کرائسٹ چرچ – نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر حملے میں پچاس نمازیوں کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر نو گولیاں کھا کر معجزانہ طور پر زندہ بچ جانے والے ترک شہری نے امن واک کی
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں 15 مارچ 2019ع کو نماز جمعہ کے دوران آسٹریلوی شہری نے اندر گھس کر آٹومیٹک اسلحے سے اندھا دھند فائرنگ کردی تھی
فائرنگ کے نتیجے میں اکیاون نمازی شہید اور چالیس زخمی ہوگئے تھے۔ زخمیوں میں ترک شہری بھی شامل تھے، جنہیں نو گولیاں لگی تھیں اور متعدد سرجریوں کے بعد وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے، تاہم ابھی ان کے مزید آپریشنز ہونا باقی ہیں
ترک شہری تمل اتاکوگو نے دہشت گردی کے واقعے کے تین سال مکمل ہونے پر اسی راستے پر امن واک کی، جس پر دہشت گرد آسٹریلوی شخص چلتے ہوئے مسجد پہنچا تھا
کورونا کی سخت پابندیوں کے باعث اس سال بھی برسی کو بڑے پیمانے پر نہیں منایا جا سکا، تاہم ترک شہری نے انفرادی طور پر امن واک کر کے اس المناک سانحے کی یاد تازہ کی اور منفرد انداز میں دنیا کو امن کا پیغام دیا
واضح رہے کہ نیم خودکار ہتھیاروں سے لیس آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرینٹ نے سب سے پہلے کرائسٹ چرچ کی النور مسجد میں جمعے کے نمازیوں پر حملہ کیا اور اس کے بعد وہ لِن ووڈ کی عبادت گاہ میں چلا گیا اور جاتے جاتے قتل عام کے مناظر کو لائیو اسٹریم کرتا رہا
بعد ازاں اکیاون نمازیوں کو شہید کرنے والے سفاک قاتل کو پیرول کے بغیر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی
برینٹن ٹیرینٹ نیوزیلینڈ میں ایسا پہلس شخص ہے، جسے بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا دی گئی ۔ نیوزی لینڈ میں موت کی سزا ختم کی جا چکی ہے اور ملکی قوانین کے مطابق یہ سخت ترین سزا ہے
ملک کی تاریخ میں پہلی بار اتنی سخت سزا سناتے وقت کرائسٹ چرچ ہائی کورٹ کے جج کیمرون مینڈر نے ٹیرینٹ سے کہا تھا کہ جرم اتنا سنگین ہے کہ اگر تمہیں تاحیات قید کی سزا دی جائے تو بھی وہ کافی نہیں ہے
جج نے کہا، ”تمہارے جرائم۔۔۔۔۔۔ اتنے سنگین ہیں کہ اگر تمہاری موت تک تمہیں حراست میں رکھا جائے تو بھی یہ سزا اور کفارے کے تقاضے کے لیے ناکافی ہوگی۔“
جج نے مزید کہا ”تمہاری کارروائی غیر انسانی تھی۔ تین برس کا ایک کمسن بچہ جو اپنے والد کے پیروں سے کھیل رہا تھا، تم نے اسے دانستہ طور پر قتل کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں، تم اپنے متاثرین کے لیے کسی بھی طرح کی ہمدردی سے یکسر خالی ہو“