اسلام آباد – اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائے جانے کے بعد اس کے قانونی پہلوؤں کے حوالے سے بحث و مباحثے جاری ہیں اور تجزیہ کار تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اور منحرف اراکین قومی اسمبلی كے خلاف كارروائی كو دو الگ الگ عوامل قرار دے رہے ہیں
پاكستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولیمپنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) كے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’پاكستان تحریک انصاف كے اراكین قومی اسمبلی وزیراعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كے حق میں ووٹ دینے كی وجہ سے نا اہلی كا سامنا كرسكتے ہیں، تاہم اس سے تحریک عدم اعتماد كی كارروائی قانونی طور پر متاثر نہیں ہو سكتی۔‘
بلال محبوب نے مزید کہا ”اگرچہ منحرف اراكین كے خلاف نااہلی كی كارروائی اپنے وزیراعظم كے خلاف رائے استعمال كرنے كی وجہ سے ہی ہوگی، لیكن یہ سب كچھ تحریک عدم اعتماد كی كامیابی یا ناكامی كے بعد ہی ہوسكے گا“
واضح رہے كہ حزب اختلاف كی جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كا نوٹس قومی اسمبلی سیكریٹریٹ میں جمع كروانے كے علاوہ ایوان كا اجلاس بھی ‘طلب’ كرلیا ہے
تجزیہ کاروں کے مطابق حزب اختلاف كی جماعتیں وزیراعظم كے خلاف تحریک عدم اعتماد كو كامیاب بنانے كے لیے پی ٹی آئی كے اراكین قومی اسمبلی پر ہی انحصار كر رہی ہیں، لیکن اگر پی ٹی آئی ممبران وزیراعظم کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو انہیں نا اہلی كا سامنا كرنا پڑ سكتا ہے
واضح رہے کہ آئین پاكستان كے آرٹیكل 63 كے تحت كسی ركن قومی اسمبلی كے خلاف اپنی جماعت كی پارلیمانی پارٹی كا فیصلہ نہ ماننے كی صورت میں نا اہلی كی كارروائی شروع كی جا سكتی ہے
حزب اختلاف كی جماعتیں وزیراعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كی كامیابی كے حق میں تحریک انصاف كے بیس سے زیادہ اراكین قومی اسمبلی كی حمایت كا دعویٰ كر رہی ہیں
اسی حوالے سے آج وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم میں تمام جماعتوں نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسپیکر کو اختیار دیا تھا کہ ’فلور کراسنگ‘ کرنے والے کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے اور اسپیکر کے اختیارات کو کوئی چیلنچ نہیں کرسکتا، تحریک عدم اعتماد کے لیے انہیں 172 ووٹ لازمی لانے پڑیں گے، اور پی ٹی آئی کے لوگ بِکنے اور بَکنے کے عمل میں شامل افراد کا سیاسی گھیراؤ کریں گے
اہم سوال یہ بھی ہے كہ پی ٹی آئی وزیراعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كو كس طرح غیر موثر بنا سكتی ہے؟
ماہرین اور تجزیہ كار اس سلسلے میں اراكین قومی اسمبلی كے خلاف فلور كراسنگ كی صورت میں نا اہلی كی كارروائی اور قومی اسمبلی كے اجلاس كے بلائے جانے كی ’ٹائمنگ‘ كو اہم قرار دیتے ہیں
صحافی اور تجزیہ كار نجم سیٹھی كے خیال میں تحریک انصاف اپنے ایم این ایز كو تحریک عدم اعتماد كے حق میں ووٹ ڈالنے سے روكنے كی ہر ممكن كوشش كرے گی
انہوں نے کہا: ’اس مقصد كے لیے سب سے كارگر نسخہ نا اہلی كی كارروائی كا ہی ہے، جو ہو سكتا ہے اسپیكر قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی شروع كر دیں۔‘
اپنی بات كی وضاحت كرتے ہوئے انہوں نے كہا كہ تحریک انصاف كی پارلیمانی پارٹی فیصلہ كر سكتی ہے كہ ان كا كوئی ایم این اے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ والے دن ایوان میں حاضر نہیں ہوگا، جس كا نقصان اپوزیشن كو پہنچے گا۔
’اور اگر تحریک انصاف كے ایم این ایز اس فیصلے كے باوجود ایوان میں آتے ہیں تو اسپیكر انہیں ووٹ ڈالنے سے روک سكتے ہیں یا ان كا ووٹ كینسل كر سكتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید كہا كہ ایسی صورت میں منحرف اراكین یا اپوزیشن عدالت كا دروازہ كھٹكھٹائیں گے، جس سے معاملات طوالت كا شكار ہوں گے اور بحران جیسی صورت حال بھی جنم لے سكتی ہے
تاہم سپریم كورٹ كے وكیل عمران شفیق كا كہنا تھا كہ سسپیكر قومی اسمبلی كے پاس تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل كسی كے خلاف نا اہلی كی كارروائی شروع كرنے كا اختیار موجود نہیں ہے
انہوں نے كہا: ’آئین كے آرٹیكل 63 (اے) میں واضح ہے كہ كسی ایم این اے كے خلاف نا اہلی كی كارروائی ان كے منحرف ہونے كے بعد ہی ہو سكتی ہے‘
انہوں نے وضاحت كرتے ہوئے كہا كہ آئین میں منحرف ركن یا اراكین كے ووٹوں كے ضائع ہونے كا كوئی ذكر نہیں ہے۔ ’اس لیے منحرف اراكین كے ووٹوں كی گنتی ہوگی، تاہم وہ ووٹ ڈالنے والے ایم این ایز كے خلاف نا اہلی كی كارروائی شروع كی جا سكتی ہے۔‘
پلڈاٹ كے احمد بلال محموب نے اس نقطے كی مزید وضاحت كرتے ہوئے كہا كہ اسپیكر كو منحرف اراكین كے خلاف اختیار دینے كی صورت میں آئین میں نا اہلی كی كارروائی كو اتنی تفصیل سے بیان كرنے كی ضرورت نہیں رہ جاتی
انہوں نے مزید كہا كہ ایم این ایز كے انحراف كی صورت حال كا سامنا اپوزیشن بھی كر سكتی ہے اور ان اراكین كے خلاف بھی اسی طرح تحریک عدم اعتماد كے كامیاب یا ناكام ہونے كے بعد ہی كارروائی شروع كی جا سكے گی
تاہم احمد بلال محبوب كے خیال میں حكومت یا اسپیكر قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد كو نام بنانے كے لیے كوئی انتہائی قدم اٹھا كر غلطی بھی كر سكتے ہیں
تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ كب ہوگی؟
اپوزیشن كی ریكوزیشن كے نتیجے میں اسپیكر قومی اسمبلی چودہ روز میں ایوان زیریں كا اجلاس بلانے كے پابند ہیں اور اسی دوران تحریک عدم اعتماد پیش كی جانی چاہیے
احمد بلال محبوب كا كہنا تھا كہ اسپیكر قومی اسمبلی 22 مارچ تک قومی اسمبلی كا اجلاس بلا سكتے ہیں، جبكہ اسی روز اسلام آباد میں اسلامی ممالک كی تنظیم (او آئی سی) كے وزرا خارجہ كا اجلاس ہونا ہے، جو قومی اسمبلی كی عمارت میں ہی ہونا ہے
’اور 23 مارچ كو چھٹی ہوگی اور یوں قومی اسمبلی كا اجلاس 24 مارچ كو ہی ہو سكے گا‘
احمد بلال محبوب نے مزید كہا كہ تحریک عدم اعتماد كو ایجنڈے پر لانے كے لیے دو دن لگیں گے اور ایوان سے قرارداد پیش كرنے كی اجازت ملنے كی صورت میں اسپیكر قومی اسمبلی قرارداد پر ووٹنگ كے لیے دن مقرر كریں گے
’ایوان میں پیش ہونے كے بعد تحریک عدم اعتماد پر بحث اور ووٹنگ تین دن سے پہلے نہیں ہو سكتی، البتہ اسے سات سے زیادہ دن تک موخر نہیں كیا جا سكتا‘
احمد بلال محبوب كے خیال میں تحریک عدم اعتماد كے نوٹس اور ریكوزیشن جمع كروانے اور تحریک پر ووٹنگ كے درمیان زیادہ سے زیادہ چوبیس دن كا وقفہ ہو سكتا ہے
انہوں نے مزید کہا: ’اس حساب سے مجھے وزیر اعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ یكم یا دو اپریل كو ہونے كا امكان نظر آ رہا ہے‘
جبکہ آج اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 23 اور 24 مارچ کو او آئی سی کے اجلاس کے سبب اسمبلی کا اجلاس منعقد نہیں کیا جاسکتا ہے، انشاءاللہ یکم اپریل کو انہیں اپریل فول بنایا جائے گا.