نئی دہلی – بھارت میں اپنے ساتھی فوجیوں کو قتل کرنے کا تازہ واقعہ اتوار کے روز امرتسر میں بارڈر سکیورٹی فورسزکے ہیڈکوارٹر میں پیش آیا، جہاں ایک بھارتی فوجی نے اپنے چار ساتھیوں کو گولی مار کر ہلاک اور کئی دیگر کو زخمی کرنے کے بعد خود کشی کر لی
بھارتی نیم فوجی دستے بارڈر سکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) کی طرف سے جاری ایک بیان میں اس حوالے سے بتایا گیا کہ اتوار کے روز اٹاری واہگہ بارڈر سے تقریباً بیس کلومیٹر کے فاصلے پر امرتسر کے خاصا علاقے میں واقع بی ایس ایف کے ہیڈکوارٹر میں ایک کانسٹیبل نے اچانک اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس میں نو فوجی زخمی ہوگئے۔ چھ بری طرح زخمیوں میں سے دو کی موقع پر ہی موت ہو گئی جب کہ دو ہسپتال لے جاتے ہوئے چل بسے۔ حملہ آور نے بھی خود کو گولی مار کر ہلاک کر لیا
بی ایس ایف نے بیان میں مزید کہا کہ واقعے کی تفتیش کے لیے ‘کورٹ آف انکوائری’ تشکیل دے دی گئی ہے
بی ایس ایف کے ذرائع کے مطابق ملزم سے مقررہ وقت سے زیادہ ڈیوٹی کرائی جا رہی تھی، جس کی وجہ سے وہ ناراض اور ذہنی طور پر دباؤ کا شکار بھی تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک روز قبل ہی ایک اعلیٰ افسر سے اس کی بحث بھی ہوگئی تھی
اپنے ہی ساتھیوں کو ہلاک کر دینے کے واقعات بی ایس ایف کے جوانوں میں عام ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ برس ستمبر میں تریپورا میں بی ایس ایف کی ایک چوکی پر ایک جوان نے گولی مار کر اپنے دو ساتھیوں کو ہلاک اور ایک سینیئر افسر کو زخمی کر دیا تھا۔ بی ایس ایف نے بعد میں ایک بیان میں کہا تھا کہ معمولی بحث کے بعد فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا اور چوکی پر تعینات ایک جوان نے ملزم کو بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا
اس سے قبل چھتیس گڑھ میں بائیں بازو کے نکسل باغیوں کے مقابلے کے لیے تعینات سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے چار جوانوں کو ان کے ہی ایک ساتھی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا
مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے ساتھی فوجیوں اور سینیئر افسران کو گولی مار کر ہلاک کردینے کے واقعات بھی اکثر سامنے آتے رہے ہیں
وزارت دفاع کی طرف سے بھارتی پارلیمان میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سن 2000 سے 2012 کے درمیان بارہ برس میں بھارتی فوجیوں کے ذریعہ اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے کے کم از کم 83 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ جبکہ بھارتی فوج میں پچھلے چھ برسوں کے دوران خودکشی کے تقریباً آٹھ سو واقعات پیش آچکے ہیں
سابق فوجی افسران اور ماہرین نفسیات کے مطابق اس کی متعدد وجوہات ہیں، جن میں ہر وقت زندگی کو لاحق خطرات، طویل وقت تک ڈیوٹی، مہینوں اپنے خاندان سے دوری، سینیئر افسران کا رویہ اور ہتھیاروں کی آسانی سے دستیابی وغیرہ شامل ہیں
بعض سابق سینیئر افسران کا کہنا ہے کہ فوجی بیرکوں کی سخت اور انتہائی تناؤ بھری زندگی بھی بعض جوانوں اور افسران کو انتہائی قدم اٹھانے کے لیے مجبور کردیتی ہے
ان افسران کا کہنا ہے کہ بہت سے جوانوں کو چھٹیاں نہیں ملتیں اور وہ مسلسل مہینوں تک ڈیوٹی کرتے رہتے ہیں۔ وقت پر ترقی نہ ملنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ ایسے میں جب وہ اپنے مسائل سینیئر افسران کے سامنے بیان کرتے ہیں اور ان پر توجہ نہیں دی جاتی تو ان میں غصہ اور ناراضی بڑھ جاتی ہے
اس حوالے سے ریٹائرڈ میجرجنرل افسر کریم کہتے ہیں ”ڈیوٹی کے مسائل تو اپنی جگہ رہتے ہی ہیں لیکن گھریلو مسائل ان کی شدت میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ جب تناؤ بڑھ جاتا ہے تو جوان اپنے ساتھیوں سے لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں، وہ اپنے اوپر سے کنٹرول کھو دیتے ہیں اور ان کے پاس جو ہتھیار ہوتے ہیں ان کا استعمال بھی کرسکتے ہیں“
سابق ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف لفٹننٹ جنرل راج قادیان کے مطابق گزشتہ چند برسوں کے دوران مسلح افواج کے جوانوں میں تناؤ کی ایک اور وجہ ایک ہی جگہ پر کافی طویل عرصے تک تعیناتی ہے۔ جہاں انہیں اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف کارروائی کرنی پڑتی ہے اور ان کارروائیوں کے بعد انہیں اکثر نکتہ چینی کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے
کارگل جنگ میں ایک بٹالین کی کمان سنبھالنے والے ریٹائرڈ میجر جنرل جی ڈی بخشی کہتے ہیں ”میرے وقت میں مہینوں بعد گھر والوں کا خط ملتا تھا اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ گھر پر کیا ہو رہا ہے۔ لیکن آج کل انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی وجہ سے فوجی جوان ہر وقت اپنے گھر والوں کے رابطے میں رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر خاندان کسی مصیبت کا شکار ہوتا ہے تو جوان بھی فوراً ذہنی تناؤ میں آجاتا ہے“
تاہم بھارت کے سابق فوجی افسران بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اپنے ساتھیوں کو ہلاک کرنے اور خود کشی کے واقعات میں اضافے کے باوجود کہتے ہیں ”یہ ابھی تشویش ناک حد تک نہیں پہنچے ہیں“
ان کا مزید کہنا ہے کہ کسی فوجی جوان کی ذہنی پریشانی پر نگاہ رکھنے کا کوئی مستقل نظام موجود نہیں ہے۔ گوکہ بھارتی فوج میں پیشہ ور کاؤنسلر یا ماہرین نفسیات نہیں ہیں، لیکن تمام یونٹوں میں بہرحال مذہبی ٹیچر ہوتے ہیں، جو لوگوں کی بنیادی کاؤنسلنگ کرنے میں تربیت یافتہ ہوتے ہیں.