فریڈرِش نطشےنے ہماری سوچ کیا نیا رنگ دیا؟

مبارک علی

ہر انسان اپنے ماحول اور اردگرد کے حالات کو دیکھ کر ان پر غور و فکر کرتا ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہر انسان مفکر ہوتا ہے۔ لیکن وہ فلسفی جو اپنے خیالات و افکار کو کسی ضابطے کے تحت بیان کرتے ہیں تو ان میں ایک ربط اور تسلسل ہوتا ہے۔ فلسفے کی بنیاد سوال کرتے حالات کو چیلنج کرنے اور ان کا جواب دینے میں ہوتی ہے۔ جو فلسفی انسانی فطرت اور شعور کی گہرائیوں میں جاکر حقیقت کو تلاش کرتے ہیں وہ زندگی کو نیا علم اور روشنی دیتے ہیں۔ فلسفہ کبھی امید کا پیغام دیتا ہے اور کبھی یہ مایوسی سے انکار کرتا ہے۔ گہرے فلسفے کی بنیاد یونان سے چلی اور ان کے فلسفے نے دنیا بھر کے فلسفیوں کو متاثر کیا۔ یہ فلسفی انسانی فطرت سوسائٹی اور ریاست کی تشکیل اور اس کے کردار پر بحث کرتے رہے۔ اخلاقیات میں انصاف نیکی اور شرف کے موضوعات ان کی فکر کا محور رہے۔ یہ سوالات بھی اُٹھائے گئے کہ کائنات کیا ہے اور انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے۔

فریڈرِش نطشے(d.1900) ان فلسفیوں میں سے ہیں جنہوں نے حقیقت کی تلاش میں فلسفے کو ایک نئے زاویے سے دیکھا۔ نطشے کا عہد تبدیلی کا مظہر تھا۔ سیاسی اور سماجی روایات بدل رہی تھیں۔ متوسط طبقہ تعلیم یافتہ ہو رہا تھا۔ نئی ٹیکنالوجی نے تاجر طبقے کو تجارت میں منافع دے کر اسے سرمایہ دار بنا دیا تھا۔ جب بھی تاریخ میں ایسا مرحلہ آتا ہے کہ پرانا نظام ٹوٹتا ہے اور ان کی جگہ لینے کے لیے نئے ادارے ارتقاء پذیر ہوتے ہیں تو اس صورت میں معاشرہ مایوسی اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب یورپ کے دانشور اور فلسفی مغربی تہذیب کو زوال پذیر ہوتا دیکھ رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ مغربی تہذیب کی توانائی اور طاقت ختم ہو چکی ہے اور وہ اس قابل نہیں رہی کہ نئے چیلنجز کا مقابلہ کر سکے، لیکن جہاں قدیم اور جدید کے ہاں تصادم ہوتا ہے تو قدامت پرست اپنی روایات کا دفاع کرتے ہیں جبکہ جدیدیت کے ماننے والے اپنے افکار اور نظریات کی مدد سے نئی دنیا کی تعمیر کرتے ہیں۔

نطشے کلاسیکل یونان سے بہت زیادہ متاثر تھا، اگرچہ اس کی ڈگری (لسانیات) Philology میں تھی لیکن وہ یونان کے ڈرامہ نگاروں جیسے Sophocles (d.406 BCE), Aeschylus (d.456BCE)۔ Euripides (d.406BC) کے ڈراموں میں جس انداز سے انسان کی فطرت کو بیان کیا گیا ہے، وہ سوچ اور فکر کے دریچے کھول دیتا ہے۔ یونان میں اپالو کے مندر کے دروازے پر لکھا تھا کہ (Know thyself) یعنی اپنے آپ کو پہچانو۔ اس جملے میں انسانی کردار اور عمل کو سمجھنے کے لیے بہت مواد ہے۔

یونانی Greek فلسفے کا ایک اور اہم نقطہ یہ تھا کہ (Man is measure of all things) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان کی اصل حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو زندگی کی تہوں میں دبے ہوئے نظریات اُبھر کر سامنے آجائیں گے۔ اس وجہ سے فلسفے میں انسانی فطرت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی نظریے کے تحت انسانی فطرت کو کنٹرول کر کے اسے نظریے کے مفادات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جیسا کہ فاشسٹ ملکوں میں ریاست نے اپنے نظریے کے تحت لوگوں کی فطرت کو بدل کر انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔

نطشے چوبیس سال کی عمر میں پی ایچ ڈی کر کے سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹی Basal میں پروفیسر مقرر ہو گئے۔ یہاں ان کی ملاقات تاریخ کے پروفیسر Jacob Burckar dt (d.1897) سے ہوئی۔ وہ ان سے بے انتہا متاثر ہوئے اور ان کی کلاسوں میں بیٹھ کر تاریخ پر لیکچر سنے، لیکن یونیورسٹی میں وہ زیادہ عرصے نہ رہ سکے اور طبیعت کی خرابی کی وجہ سے یونیورسٹی سے استعفیٰ دے دیا اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہو گئے۔ اسی زمانے میں Richard Wagner (d.1883) سے ان کی دوستی ہوئی جو موسیقی میں اپنا ایک نام پیدا کر چکے تھے۔ وہ واگنر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تھے۔ بعد میں نطشے کی یہ دوستی دوری میں بدل گئی، لیکن وہ اس کی موسیقی کا ہمیشہ قائل رہا۔ اس کے نظریات کی تبدیلی میں شوپن ہائر Schopenlauer (d.1860) کے فلسفے کا اثر بھی ہے۔ ایک دن کتابوں کی دوکان پر شوپن ہائر کے فلسفے پر لکھی ایک کتاب ملی جسے پڑھ کر وہ بے انتہا متاثر ہوا جب اس نے کتابیں لکھنا شروع کیں تو ان میں سے اکثر کتابیں اس نے اپنے خرچے پر چھپوائیں اور مارکیٹ میں ان کی زیادہ مانگ بھی نہیں ہوئی۔ ایک مرتبہ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ آج میری کتابیں پڑھنے والے بہت گم ہیں، لیکن اگلی صدی میں ہر تعلیمی ادارے میں میرے فلسفے کو پڑھایا جائے گا۔ اس کی یہ پشین گوئی درست ثابت ہوئی زِگمونڈ فروئڈ نے جب نطشے کو پڑھنا شروع کیا تو پھر اس خیال سے اسے نہیں پڑھا کہ کہیں اس کے خیالات اس پر غالب نہ آجائیں۔ فرینکفرٹ اسکول کا ڈائریکٹر Max Horkheimer (d.1973) نطشے کو مارکس سے زیادہ فلسفی سمجھتا تھا۔ نطشے کی چند اہم مشہور کتابیں جس سے ان کے فلسفیانہ خیالات کا اظہار ہوتا ہے وہ یہ ہیں۔

-1 المیے کی پیدائش (Birth of Tragedy)

-2 زرتشت نے کہا (Thus Spoke Zarathustra)

-3 تاریخ کے درست اور نادرست استعمال (Use & misuse of history)

-4 نیکی اور بدی سے پرے (Beyend good & Evil)

نطشے کے فلسفے کے اہم نکات یہ ہیں کہ سپرمین، جس کے وہ متلاشی ہیں، ذہنی طور پر اعلیٰ مقاصد کا حامل ہو گا اور جو اس دنیا کی مصائب تکالیف اور خوشی برداشت کرنے کا عادی ہو گا، جو اپنے احساسات اور جذبات میں منفرد ہو گا۔ نطشے عیسائیت اور یہودیت کو انسانوں کی غلامی کے لیے زنجیریں سمجھتے ہیں کیونکہ یہ مذاہب انسان کی آزادی فکر اور اس کی اندرونی طاقت کو ختم کر کے اسے اس قدر کمزور کر دیتے ہیں کہ اس کی شخصیت ختم ہو جاتی ہے، کیونکہ عیسائیت میں Original Sin یعنی بنیادی گناہ کا تصور ہے اس لیے وہ خود کو قصوروار سمجھتا ہے۔ اخلاقیات کے بارے میں نطشے کا کہنا ہے کہ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک کو وہ مالک کی ا خلاقیات اور دوسری ملازم کی اخلاقیات قرار دیتے ہیں۔ ان دونوں اخلاقیات میں فرق ہوتا ہے۔ مالک فیاض، رحم دل اور سخی ہوتا ہے جبکہ ملازم وفادار، نیک اور انصاف کا طلب گار ہوتا ہے۔

اپنی زندگی کے آخری سالوں میں انہوں نے تیزی سے کتابیں لکھیں شاید ان کو احساس تھا کہ ان کے پاس وقت کی کمی ہے۔ اپنے آخری سالوں میں وہ اٹلی کے گیسٹ ہائوسس میں تنہا رہتے رہے جہاں وہ Wagnar کی موسیقی پیانو پربجا کر وقت گزارتے تھے۔ ایک دن جب وہ باہر نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک کوچوان اپنے گھوڑے کو چابک سے مار رہا ہے۔ وہ دوڑ کر گئے اور گھوڑے سے لپٹ گئے پھر بیہوش ہو کر گر گئے۔ ابتداء میں انہیں مینٹل ہسپتال میں داخل کرایا گیا، لیکن پھر ان کی ماں انہیں گھر لے گئیں جہاں ان کی بہن نے ان کی وفات تک ان کی دیکھ بھال کی اور یوں 56 سال کی عمر میں نطشے فوت ہو گئے اور ان کی یہ پشین گوئی صحیح ثابت ہوئی کہ آج دنیا بھر میں ان کے فلسفے کو پڑھا جارہا ہے۔

بشکریہ : ڈی ڈبلیو اُردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close