لی گئی تھیں
سراج الدین حقانی نہ صرف طالبان کی طرف سے وزیر خارجہ بنائے گئے ہیں بلکہ وہ ‘حقانی نیٹ ورک‘ کے سربراہ بھی ہیں۔ امریکی حکومت نے انہیں انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جبکہ ان کی گرفتاری میں مدد کروانے والے کے لیے دس ملین امریکی ڈالر کا انعام بھی دیا جائے گا۔ اقوام متحدہ نے بھی انہیں ”دہشت گردوں“ کی بلیک لسٹ میں شامل کر رکھا ہے
سراج الدین حقانی ہفتے کے دن کابل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شریک ہوئے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ نیشنل پولیس اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ تقریب میں میڈیا اور عوام کے سامنے آئے۔ نائب افغان وزیر اعظم ملا عبدالغنی بردار کے قریبی ساتھی عبداللہ عظام نے اپنے ٹوئٹر پر ان کی تصویر شائع کی
سراج الدین حقانی نے پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب میں نئے بھرتی کئے گئے سکیورٹی اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”میں آپ کی تسلی اور اعتماد جیتنے کی خاطر، میڈیا اور عوام کے سامنے آیا ہوں‘‘
یہی وجہ ہے کہ تجزیہ نگاروں کے خیال میں سراج الدین حقانی کا اس طرح کھلے عام ایک عوامی تقریب میں شریک ہونا دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ افغانستان پر قبضے کے بعد طالبان کی اعتماد میں اضافہ ہو چکا ہے
سراج الدین حقانی طالبان کے انتہائی اہم ترین رہنماؤں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ بھی ہیں، جو بیس سالہ افغان جنگ میں امریکی اہداف پر خونریز حملوں کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے
حقانی نیٹ ورک سن 1970 کی دہائی میں سراج الدین حقانی کے والد جلال الدین حقانی نے قائم کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں اس عسکری گروہ کو مضبوط بنانے کی خاطر امریکی خفیہ ادارے سی آئی نے بھی مدد فراہم کی تھی۔ تب افغانستان پر قابض سوویت فورسز کو شکست دینے کی خاطر مجاہدین کو مغربی حمایت حاصل تھی
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اَسّی کی دہائی میں امریکا اپنے مفاد اور افغانستان پر قابض اپنے حریف روس کو شکست دینے کے لیے اس گروہ کی حمایت کرتا رہا
سن 1995ع میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے
بعد ازاں سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے اس وقت حقانی نیٹ ورک کو ایک ”دہشت گرد گروہ قرار“ دے دیا، جب امریکا خود افغانستان پر قابض تھا، اور حقانی گروپ طالبان کے شانہ بشانہ اس سے برسرِ پیکار تھا
یاد رہے کہ طالبان کی پہلی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن 2001 تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن 2001 میں ہی طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے
سن 1939ع میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے
جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے منظم نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن 2015 میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہیں
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے. حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر مسلح گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ مبینہ طور پر القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں
سن 2018ع میں جلال الدین حقانی کی موت کی خبر عام کی گئی تھی، جس کے بعد سراج الدین حقانی نے اس گروہ کی قیادت سنبھال لی تھی۔ اندازہ ہے کہ سراج الدین حقانی کی عمر چالیس برس کے لگ بھگ ہے۔ امریکا نے سراج الدین حقانی کو مبینہ طور پر متعدد مرتبہ ڈرون حملوں کا نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی لیکن وہ ان ڈرون حملوں میں وہ محفوظ رہے
سن 2020ع میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں سراج الدین حقانی کا ایک مضمون بھی شائع کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے مغربی عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ افغان طالبان کیا چاہتے ہیں۔ اس مضمون کی اشاعت پر ایک تنازعہ بھی کھڑا ہو گیا تھا کیونکہ آزادی اظہار کی دعوے دار دنیا کے کئی حلقوں کی طرف سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ نیو یارک ٹائمز نے ایک ”دہشت گرد“ کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے ایک فورم مہیا کیا ہے.