لندن – سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر بی بی سی ریڈیو فور کو دیے گئے انٹرویو میں عراق اور افغانستان پر حملہ کرنے کے فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر درمیان میں لٹکتے ہوئے نظر آئے
یوکرین کے معاملے پر انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ یوکرین یورپ کی دہلیز پر ایک آزاد خود مختار ملک ہے، اس پر حملہ اور قبضہ بڑے پیمانے پر ہمارے مفادات کے خلاف ہے
سابق برطانوی وزیر اعظم نے کہا ”عراقی اور افغانستان کے معاملے پر اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میں نے غلط فیصلہ لیا۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں، لیکن میں نے اس وقت وہی کیا جو درست لگا“
انگلینڈ کے معروف شہر کینٹربری کے آرچ بشپ نے بی بی سی ریڈیو 4 کی ایک سیریز کے دوران برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر سے جب سوال کیا کہ وہ احساس جرم سے کیسے نمٹتے ہیں تو گفتگو کا ایک موضوع عراق اور افغانستان بھی تھا
واضح رہے کہ ریڈیو فور کا یہ پروگرام آرچ بشپ کے ساتھ انٹرویوز کی سیریز کا حصہ ہے، جس میں ٹونی بلیئر سے عراق کی جنگ، افغانستان اور گڈ فرائیڈے معاہدے پر ہونے والی بات چیت کے بارے میں سوالات کیے گئے
ٹونی بلیئر کیتھولک عقیدے کے حامل ہیں۔ انہوں نے موسٹ ریورینڈ جسٹن ویلبی کو بتایا کہ ان کے عقیدے نے انہیں اس حقیقت سے سمجھوتے میں مدد دی تھی کہ لوگ اُنہیں ناپسند کرتے ہیں
ٹونی بلیئر نے کہا ”مجھے وہی کرنا تھا جو میں صحیح سمجھتا تھا“
ٹونی بلیئر نے کہا کہ انہوں نے جو فیصلے کیے وہ پیچیدہ تھے۔ انہوں نے لوگوں کو خبردار کیا کہ وہ ان سیاست دانوں پر بھروسہ نہ کریں جو انھیں ’سادہ نعرے‘ دیتے ہیں
امریکی انٹیلیجنس کی بے بنیاد رپورٹ پر عراق پر حملہ کر کے لاکھوں عراقیوں کو خون میں نہلانے اور پورے عراق کو کھنڈر بنانے کے فیصلے کو درست کہنے والے مسٹر بلیئر نے روسی حملے کی صبح ریکارڈ کیے گئے انٹرویو میں یوکرین کے تنازع پر بھی بات کی اور کہا ”یہ بڑے پیمانے پر ہمارے مفادات کے خلاف ہے کہ یورپ کی دہلیز پر ایک آزاد خود مختار ملک پر حملہ کیا جائے اور اس پر قبضہ کر لیا جائے“
دنیا بھر کے دیگر تنازعات میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلوں پر انہوں نے کہا کہ ’اپنے مفادات کے بارے میں دانائی پر مبنی نظریے کا مطلب ہے کہ آپ کے لیے یہ بہتر ہے کہ آپ کسی ایسی چیز کو روکنے کے لیے کام کریں جو بالآخر کہیں نہ کہیں آپ کو متاثر کر سکتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ سیاسی رہنما کا کردار نہیں ہے کہ وہ دنیا بھر میں ’برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔‘
لیکن انہوں نے کہا ”جب آپ کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے کہ جس میں آپ کو یہ یقین ہو کہ آپ کے ملک کے مفادات کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ کسی برے واقعے کو روکیں، تو آپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اس کے لیے کھڑے ہوں، اور آپ اسے روکنے کے لیے ضروری اقدام کریں“
مسٹر بلیئر نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کے اپنے فیصلوں کا دفاع کیا
انہوں نے کہا ”لوگ اکثر عراق یا افغانستان کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے غلط فیصلہ کیا لیکن آپ کو وہی کرنا پڑتا ہے جو آپ کو صحیح لگتا ہے“
”آپ صحیح ہیں یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے۔ ان بڑے فیصلوں میں آپ کو واقعی نہیں معلوم ہوتا کہ (اس میں شامل) تمام عناصر کیا ہیں، اور آپ کو آخر کار اپنی جبلت کی پیروی کرنی ہوتی ہے“
انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ عراق اور افغانستان کے بارے میں ”غلط ہو سکتے ہیں“ لیکن انہوں نے اصرار کیا: ”مجھے وہی کرنا پڑا، جو میں نے صحیح سمجھا“
ان فیصلوں کے نتیجے میں کچھ لوگوں کی جانب سے انہیں ناپسند کیے جانے کے بارے میں پوچھے جانے پر بلیئر نے کہا: ’میرے نزدیک مسیحی عقیدے کے بارے میں سب سے زیادہ طاقتور چیز، یا شاید آپ عام طور پر کسی بھی مذہبی عقیدے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں، یہ ہے کہ آپ کسی بڑی اور وسیع چیز کو خود سے زیادہ اہم تسلیم کرتے ہیں۔
’مجھے اکثر لگتا ہے کہ میرے اور مثال کے طور پر کسی مسلمان کے درمیان زیادہ قدریں مشترک ہوں گی کیونکہ وہ بھی صاحبانِ ایمان ہیں۔ ایسا اُن لوگوں کے ساتھ نہیں ہو گا جو (عقیدے کو) صرف دکھاوے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
جب ان سے احساس جرم کے بارے میں پوچھا گیا تو بلیئر نے کہا: ’جب آپ سے کچھ غلط ہوا ہو تو آپ کو اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ میرے خیال میں سیاست میں آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو لوگ آپ کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔‘
لیکن اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا: ’سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جو درحقیقت بہت پیچیدہ ہے، اس میں لوگ سادگی کی تلاش کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ’کم از کم اس پیچیدگی کی حقیقت کا احترام کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ اسے کسی سادہ نعرے تک محدود کر دیا جائے۔‘
انہوں نے کہا ’کیونکہ جن سیاستدانوں پر آپ کو واقعی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے وہ ایسے لوگ ہیں جو آ کر آپ کو سادہ نعرے سناتے ہیں۔‘
’’چلکوٹ کمیشن‘‘ کی 2016 میں سامنے آنے والی رپورٹ کیا کہتی ہے؟
زندگی میں ایسے بہت سے موقع آتے ہیں جب انسان اپنی حیثیت اور اقتدار کی طاقت کو دیکھ کر بلا سوچے سمجھے وہ فیصلے کرجاتا ہے جن کا خمیازہ لاکھوں لوگوں اور آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ گوکہ بعد میں ایسے لوگوں میں سے کچھ کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ سب کے سامنے اُس کا اعتراف بھی کرلیتے ہیں، لیکن کچھ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے کیے پر قائم رہتے ہیں اور اُسے ہی صحیح گردانتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ساتھ ہوا ہے
عراق کی جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر برطانیہ پر ویسے بھی شروع سے تنقید ہورہی ہے، خاص طور پر برطانوی عوام اس فیصلے کو انتہائی غلط کہتے آئے ہیں
2016 میں اس حوالے سے قائم کمیشن کی رپورٹ نے تو ٹونی بلیئر اور اُن کے رفقا کی غلط پالیسیوں کا بھانڈا ہی پھوڑ دیا تھا
سر جان چلکوٹ Sir John Chilcot کی سربراہی میں قائم کمیشن نے جسے ’’چلکوٹ کمیشن ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، واضح کردیا تھا کہ عراق کی جنگ میں برطانیہ کی مداخلت کا کوئی جواز نہیں تھا اور عراق پر حملے کے لیے امریکا اور برطانیہ نے جو جواز پیش کیے تھے وہ غلط تھے۔ واضح رہے کہ یہ چلکوٹ کمیشن 15 جون 2009ع کو اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے قائم کیا تھا، جس نے اپنی رپورٹ 6 جولائی 2016 کو جاری کی
اس رپورٹ کے پہلے 2014 میں منظرعام پر لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن کچھ قانونی رکاوٹوں اور امریکا سے تعلقات میں خرابی کے خطرے کے پیش نظر اس میں تاخیر ہوتی رہی۔ برطانوی دفترخارجہ نے عدالت میں ایک اپیل کی جس کے تحت عراق پر حملے سے ایک روز قبل ٹونی بلیئر اور اُس وقت کے امریکی صدر جارج بش کے درمیان ہونے والی گفتگو کے مندرجات رپورٹ میں شامل نہ کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا، کیونکہ برطانوی حکومت کے مطابق بلیئر اور بش کی گفتگو کے مندرجات سامنے آنے سے دونوں ممالک کے تعلقات خطرے میں پڑ سکتے تھے
چوبیس لاکھ سے زاید الفاظ پر مشتمل چلکوٹ رپورٹ کے اہم نکات درج ذیل ہیں ، انہی نکات نے ٹونی بلیئر کے عجلت میں کیے گئے فیصلوں، ہر بات میں واشنگٹن کی ہاں میں ہاں ملانے کی عادت اور غیرضروری ایڈونچر میں اپنے فوجیوں کو جھونکنے کی خواہش کو واضح کردیا
رپورٹ میں ٹونی بلیئر کی غلط فیصلہ سازی، منصوبہ بندی اور دوراندیشی کے فقدان اور جنگ کے اثرات سے نمٹنے میں ناکامی پر شدید تنقید کی گئی
چلکوٹ رپورٹ کے اہم نکات یہ تھے
٭ جس وقت عراق پر چڑھائی کا فیصلہ کیا گیا اُس وقت صدام حسین سے فوری طور پر کوئی بڑا خطرہ نہیں تھا
٭ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی بھی ایک بہانہ تھی
٭ ٹونی بلیئر نے عراق جنگ میں کودنے کے لیے بہت عجلت کا مظاہرہ کیا
٭ عراق کا مسئلہ مذاکرات سے حل کیا جاسکتا تھا، لیکن امریکا اور برطانیہ نے جنگ و جدل کا راستہ اختیار کیا
٭ برطانیہ جو مقاصد لے کر عراق کی جنگ میں گیا تھا، وہ حاصل نہیں کیے جاسکے
٭ فوجی کارروائی آخری آپشن نہیں تھا، برطانیہ نے جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ تخفیف اسلحہ کے آپشن کو استعمال کرنے سے قبل ہی کرلیا تھا
٭ جنگ کے فیصلے نے اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی ساکھ اور اتھارٹی کو بھی نقصان پہنچایا
٭ جنگ کے دوران وزارت دفاع کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی۔ فوجیوں کے بچانے اور ان کی امداد کے لیے لاجسٹک سہولتوں کا فقدان رہا تو کہیں انٹیلیجنس کی ناکامی نے برطانوی فوجیوں کو وہ نقصان پہنچایا، جو صحیح حکمت عملی سے نہ ہوتا
٭ مختلف عراقی صوبوں میں عجلت میں فوجی آپریشن کیے گئے، منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے برطانوی فوجیوں کو کافی نقصان اٹھا پڑا
٭ امریکا کا ساتھ دینے کے لیے لارڈ گولڈ اسمتھ نے جو قانونی بنیاد پیش کی، وہ بھی اتنی ٹھیک نہیں تھی کہ اُس پر فوری عمل کیا جاتا
٭ بلیئر حکومت نے جنگ کے بعد بحالی کے کاموں کے حوالے سے بھی کوئی پالیسی نہیں بنائی تھی ، ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ بغیر سوچے سمجھے کیا گیا، وہ تعمیر نو کے لیے اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں بھی ناکام رہی
سرجان چلکوٹ نے 2016 میں سامنے آنے والی اپنی رپورٹ میں برطانوی حکومت کو تجویز دی تھی کہ مستقبل میں جنگِ عراق کی غلطیاں دہرانے سے اجتناب کرے۔ ہر اہم معاملے میں مشاورت اور صلاح مشورہ ضروری ہوتا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جنگِ عراق میں ایسا نہیں ہوا
رپورٹ میں برطانوی خفیہ ایجنسیوں پر بھی شدید تنقید کی گئی تھی کہ انہوں نے حکومت وقت کو صحیح معلومات نہیں دیں۔ وہ اس پر مصر رہیں کہ عراق میں مہلک ہتھیار ہیں اور صدام نے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار حاصل کرلیے ہیں، جب کہ عراق جنگ کے بعد وہاں سے ایسے کوئی ہتھیار نہیں ملے۔ برطانیہ عراق کی جنگ میں شامل ہوکر بین الاقوامی قوانین کو توڑنے کا مجرم ہوا ہے
ٹونی بلیئر نے اس وقت بھی چلکوٹ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آج دنیا کی حالت بہت ”خراب“ ہوتی۔ ٹونی بلیئر نے اپنے اس ’’جنگی جرم‘‘ کے بہت سے جواز پیش کیے تھے۔ وہ اس بات پر ڈٹے رہے کہ ہم نے جو فیصلہ کیا وہ بالکل صحیح تھا
جبکہ سابق نائب برطانوی وزیراعظم جان پریسکوٹ نے چلکوٹ رپورٹ کی تائید کرتے ہوئے غلطی کا اعتراف کیا تھا اور ٹونی بلیئر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا
جان پریسکوٹ کا کہنا تھا کہ بلیئر اراکین ِ کابینہ کو جنگِ عراق کے قانونی یا غیرقانونی ہونے پر بحث سے منع کرتے تھے. اب ہمیں زندگی بھر اس غلط فیصلے کے تحت وقت گزارنا ہوگا
برطانیہ کے سابق نائب وزیر اعظم جان پریسکوٹ کا کہنا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کی اس بات سے متفق ہیں کہ جنگ غیرقانونی تھی۔ ٹونی بلیئرکا جارج بش کو یہ پیغام کہ ’’چاہے کچھ بھی ہوجائے ہم آپ کے ساتھ ہیں‘‘، انتہائی تباہ کن تھا، جس نے پوری دنیا پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے۔ جنگ کے جائز ہونے کے حوالے سے میرے خیالات بدل گئے ہیں، مجھے اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے کہ ہم نے جو کچھ کیا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا
انہوں نے کہا تھا کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو اب بھی اس جنگ پر کوئی پشیمانی نہیں۔ وہ اب بھی اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ میں نے جو کیا ٹھیک کیا۔ درجنوں برطانوی فوجی اس جنگ میں مارے گئے، معیشت کو شدید دھچکا لگا ، سیکڑوں فوجی زخمی بھی ہوئے، اس کے باوجود ایک سربراہ مملکت کا حقیقت سے انکار، حقیقتوں سے چشم پوشی اور اپنے غلط فیصلوں کو صحیح گرداننے کی روش برطانوی نظام حکومت پر سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے
پریسکوٹ کے مطابق برطانوی عوام کی اکثریت چاہتی ہے کہ ٹونی بلیئر عراق کی جنگ میں مرنے والے ڈیڑھ سو سے زاید برطانوی فوجیوں اور ڈیڑھ لاکھ سے زاید عراقی شہریوں کی ہلاکت کے خلاف فوج داری مقدمے کا سامنا کریں، کیونکہ یہ جو نقصان ہوا، وہ ٹونی بلیئر کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہی ہوا.