کراچی – اس وقت پاکستان کے سیاسی، صحافتی اور قانونی منظرنامے میں ’تحریک عدم اعتماد‘ کے الفاظ کی گونج سے لگتا ہے کہ ملک کا کاروبار زندگی اسی پارلیمانی اصطلاح کے گرد گھوم رہا ہے
وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی حالیہ تحریک کا نتیجہ کیا نکلے گا، اس کا فیصلہ تو آنے والے چند روز میں ہو جائے گا، لیکن پاکستان کے سیاسی، صحافتی اور عوامی رائے عامہ کے حلقوں میں ماضی میں وزرائےاعظم کے خلاف پیش ہونے والی ایسی ہی تحریکوں کے تذکرے، موازنے اور حوالے بھی دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں
اکتوبر 1989ع میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے علاوہ اگست 2006ع میں شوکت عزیز کے خلاف اسی طرح کی ناکام تحریک کو حوالے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے
یاد رہے کہ اکتوبر 1989ع میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز نے ایوان میں عدم اعتماد کی قرارداد جمع کروائی تھی
پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے صرف گیارہ ماہ بعد اس کے سیاسی مخالفین نے اسے ایوان اقتدار سے رخصت کرنے کی ناکام کوشش کی
موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے قومی اسمبلی میں جمع ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی، ذاتی اور قانونی جنگ زوروں پر ہے
آج سے تینتیس سال پہلے کے اخبارات کے جائزے اور موجودہ سیاسی کشمکش سے اس کے موازنے کے بعد اس مفروضے کی تصدیق کا کچھ سامان ہو جاتا ہے کہ ملک میں 1990ع کی دہائی کی سیاست کا دور لوٹ آیا ہے
بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک کے دوران اتحادیوں کی حکومت سے علیحدگی کے اعلان نے سیاسی گرما گرمی پیدا کر دی تھی۔ آج بھی عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کو حکومت کے اتحادیوں کی مخالفت یا حمایت سے مشروط کیا جا رہا ہے
یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کی 237 کے ایوان میں 111 نشستیں تھیں. اس کے اتحادیوں میں ایم کیو ایم کی 14، اے این پی کی دو اور آزاد امیدواروں کی حمایت شامل تھی۔ 23 اکتوبر کو تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں جمع ہونے سے ایک دن قبل ایم کیو ایم نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی
یہی نہیں بلکہ اس نے اپوزیشن اسلامی جمہوری اتحاد سے معاہدے کا اعلان بھی کر دیا۔ دونوں کے درمیان ستمبر میں وفاق اور صوبے میں شرکت اقتدار کا خفیہ معاہدہ ہو چکا تھا، جسے اب منظر عام پر لایا گیا
اس دور میں صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف اور ایم کیو ایم کے عظیم احمد طارق نے معاہدے پر دستخط کیے۔ متحدہ نے پیپلز پارٹی پر اقتدار میں شرکت سے محروم رکھنے کا الزام عائد کیا
حکومت کی دوسری اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے بھی حزب اختلاف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا
لیکن دوسری طرف اسی روز پیپلز پارٹی دور میں پنجاب کے گورنر رہنے والے غلام مصطفیٰ کھر ایک دفعہ پھر پیپلزپارٹی میں لوٹ آئے۔ انہوں نے اپنی جماعت نیشنل پیپلز پارٹی حکومتی جماعت میں ضم کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کے خلاف میدان میں آنے کا اعلان کر دیا
حکومتی صفوں میں پہلی بغاوت وزیر مملکت طارق مگسی نے کی۔ بلوچستان سے آزاد منتخب ہونے والے ممبر اسمبلی نے عدم اعتماد کی تحریک کے اسمبلی میں جمع ہونے سے ایک دن پہلے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں اپوزیشن کی حمایت اور وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کیا جبکہ سرکاری بیان میں پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پر ان کی برطرفی کا حکم نامہ جاری کیا گیا
جہانیاں سے پیپلزپارٹی کے ممبر اسمبلی افضل داد واہلہ اور اقلیتی رکن رانا چندر سنگھ نے پارٹی پالیسی سے بغاوت کرتے ہوئے تحریک کی حمایت میں ووٹ دیا۔ بعد میں پیپلز پارٹی نے ان کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان بھی کیا
28 اکتوبر کو پنجاب کے وزیراعلیٰ نواز شریف نے الزام لگایا کہ حکومت نے سات اراکین اسمبلی کو اغوا کر لیا ہے۔ ان میں پیپلزپارٹی کے دو ممبران اسمبلی قربان علی شاہ اور کرشن چندر کا نام بھی لیا گیا۔ یہ دونوں ارکان شروع میں اپوزیشن کا ساتھ دینا چاہتے تھے لیکن بعد میں پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی میں واپس آگئے
اپوزیشن نے اپنے پانچ اراکین کے مبینہ اغوا کا الزام بھی لگایا، جن میں سے ایک شاہد سعید 30 اکتوبر کو ڈرامائی طور پر سوات سے فرار ہوکر لاہور پہنچ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں چودھری شجاعت کی رہاش گاہ سے ملاقات کے بہانے بلا کر اغوا کر لیا گیا تھا
اسی طرح اسلامی جمہوری اتحاد کے ایک اور رکن اسمبلی ایوب کا معاملہ بھی اس وقت دلچسپ صورتحال اختیار کر گیا، جب وہ اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ اپوزیشن کے مطابق انہیں زبردستی پشاور کے ایک ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ انہوں نے بیماری کے باعث رائے شماری میں بھی حصہ نہیں لیا
سیالکوٹ سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے خورشید عالم چیمہ کے بدلتے سیاسی موقف اور وفاداری نے بھی مضحکہ خیز صورتحال اختیار کر لی تھی۔
رشتے میں وہ چوہدری پرویز الٰہی کے خالو تھے۔ ان کے قریبی دوستوں نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی کہ انہیں پرویز الٰہی کی رہائش گاہ پر زبردستی روکے رکھا گیا ہے۔ عدالت نے ان کی بازیابی کے لیے بیلف مقرر کیا
تحریک پر ووٹنگ والے دن وہ پہلے تو اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھے رہے۔ حکومتی اراکین کی اسمبلی میں آمد پر وہ یہ کہتے ہوئے ان سے جا ملے کہ ”میں اپنے دوستوں کے پاس جا رہا ہوں“
پیپلز پارٹی نے اپنے حامی اراکین کو دو خصوصی پروازوں کے ذریعے پشاور اور وہاں سے سوات منتقل کر دیا تھا۔ اسی طرح اسلامی جمہوری اتحاد کے ارکان اسمبلی مری میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ دونوں اطراف سے یہ احتیاطی تدابیر اراکین کی وفاداریاں بدلنے کے خدشات اور اغوا کے امکانات کو سامنے رکھ کر کی گئی
پاکستان پیپلزپارٹی نے دعویٰ کیا کہ سوات میں اس کے حامی اراکین کی تعداد 126 ہے۔ البتہ انہیں میڈیا کے سامنے پیش کرنے سے گریز کیا۔ کچھ مقامی صحافیوں کے مطابق ان کی تعداد 119 تھی
حزب اختلاف کے رہنماؤں نواز شریف اور غلام مصطفی جتوئی نے تحریک پر رائے شماری سے ایک روز قبل مری میں پریس کانفرنس میں حکومت پر سرکاری وسائل کے ذریعے اراکین کی وفاداریاں تبدیل کروانے کا الزام لگایا
اپوزیشن جماعتوں کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار مصطفیٰ جتوئی نے صدر غلام اسحاق خان کے نام خط میں حکومتی اراکین کی منتقلی کے لیے ایئرفورس اور پی آئی اے کے استعمال کی شکایت کی
انہوں نے حکومتی اراکین کو زبردستی ایف سی کے زیرنگرانی سوات میں رکھے جانے کا تذکرہ بھی کیا۔ غلام مصطفیٰ جتوئی نے کراچی میں ان کے گھر پر حملے کے علاوہ حکومت کی جانب سے ممبران کی وفاداریاں خریدنے کے لیے پیسوں کے استعمال کا الزام بھی لگایا
بالآخر یکم نومبر 1989ع کو اپوزیشن پارٹیز کی تحریک پر رائے شماری ہوئی۔ متحدہ اپوزیشن مطلوبہ 119 اراکین کی حمایت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ اس کے ممبران کی تعداد 107 سے نہ بڑھ سکی جبکہ حکومت نے 124 ممبران کی حمایت حاصل کر لی۔
فاٹا کے چار اراکین نے اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر عبدالولی خان لندن میں ہونے کی وجہ سے اسمبلی سے غیر حاضر تھے۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے وزیر ملک مختار اعوان قتل کے مقدمے میں نامزد ملزم ہونے کی وجہ سے اسمبلی نہ آ سکے۔
صوبہ سرحد کے سابق گورنر اور اپوزیشن کے ممبر اسمبلی فضل حق ان دنوں قتل کے الزام میں جیل کاٹ رہے تھے۔ تحریک پر ووٹنگ سے صرف ایک روز قبل سپریم کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کر لی اور انہیں رہائی مل گئی۔ بیگم عابدہ حسین سمیت تین آزاد اراکین اسمبلی نے اپوزیشن کا ساتھ دیا
پنجاب سے تعلق رکھنے والے اسلامی جمہوری اتحاد کے تین اراکین اسمبلی نے کھلم کھلا حکومت کا ساتھ دیا۔ جس پر پنجاب کی صوبائی حکومت غصے میں آ گئی اور اگلے روز ان میں سے دو کی زمینوں پر مالیہ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پولیس کا چھاپا پڑا
پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے پنجاب کے وزیر اعلٰی نوازشریف پر ان ارکان کو ہراساں کرنے اور سیاسی بنیادوں پر انتقام کا نشانہ بنانے کے الزامات عائد کیے
اپوزیشن کی صفوں سے ٹوٹنے والے ان ممبران اسمبلی میں رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے ریس شبیر احمد اور مخدوم احمد عالم انور کے علاوہ اوکاڑہ سے غلام محمد مانیکا بھی شامل تھے
بے نظیر بھٹو کے خلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک ناکام تو ہوگئی، لیکن اس سے حکومت کی کمزوریاں بے نقاب ہو گئیں ۔ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر سیاسی دنگل سے پیپلز پارٹی کی حکومت کی اقتدار پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ محض نو ماہ بعد صدارتی اختیار نے اسے گھر بھیج دیا
بہت سارے صحافتی ادارے اور سیاسی تجزیہ نگار سابق وزیراعظم اسماعیل ابراہیم چندریگر کو پاکستانی تاریخ کا واحد وزیراعظم قرار دے رہے ہیں، جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی
یہ تاریخی حقیقت ہے یا محض مفروضہ؟ اور کیا چندریگر کی رخصتی کی وجہ تحریک عدم اعتماد تھی؟ ان سوالات کے جواب کے لیے ہمیں 65 برس پیچھے جانا ہوگا
11 دسمبر 1957 کو مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے قائد اور وزیراعظم پاکستان آئی آئی چندریگر نے وزارت عظمی سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے محض 54 دن قبل یہ منصب سنبھالا تھا۔ اس تبدیلی کی وجہ جداگانہ انتخاب کے لیے قانون سازی کے معاملے پر اتحادی جماعتوں کے ساتھ اختلافات تھے
چندریگر کی حکومت میں باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی سربراہی میں بننے والی ریپبلکن پارٹی سب سے بڑی اتحادی جماعت تھی۔ مسلم لیگ ملک میں جداگانہ انتخاب کی حامی تھی
اس وقت کی قومی اسمبلی 78 ممبران پر مشتمل تھی جن میں ری پبلکن پارٹی، نیپ، عوامی لیگ، کرشک سرامک پارٹی، پاکستان نیشنل کانگریس اور شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن مخلوط انتخابی نظام کی حامی تھی
مسلم لیگ 15 ممبران اسمبلی کے ساتھ دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی تھی
مسلم لیگ اور رپبلکن پارٹی میں معاہدہ ہوا، جس کے رو سے دونوں پارٹیوں نے جداگانہ انتخاب کے لیے قانون سازی کرنی تھی۔ مگر مسلم لیگ کی حکومت کو اس قانون سازی پر اتحادی جماعتوں کی حمایت نہیں مل سکی۔ اس ناکامی کے ردعمل میں چندریگر نے وزارت عظمی سے اپنا استعفی صدر سکندر مرزا کو بھجوا دیا
وزیر اعظم اسماعیل ابراہیم چندریگر نے جب استعفی دے دیا تھا تو قومی اسمبلی میں ان پر عدم اعتماد کی بات آج حقیقت سے زیادہ ایک مفروضہ ہونا چاہیے
اس مفروضے کے بننے کے چند وجوہات اور اسباب بھی ہیں۔
ان میں سے ایک ہے مسلم لیگ کا ’ہارس ٹریڈنگ‘ مشن.. اصل میں چند ریگر کے خلاف نہ تو قومی اسمبلی میں کوئی قرارداد پیش ہوئی تھی اور نہ ہی کسی رائے شماری میں ان پر عدم اعتماد ہوا
درحقیقت صدر سکندر مرزا نے مستعفی ہونے والے وزیراعظم کو دوبارہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے لیے اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کی دعوت دی۔ یہیں سے ایک سیاسی کشمکش اور وفاداریاں بدلنے کی ترغیب کا آغاز ہوا۔
مسلم لیگ کو ایوان میں اس کے اتحادیوں سمیت 28 ارکان کی حمایت حاصل تھی
چندریگر کو دوبارہ وزارت بنانے کے لیے 39 ممبران کی حمایت درکار تھی۔ بقیہ ممبران پورے کرنے کے لیے مسلم لیگ ریپبلکن پارٹی کے بارہ ممبران توڑنے میں مصروف تھی۔ بلکہ اس کی طرف سے یہ دعوی کیا گیا کہ عنقریب ریپبلکن پارٹی میں ایک آزاد گروپ بن جائے گا اور وہ مسلم لیگ سے آن ملے گا
اس دور کے اخبارات میں چھپنے والی خبروں اور تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ اپنے مخالف ممبران کو ساتھ ملانے پر اس قدر پر امید تھی کہ اس نے ممکنہ طور پر ساتھ دینے والے کچھ ممبران کے نام تک عام کر دیے۔ ان میں دیگر کے علاوہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے والے علمدار حسین گیلانی کا نام بھی شامل تھا
دوسری جانب 18 پارلیمانی مبمران رکھنے والی ریپبلکن پارٹی کے حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ کے بارہ ارکان سمیت دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل تھی
ریپبلکن پارٹی نے 42 ممبران اسمبلی کے دستخطوں سے صدر کو حکومت بنانے کی عرضداشت ارسال کی
15 دسمبر 1957 کو صدر سکندر مرزا نے ریپبلکن پارٹی کے پارلیمانی لیڈر فیروز خان نون کو ایک خط کے ذریعے حکومت سازی کی دعوت دی۔ اس خط میں کہا گیا تھا کہ آئی آئی چندریگر اس ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ شاید اسی بنیاد پر یہ مغالطہ راہ پا گیا کہ چندریگر کے خلاف اسمبلی میں عدم اعتماد ہو گیا تھا
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کے ذریعے کامیابی کی ایک بڑی مثال 26 مئی 1986 کو اسپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کا اپنے عہدے سے ہٹنا تھا
مارچ 1985 میں وہ ضیاءالحق کی مرضی کے برخلاف اسپیکر منتخب ہوئے تھے
وزیراعظم محمد خان جونیجو کے مسلم لیگ میں شمولیت پر ڈاکٹر شیر افگن نیازی نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے توسط سے الیکشن کمیشن کو ایک ریفرنس بھیجا جس میں وزیراعظم سمیت 37 ارکان اسمبلی کی نااہلی کی درخواست کی گئی تھی۔ فخر امام کا ریفرنس الیکشن کمیشن بھیجنا ان ہی مہنگا پڑ گیا۔ صدر ضیاء الحق نے ایک آرڈینینس کے ذریعے ریفرنس کو غیر مؤثر کر دیا
جواب میں فخر امام کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش کی گئی، جس کے حق میں 152 اور مخالفت میں بہتر ووٹ آئے۔ یوں حامد ناصر چٹھہ قومی اسمبلی کے نئے سپیکر بن گئے
1986 میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر حسین ہارون کی رخصتی بھی عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کے نتیجے میں ہوئی۔ مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کرنے پر حزب اختلاف نے ان کے خلاف 31 مارچ 1986 کو عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی
اس تحریک کے حق میں 88 اور مخالفت میں صرف دو ووٹ پڑے۔ حسین ہارون کی فراغت کے بعد مظفر حسین شاہ بلامقابلہ سندھ اسمبلی کے سپیکر بن گئے تھے
سندھ کے وزیراعلیٰ سید غوث علی شاہ کے خلاف 4 اپریل 1988 کو اعتماد کی تحریک پیش کی گئی مگر انہوں نے تحریک کا سامنا کرنے سے پہلے ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ یوں اختر علی قاضی نے ان کی جگہ وزارت عظمی کا منصب سنبھالا.