زندگی جہاں بھی ہو، ایک تال کے ساتھ پنپتی اور چلتی ہے۔ یہ تال ہی ہے جو زندگی کو ایک رمز کے ساتھ چلاتی ہے۔ جب تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے زندگی اپنی ڈگر پر بڑے مزے سے چلتی رہتی ہے۔ یہ ایک سرسبز کھیت کی طرح خوبصورت بھی رہتی ہے اور حیات کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے حصے کی دین اس میں شامل کرتی رہتی ہے۔
مگر پھر جب کچھ اسباب کی وجہ سے اس تال میں رخنہ پڑنے لگے اور سُر اوپر نیچے ہونے لگیں تو یہ سلسلہ قائم نہیں رہتا۔ جب تک طاقتور حیات اس ٹوٹے ہوئے تال کو بحال نہ کردے تب تک ’بگڑنے‘ اور ’بحالی‘ کے بیچ والے عرصے میں حالت کوئی اچھی نہیں رہتی۔ آج کل انڈس ڈیلٹا کی زمینوں کی کیفیت بھی کچھ اس ٹوٹے ہوئے تال کی سی ہے۔
’۔۔۔دریائے سندھ کے مرکزی بہاؤ اور اس کی دوسری ندیوں میں کشتی پر سفر کرتے ہوئے آپ کو پرندوں کی میٹھی آوازیں سننے کو ملیں گی، کناروں پر دھان کی فصل ملے گی جہاں دھان پانی کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ کسی کسی علاقے میں تو یہ چار فٹ تک بڑی ہوجاتی ہے۔ یہاں ٹھنڈے دنوں میں پرندوں کی اتنی بہتات ہوتی ہے کہ آپ ان کی تعداد کے لیے اندازہ بڑی مشکل سے کرسکتے ہیں، مچھلی کے شکار کی تو کیا بات ہے ایسا لگتا ہے کہ مچھلی پیدا ہی یہاں ہوتی ہے۔ یہاں کیکر اور لئی (Tamarisk) کے بڑے بڑے درختوں کے جنگل ہیں جو یقیناً ایک ڈیلٹا کی خوبصورتی کے زیور ہیں‘
کچھ لمحوں کے لیے سوچیں کہ یہ انہونی ہوجائے اور 1827ء میں انڈس ڈیلٹا سے گزر کر حیدرآباد جانے والے جیمس برنس، جس نے ڈیلٹا کے خوبصورت مناظر کو اپنی تحریر میں بُنا ہے وہ ان راستوں سے گزرے جہاں سے وہ اندازاً دو صدیاں پہلے گزرا تھا تو موجودہ زمینی حالت دیکھ کر یا تو اسے دل کا دورہ پڑے گا یا غش کھا کر گر پڑے گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ساری حقیقتیں جن کی وجہ سے اس نے ڈیلٹا کو خوبصورت قرار دیا تھا ان میں سے اب وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ 16 ہزار مربع میل یعنی 41 ہزار 440 مربع کلومیٹر کے رقبے میں پھیلی ہوئی اس ڈیلٹائی پٹی کے منظرنامے سے یہ ساری خوبصورتیاں ایک ایک کرکے وقت کے بے قدر ہاتھوں نے نوچ لی ہیں۔
اس بربادی کو دیکھ کر، ایلس البینی نے اپنی مشہور کتاب ’ایمپائرز آف انڈس‘ میں ڈیلٹا کے اس درد کی بڑی حقیقت پسند عکاسی کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’1958ء میں کوٹری بیراج مکمل ہونے کے بعد کئی سو کلومیٹر پر پھیلا ہوا انڈس کا یہ زرخیز ڈیلٹائی بیلٹ 250 مربع کلومیٹر تک سکڑ گیا، میٹھے پانی کی کمی کی وجہ سے تمر کے جنگل اجڑ گئے، چاول دینے والی زمینیں سفید نمک میں بدل گئیں اور کاشت کاروں کے پاس مچھلی کے شکار کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچا۔ یہ سب سمندر میں میٹھے پانی کے نہ جانے سے ہوا‘
بربادی کی اس کہانی کی ابتدا 1830ء سے ہوئی۔ جب برطانوی سرمایہ داروں کی بنائی ہوئی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں اپنے قدم جما چکی تھی اور مقامی طاقتیں، چاہے وہ بادشاہ ہوں یا زمیندار خس و خاشاک کی طرح روند دیے گئے تھے۔ کمپنی نے آب پاشی کا نظام بنایا کہ، زمین زیادہ آباد ہو اور اس زمین میں اگنے والے خام مال سے وہ زیادہ سے زیادہ نفع کما سکیں۔ ہوسکتا ہے ان دنوں میں یہ ایک بہتر خیال ہو اور اس قدم کو قدر کی نگاہ سے بھی دیکھنا چاہیے، کیونکہ ایک نظام کے سوا کوئی بھی عمل زیادہ پائیداری کے ساتھ نہیں چل سکتا۔
پھر 1932ء میں، انگریز سرکار نے ’سکھر بیراج‘ کی تعمیر کی، یہ سمجھیں کہ، دریائے سندھ کی خوبصورت دیوانگی کو روکنے کی یہ پہلی کوشش تھی، پھر 1955ء میں ’کوٹری بیراج‘ بنا، 1967ء میں ’منگلا‘ اور پھر 1976ء میں ’تربیلا ڈیم‘ بنا، ان سارے منصوبوں کا اثر انڈس ڈیلٹا پر پڑنا تھا۔ یہ اثر ایسا پڑا کہ، وہ ساری خوبصورتیاں اور شاندار منظرنامے اس ساحلی پٹی سے دھیرے دھیرے معدوم ہوگئے۔
ان ڈیموں کے بننے کی وجہ سے کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی کا اخراج کم سے کم ہوتا گیا، اگر اس حوالے سے ہم ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو، ان ڈیموں اور بیراجوں سے پہلے 170 ایم اے ایف (ملین ایکٹر فٹ) تک پانی ڈاؤن اسٹریم میں 17 کھاڑیوں (Creeks) کے ذریعے سمندر میں جاتا تھا، چونکہ اس پانی کے ساتھ زرخیز ریت بھی شامل ہوتی تھی تو یہ پانی کا بہاؤ ایک ایکٹو ڈیلٹا کو جنم دیتا تھا اور ہر برس سمندر کو آگے دھکیل کر نئی زمین بناتا تھا۔
زمین بنانے کے اس عمل کو سمجھنے کے لیے میں تھوڑا تفصیل میں جانا چاہوں گا تاکہ آپ اس بات کو سمجھ سکیں کہ دریا کا پانی سمندر میں جانا کیوں ضروری ہے۔ دریا کا بہاؤ اپنے ساتھ سب سے زیادہ زرخیز ریت اور مٹی لاتا ہے۔ جب اس زرخیز مٹی اور ریت کے ساتھ دریا کا پانی سمندر کی ابتدائی لہروں تک پہنچتا ہے تو چھوٹے پنکھے (بادکش) کی شکل کی طرح میلوں میں اپنے ساتھ لائی ہوئی ریت پھیلاتا جاتا ہے جو دھیرے دھیرے سے زمین بنتی جاتی ہے اور جیسے جیسے زمین بَنتی جاتی ہے سمندر پیچھے کی طرف ہٹتا جاتا ہے مگر اس کی سطح وہی رہتی ہے۔
جب تیز ہواؤں کے دنوں میں سمندر کی مدافعت بڑھتی ہے تو دریا شاخوں میں بٹ جاتا ہے لیکن اپنے ساتھ لائی ہوئی ریت سمندر کے اندر پھینکتا رہتا ہے۔ اسی طرح سمندر کے اندر ریت کے ٹیلے بنتے جاتے ہیں اور زمین بنتی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، جب دریائے سندھ میں طغیانی آتی تھی تو اس طغیانی کے 100 دنوں میں یہ ریت کے 11 کروڑ نوے لاکھ مکعب گز سمندر کی طرف لے چلتا ہے۔
کتاب ’انڈس ڈیلٹا کنٹری‘ کے مصنف جنرل ہیگ، اس عمل سے بنی ہوئی نئی زمین کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ ’برٹش راج کے بعد سمندر کی طرف زمین کے بڑھ جانے کے متعلق جاننے کے لیے ہماری بڑی دلچسپی رہی۔ ہم نے اس پر بڑے سروے بھی کیے اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دریائے سندھ جن مختلف ندیوں کی صورت میں سمندر کی طرف سفر کرتا اور سمندر سے جا ملتا ہے، وہاں نئی زمین بڑی تیزی سے بن رہی ہوتی ہے اور سمندر کو مسلسل پیچھے دھکیل رہی ہوتی ہے۔ ہم نے پہلے 1877ء میں اس پر کام کیا تھا جس سے ہمیں پتا لگا کہ گزشتہ 10 برسوں میں ان نہروں کے سمندر میں پانی ڈالنے سے ساڑھے 3 مربع میل نئی زمین بنی ہے اور زمین بڑھنے کی رفتار ہر بہاؤ میں ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کہیں زمین زیادہ بنتی ہے اور کہیں کم’۔
دریا کے اس پانی سے فقط سمندر پیچھے نہیں جاتا یا نئی زمین نہیں بنتی بلکہ اس پانی کی آمد کی وجہ سے ہی ڈیلٹا اپنی قدرتی رنگارنگی کو بحال رکھ سکتا ہے۔ ساتھ میں اس پانی کے حوالے سے ماحولیات اور وہاں کی زراعت، مقامی لوگوں اور ملک کے لیے بہت سارے فوائد ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ مہنگی خوراک سی فوڈ ہے، ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس سمندر ہے، مگر ہم نے اس کو برباد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
سمندری مچھلی کے لیے ایک مناسب ماحول کا ہونا ضروری ہے۔ ماحولیات کے ماہرین کے مطابق ’دریا کا میٹھا پانی سمندر کو پیچھے دھکیلتا ہے اور تمر کے جنگلات کو اگاتا ہے جو ایک دیوار کی طرح ساحل کے میدانی علاقوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ہم Sub Tropical ملک میں رہتے ہیں اور سب ٹراپیکل ممالک کا درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے۔ اب ہمارے ملک کے درجہ حرارت کو برقرار فقط دریائے سندھ کا تازہ پانی ہی رکھ سکتا ہے۔
جب تازہ پانی ڈیلٹا میں داخل ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ریت بھی آتی ہے اور اس ریت میں پودوں کے لیے غذائیت بھی ہوتی ہے۔ یہ غذائیت ایک تو مچھلی کو پروٹین اور خوراک مہیا کرتی ہے اور دوسرا یہ فطری طریقے سے ایک بریڈنگ شیٹ مہیا کرتی ہے۔ یوں سندھ کے سمندر کی مچھلیاں اس پر زندہ رہتی ہیں۔ اگر دریائے سندھ کا پانی وہاں نہیں جائے گا تو وہاں کا درجہ حرارت بڑھ جائے گا اور مچھلیاں زندہ نہیں رہ پائیں گی، وہ یا تو مرجائیں گی یا وہاں سے دوسری جگہ چلی جائیں گی۔
اس لیے میٹھا تازہ پانی آپ کے سمندری درجہ حرارت کو قابو میں رکھتا ہے اور ساتھ میں ایک ’کانٹینینٹل شیلف‘ بھی بناتا ہے۔ سندھ کے ساحل کا ’کانٹینینٹل شیلف‘ 110 کلومیٹر کا ہے، یہ کانٹینینٹل شیلف دریائے سندھ بناتا ہے۔ آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ بلوچستان کا ساحل، سندھ کے ساحل سے تو بڑی اراضی میں پھیلا ہوا ہے، مگر مچھلی سندھ کے ساحل سے کم کیوں ہے؟ وہ اس لیے کہ وہاں کا کانٹینینٹل شیلف فقط 30 سے 35 کلومیٹر تک ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جتنا یہ شیلف وسیع ہوگا اتنی زیادہ مچھلیاں وہاں ہوں گی اور ساتھ میں اس سلٹ کی وجہ سے تمر کے جنگلوں کی خوب افزائش ہوتی ہے۔
مگر اب یہاں ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ دریائے سندھ کے diversion کی وجہ سے سمندر میں پانی نہ چھوڑنے کے سبب، اس وقت فقط 70 ہزار ہیکٹر پر تمر کے جنگلات بچے ہیں جو ایک زمانے میں لاکھوں ہیکٹرز پر پھیلے ہوئے تھے۔ یہی تمر کے جنگلات مچھلی اور جھینگوں کی کئی اقسام کی نرسریاں ہوتی ہیں۔ اگر ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہیں چھوڑا جائے گا تو مچھلی کی صنعت برباد ہوجائے گی۔
انڈس ڈیلٹا فقط سمندر کا نام نہیں ہے، بلکہ اس میں آب گاہیں، قدرتی جنگل اور زراعت بھی شامل ہے۔ 1980ء تک ریوینیو ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 12 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندر کے نذر ہوگئی تھی اور اب 2020ء تک ڈیلٹا کی 41 لاکھ ایکڑ زرعی زمین یا تو سمندر نگل گیا ہے یا سمندر کے شوریدہ پانی کی وجہ سے زمینوں نے اپنی زرخیزی گنوادی ہے۔ یہاں تک کہ گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اگتا۔ ساتھ میں لاکھوں لوگوں کو انتہائی مجبوری کی حالت میں نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔ جھیلوں کا کلچر برباد ہوا ہے اور جنگلی حیات کی سیکڑوں نسلیں ناپید ہوگئی ہیں۔ یہ ایک سانحے سے کم نہیں ہے۔
میں کیٹی بندر کی قدیم بندرگاہ پر بنے ہوئے ایک ایمرجنسی سینٹر کی چھت پر کھڑا ہوں، کیٹی بندر کے متعلق ‘مسٹر ہڈسن’ (جس نے کمشنر آف سندھ کو اس علاقے کی ‘ریسیٹلمنٹ سروے رپورٹ 1905ء میں پیش کی تھی) نے تحریر کیا ہے کہ ’1848ء سے یہ شہر درآمد و برآمد کا مرکز رہا ہے، یہ اناج کی مشہور منڈی ہے۔ یہاں سے کراچی، کَچھ، کاٹھیاواڑ اور گجرات تک اناج جاتا ہے۔ کیٹی بندر کا ‘زنجبار’ سے براہِ راست رابطہ ہے۔ مارچ 1902ء میں یہاں سے 92 ہزار 705 من اناج، 2 ہزار 203 من لکڑی اور دوسرا سامان باہر بھیجا گیا‘۔
تاریخ کے ریکارڈ سے ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ستمبر 1908ء میں بندر پر 382 جہاز 8 ہزار 20 ٹن سامان لے کر داخل ہوئے جبکہ 260 جہاز 7 ہزار 482 ٹن سامان لے کر دوسرے ملکوں کو روانہ ہوئے۔ 1923ء میں یہاں سے 4 لاکھ 23 ہزار 432 روپے کا مال درآمد جبکہ 2 لاکھ 31 ہزار 313 روپے کا مال برآمد کیا گیا۔ اس کے برعکس 1946ء میں فقط 13 ہزار 514 روپے کا مال منگوایا گیا۔
اب یہاں بیوپار کا کوئی جہاز نہیں آتا، بس مچھلیوں کے پکڑنے کی کشتیاں ہیں جن پر بادبانوں کی جگہ رنگین جھنڈے لہراتے ہیں اور شور کرتے انجن ہیں جو دریا کے پانی پر چنگھاڑتے پھرتے ہیں۔ اگر آپ ان میں کبھی بیٹھے ہیں تو آپ کو ضرور اندازہ ہوگا کہ آپ وہاں آپس میں بات نہیں کرسکتے۔ البتہ چیخ و پکار کے بعد بھی جو بات کریں گے وہ آدھی ادھوری ہی سمجھ میں آئے گی۔
ایمرجنسی سینٹر کی چھت پر میرے ساتھ اس علاقے ’جھالُو‘ کے مشہور زمیندار محترم عثمان شاہ صاحب بھی کھڑے ہیں۔ 65 سال کی حیات میں انہوں نے ڈیلٹا کے اس مشہور مرکزی علاقے کے بہت سارے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ انہیں ابھی تک کیکر کے گھنے جنگل یاد ہیں۔ ان کیکر کے درختوں پر سردی کے دنوں میں پیلے پھول لگتے اور ہلکے پیلے سونے کے رنگ جیسا ان کیکروں میں سے گوند نکلتا جس کو طاقت کے لیے مختلف طریقوں سے پکا کر کھایا جاتا۔ ان درختوں پر لگی پھلیاں دودھ دینے والے جانوروں کے لیے ایک طاقتور خوراک ہوتی تھی۔ ان جنگلوں میں دن کو تیتر بولتے اور صبح کو سورج اگنے کے ساتھ فاختائیں بیٹھ کر اپنی مخصوص آواز میں بولتیں اور جب تیز ہواؤں کے دن آتے تو درختوں سے گزرتی ہوئی ہوا سیٹیاں بجانے لگتی۔
’کیکر کا وہ گھنا جنگل وہاں تھا، میلوں میں پھیلا ہوا‘، عثمان شاہ نے شمال مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ ’اس چھت سے وہ فاصلہ کوئی 2 میل سے زیادہ نہیں تھا۔ اس جنگل کے قریب سے کبھی ’اوچتو دریا‘ بہہ کر کیٹی بندر کے قریب سمندر کی کھاڑی میں گرتا تھا مگر اب وہاں کچھ تمر کی جھاڑیوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور زمین کی سطح پر نمک کی سفید تہہ جمتی ہے۔
’ایک زمانے میں یہ کیٹی بندر تو دھان کی وجہ سے مشہور تھا مگر ہمارا گاؤں جھالو جو کیٹی بندر سے مشرق میں 15 کلومیٹر پر ہے، وہاں آج سے 15 برس پہلے کیلے، خربوزے اور کھیرے کی اتنی شاندار فصل ہوتی تھی کہ، ہماری زمین سے ان اشیا سے لدے 11 ٹرک روز نکلتے تھے۔ کراچی، ملتان، فیصل آباد، لاہور اور پشاور تک ہماری فصلوں کی مارکیٹ ہوتی تھی، بلکہ یہاں تک کہ بیوپاری جھالو کے کھیرے اور خربوزے کے آنے کا انتظار کرتے تھے۔
’ان دنوں ہماری 200 ایکڑ زمین آباد ہوتی تھی مگر اب نہروں میں میٹھے پانی کی بہت کمی ہے، اوپر سے زمین کے اندر سمندری پانی کی سطح بڑھ گئی ہے اور 4، 5 فٹ کی کھدائی پر کڑوا پانی نکل آتا ہے، جس کی وجہ سے سیم و تھور کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہوگیا ہے۔ جہاں پہلے 200 ایکڑ پر فصلیں ہوتی تھیں اب 20 ایکڑ بھی مشکل سے کر پاتے ہیں۔ اب یہاں نہ کیلا ہوتا ہے، نہ خربوزے اور نہ کھیرے۔ بس دھان ہوتی ہے جس کے لیے بھی کھاد اور اسپرے پر اتنی رقم لگ جاتے ہے کہ نام کا ہی منافع کما پاتے ہیں۔ پھر جس زمین میں 2 برس دھان لگاتے ہیں تو ان 2 برسوں میں میٹھا پانی سمندری پانی کو نیچے دھکیل دیتا ہے یوں تیسرے برس پھر کپاس یا سورج مکھی لگاتے ہیں تو دو پیسے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔‘
عثمان شاہ کی باتوں اور اس کے چہرے پر تبدیل ہوتی ہوئی کیفیت بتا رہی تھی کہ وہ بہت پریشان ہیں۔ اس ڈیلٹائی بیلٹ کا ہر کاشتکار اور عام آدمی اجڑتی زمینوں کے ساتھ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے سخت پریشان ہے۔ ہر گزرنے والا سال اس منظرنامے سے کچھ نہ کچھ چھین کر لے جاتا ہے اور سمندر ہے کہ لہکتا چہکتا زرخیز زمینوں کو اپنے چونے اور نمکیاتی وجود میں جذب کر رہا ہے۔
ایسی مایوسی والی کیفیت میں، میں نے عثمان شاہ صاحب سے اس کا حل پوچھا تو شاہ صاحب نے کچھ لمحوں کے لیے مجھے دیکھا اور ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ’حل ہے۔ فقط میٹھا پانی۔ اگر آب پاشی کا پانی ہمیں اتنا ملے جتنی ہماری زمینیں ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور جو زمینیں ہیں ہم ان کو بچا لیں گے۔ کیونکہ میٹھے پانی کی نہروں میں پانی کی موجودگی اور فصلوں کے لیے پھرپور پانی ہونا اس حقیقت کو یقینی بناتا ہے کہ سمندر کا پانی میٹھے پانی کی وجہ سے اوپر نہیں آئے۔
’دوسرا یہ کہ دریا میں جو پانی ہر برس چھوڑنے کو کہا گیا ہے وہ آنا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا رہے تو مجھے نہیں لگتا کہ سمندر کی بربادی اتنی تیزی سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ مگر آب پاشی نظام میں رشوت خوری اپنے عروج پر ہے جس کی وجہ سے کاشت کے لیے پانی نہ وقت پر ملتا ہے اور نہ ہماری ضروریات کے مطابق ملتا ہے۔ یہاں سب برباد کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔‘
میں یہاں کیٹی بندر کی طرف گزشتہ اٹھارہ برسوں سے مسلسل آرہا ہوں، میں نے کیٹی بندر کے اطراف میں سمندر کا آگے بڑھنا دیکھا ہے۔ میں نے کئی قبرستان اور زرخیز زمینیں اپنے سامنے سمندر کے پانی کے نیچے آتی دیکھی ہیں۔ یہاں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں سے بھی میں ملا ہوں، یہاں کیلے اور کھیروں کی شاندار فصلوں کو بھی میں نے دیکھا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پندرہ یا اٹھارہ برس اتنے زیادہ نہیں ہوتے۔ مگر ان برسوں میں، مَیں نے جو سمندر کی بربادی دیکھی ہے، وہ ان لوگوں نے بھی ضرور دیکھی ہوگی، جو مسلسل یہاں آتے رہے ہیں۔ میٹھے پانی کے لیے اتنی چیخ و پکار کے بعد بھی یہاں کچھ بہتری نہیں آئی۔
مجھے یا شاید ہم بہت ساروں کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر ہم ترقی کہاں کر رہے ہیں؟ کیا ہم فقط بربادی کر رہے ہیں؟ ہم قدرت کے بنے بنائے زرعی بیلٹ کو اپنے ہاتھوں سے برباد کر رہے ہیں۔ ہم سمندر کے کناروں کو میونسپل اور انڈسٹری ویسٹیج کی وجہ سے برباد کرچکے ہیں۔ کیا آنے والے دنوں میں ہمارا یہ ارادہ ہے کہ چاول، مچھلی اور دیگر اجناس بھی دوسرے ملکوں سے درآمد کریں گے؟ کیا ہم گاؤں اور زرعی زمینیں برباد کرکے شہر بسا سکتے ہیں؟ اگر جواب ’نہیں‘ میں ہے تو ان حوالوں سے ہمیں کچھ سنجیدگی سے سوچنے کی شدید ضرورت ہے۔
بشکریہ : ڈان نیوز و مصنف