’مویشیوں میں لمپی اسکن کا وائرس کے پھیلنے کی شرح 90 فیصد ہے‘

نیوز ڈیسک

کراچی – سندھ کے مختلف علاقوں بالخصوص کراچی کی بھینس کالونی کے مویشیوں میں گانٹھ اور پھوڑو کی جلد کی بیماری پھیل رہی ہے

کراچی کے علاقے لانڈھی کی بھینس کالونی میں واقع جانوروں کے سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر زمران باجکانی نے بتایا کہ ’مویشیوں کے لمپی اسکن کا وائرس کے پھیلنے کی شرح 90 فیصد ہے جب کہ اس کی شرح اموات پانچ فیصد ہے۔ مگر اس بیماری میں مبتلا ہونے والے مویشیوں کا جسم کا درجہ حرارت اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں، جس کے باعث وہ کمزور ہوجاتے ہیں اور دودھ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس وائرس سے مویشیوں کی جلد پر پھوڑے، گانٹھ اور دانے نمودار ہوجاتے ہیں۔ ان دانوں میں پیپ بھی پڑ جاتی ہے جو کہ گائے کی کھال سے گوشت تک سرایت کرجاتی ہے۔ اس کے باعث بیمار گائے کے گوشت میں بھی دانے کے نشان ہوتے ہیں اور وہ گوشت استعمال نہیں ہوتا۔‘

ان کے مطابق ’اس وائرس کی شرح اموات تو کم ہے مگر جب کسی گائے کی دودھ کی پیداوار ختم ہوجائے اور اس کا گوشت قابل استعمال نہ ہو تو ایسی گائے تو قتل کردیا جاتا ہے تاکہ یہ بیماری ایک گائے سے دوسری گائے میں نہ پھیلے۔‘

انہوں نے بتایا ’سندھ میں اس بیماری کا سب سے پہلا کیس دو ماہ قبل رپورٹ ہوا تھا۔ مگر اس سے پہلے یہ بیماری افریقہ میں پائی گئی تھی جہاں اس سے اَسی لاکھ جانور متاثر ہوئے۔ اس کے بعد یہ ایران اور انڈیا سے ہوتی ہوئی پاکستان میں آگئی۔ اس کے پھیلنے کی سن سے بڑی وجہ مکھیاں اور مچھر ہیں۔ اس لیے اس کی روک تھام کے لیے فارمرز کو چاہیے کہ وہ مچھروں کا سپر مسلسل طور پر کرتے رہیں۔‘

انہوں نے کہا ’یہ ایک وائرل بیماری ہے اور اس بیماری کا صرف ایک ہی اعلاج ہے اور وہ ہے ویکسین جو کہ پاکستان میں اس وقت میسر نہیں۔‘

دوسری جانب ڈیری اینڈ کیٹل فارم ایسوسی ایشن کے صدر اور بھینس کالونی میں سدیس ڈیری فارم کے مالک مبشر قدیر عباسی نے کا کہنا ہے کہ ’بھینس کالونی میں پانچ ہزار کیٹل فارم ہیں، جن میں لاکھوں مویشی ہیں۔ ہر فارم میں اس وقت ایک سے دو فیصد گائے اس وائرس میں مبتلا ہیں، جس کے باعث اب تک صرف کراچی میں تقریبا پچیس سے تیس ہزار گائیں اس بیماری کا شکار ہوچکی ہیں‘

ان کے مطابق ’یہ بیماری گائے سے بھینس میں نہیں پھیلتی مگر ایک سے دوسری گائے میں بہت جلدی پھیل رہی ہے۔ ہمارے فارم میں بیس فیصد گائے ہیں اور 80 فیصد بھینس۔ مگر صرف 20 فیصد گائے 80 فیصد بھینس جتنا دودھ فراہم کرتی ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے والی گائے دودھ دینا چھوڑ دیتی ہے، جس کی وجہ سے دودھ کی پیداوار میں کمی آئی ہے اور آنے والے دنوں میں دودھ کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ایسی گائے کا گوشت بھی کسی کام کا نہیں رہتا، ہمیں مجبوراً اسے قتل کرنا پڑتا ہے اور لاکھوں کا نقصان ہوتا ہے۔ ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ فوری طور پر مویشیوں کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی لگائی جائے اور اس کی ویکسین فراہم کی جائے‘

سندھ حکومت کے لائیو اسٹاک ڈپارٹمنٹ نے وفاقی حکومت کو جانوروں میں جلد کی بیماری کے حوالے سے رپورٹ ارسال کی ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا مویشیوں کا گوشت اور دودھ انسانوں کے لیے مضر صحت نہیں، مگر اس کا علاج ویکسین ہے

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی کی بھینس کالونی اور سندھ کے دیگر علاقوں کی گائے میں جلدی بیماری پھیلنے کا نوٹس لے لیا ہے اور محکمہ لائیو اسٹاک سے اس کے متعلق رپورٹ طلب کی ہے

نیز لائیوسٹاک محکمے کی ٹیموں کو ڈیری فارمز کا دورہ کرنے اور جانوروں کی تشخیص کر کے فوری ویکسینیشن کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close