کراچی – سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے لیاری، بلدیہ ٹاؤن اور ابراہیم حیدری جیسے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی ساٹھ خواتین نے چند ہی ماہ کی تربیت کے بعد عالمی معیار کی بارہ دستاویزی فلمیں بنا کر نمائش کے لیے پیش کی ہیں
لیاری میں واقع پروڈکشن ہاؤس مہردر کی جانب سے چھ ماہ قبل ’اسٹوریز بائے ویمن‘ کے نام سے ایک پروگرام کا آغاز ہوا، جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ساٹھ خواتین کو داخلہ دیا گیا اور انہیں دستاویزی فلمیں بنانے کا عمل سکھایا گیا
ان خواتین کا تعلق کراچی کے علاقے کورنگی، ماڑی پور، بلدیہ ٹاؤن ،لانڈھی، لیاری، سعیدآباد، ابراہیم حیدری اور چکرا گوٹھ سے ہے، جو شہر کے پسماندہ علاقوں میں شمار ہوتے ہیں
تمام خواتین کے بارہ گروپس تشکیل دیے گئے اور انتہائی قلیل عرصے میں انہوں نے اپنے اپنے علاقے میں موجود ہیروز کی زندگی پر مبنی بارہ دستاویزی فلمیں بنائیں
ان فلموں کی نمائش کراچی آرٹس کونسل میں گذشتہ ہفتے ہوئی، جہاں انہیں شائقین کی پذیرائی ملی
اس پروگرام کی شریک ٹرینر اقرا منظور کا کہنا ہے کہ اس تربیتی پروگرام میں طالبات اور اساتذہ سے لے لر گھروں سے کاروبار چلانے والی اور گھریلوں خواتین شامل تھیں اور بارہ دستاویزی فلموں کی ہدایت کار، پروڈیوسر، سکرپٹ رائٹر، فوٹوگرافر اور وڈیوگرافر تمام خواتین ہی تھیں
انہوں نے کہا کہ ان تمام خواتین میں سے کسی کا تعلق فلم میکنگ سے نہیں تھا، یہاں تک کہ وہ پروفیشنل کیمرا چلانا بھی نہیں جانتی تھیں۔ زیادہ تر خواتین کے لیے فلم سازی کی تربیت بالکل ہی نئی تھی
اقرا منظور نے بتایا ”چھ ماہ قبل ہم نے جب ان خواتین کو پہلی ٹریننگ دی تو ان میں سے کچھ خواتین تھوڑا گھبرائیں بھی مگر ٹریننگ جاری رکھی۔ وہ خواتین جو شروع میں کہتی تھیں کہ ہم سے نہیں ہوگا، انہوں نے آخر کر کے دکھا دیا۔ یہ خواتین کہتی ہیں کہ اب ہم قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی دستاویزی فلمیں بنائیں گے۔ مجھے یہ سن کر بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے“
مہر گھر نامی عمارت میں واقع مہردر آرٹس اینڈ پروڈکشن لیاری کے باصلاحیت افراد کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔ گنجان آباد محلے اور دھول مٹی اور ٹریفک کے شور شرابے سے نکل کر اس پروڈکشن ہاؤس میں قدم رکھا جائے تو آنے والے کے لیے دنیا بدل جاتی ہے۔ یہاں کی دیواروں پر حسین رنگ، خطاطی، مصوری اور بڑے ائیر کنڈیشن اسٹوڈیوز لیاری کے لوگوں کے لیے آگے بڑھنے کے موقعوں کی نوید سناتے ہیں
اسی پروڈکشن ہاؤس میں ان ساٹھ خواتین نے فلم سازی سیکھی اور بارہ معیاری ڈاکیومنٹریز بنائیں
مہردر کے بانی فہیم مہردر نے اس تربیتی پروگرام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لیاری، کورنگی، ابراہیم حیدری، چکرہ گوٹھ، ماڑی پور، سعید آباد اور بلدیہ ٹاؤن جیسے علاقوں میں سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل ایک جیسے ہوتے ہیں اور یہاں کے باصلاحیت لوگوں کے لیے مواقع کم ہوتے ہیں۔ ’اسی لیے ہم نے سوچا کہ ان علاقوں کی خواتین کے لیے ایک ایسا پروگرام شروع کیا جائے جس سے ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو اور اپنے ہی کام کے ذریعے اپنے محلے اور علاقے کے مسائل اجاگر کر سکیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہمیں بے حد خوشی ہے کہ چھ ماہ پہلے جن ساٹھ خواتین نے ہمارے ساتھ اپنا سفر شروع کیا آج وہ باصلاحت فلم ساز ہیں اور بڑے بڑے پلیٹ فارمز پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
ہم ذیل میں سنگت میگ کے قارئین کے لیے ان 12 دستاویزی فلموں کی مختصر تفصیلات دے رہے ہیں
1- خود مختار
’خود مختار‘ نامی فلم چاکی واڑہ کی رہائشی ماہ نور عرف ماہا آپا کی زندگی پر مبنی ہے، جو اپنے علاقے کی پہلی وین ڈرائیور ہیں۔ ان کا سفر اپنے گھر سے شروع ہوا، جب منشیات کے عادی ان کے شوہر نے انہیں نہ صرف اپنے گھر بلکہ برادری سے باہر نکال دیا۔ اس وقت ماہ نور نے اپنے بچوں کی مکمل ذمہ داری لی اور گھر کا خرچہ چلانے کے لیے انہوں نے وین میں پک اینڈ ڈراپ سروس شروع کی، جو کہ ان کے محلے میں اس وقت کافی معیوب سمجھی جاتی تھی۔ اس کے بعد وہ اپنے محلے کی خواتین کے لیے ماہ نور سے ماہا آپا بن گئیں اور انہیں با اختیار کرنے کے لیے وین، کار اور ٹیکسی چلانے کی ہدایت دیتی رہیں
2- تبدیلی کی محنت
نوآباد سے تعلق رکھنے والے برکت اپنی جوانی میں پیشہ ورانہ جمناسٹ ہوا کرتے تھے۔ کراچی میں 2012ع میں ہونے والی لیاری گینگ وارز کی وجہ سے وہ جمناسٹکس کے کھیل کو جاری نہیں رکھ سکے اور صوبائی قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں حصہ لینے سے محروم ہوگئے۔ لیکن 2013ع کے پولیس آپریشن کے بعد برکت نے لیاری کو جب بہتر ہوتے دیکھا تو انہوں نے اپنا ادھورا خواب مکمل کرنے کے لیے ایک جمناسٹکس کلب قائم کیا، جہاں لیاری کے بچے نہ صرف جمناسٹکس سیکھتے ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر مقابلوں میں ایک نئے اور پر امن لیاری، کراچی اور پاکستان کی نمائندگی بھی کرتے ہیں
3- سیما مہیشوری
چکرہ گوٹھ سے تعلق رکھنے والی سیما مہیشوری ہندو یوتھ کونسل کی سرگرم کارکن ہیں اور پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ سیما کے مطابق مہیشوری برادری سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کے ساتھ اکثر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ صرف اپنے محلے میں چھوٹی موٹی سماجی سرگرمیوں سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والی سیما آج بین الاقوامی انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ پاکستان میں ہندو برادری کے لیے ان کے کاموں کو دیگر ممالک میں بھی سراہا جاچکا ہے
4۔ مہروان آرٹ انسٹی ٹیوٹ
مہروان آرٹ انسٹیٹیوٹ کے بانی رحیم غلام کراچی کے جانے مانے اسکیچ آرٹسٹ اور پینٹر ہیں۔ وہ اپنے علاقے نوآباد کے بچوں کو انتہائی کم پیسوں میں مصوری اور اسکیچنگ سکھاتے ہیں۔ رحیم کے مطابق وہ اپنے انسٹیٹیوٹ میں رنگ، نسل، مذہب، عمر اور جنس کی بنیاد پر کبھی تفریق نہیں کرتے، جس کی وجہ سے اکثر انہیں اپنے ادارے کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کافی سر توڑ کوششیں کرنی پڑی ہیں۔ رحیم غلام کے طلبہ جب بھی کسی مشہور پاکستانی شخصیت کا خاکہ بناتے ہیں تو وہ اسے اس شخصیت تک پہچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور کئی بار کامیاب ہوئے ہیں
5۔ فشر ویمن
ابراہیم حیدری کا سب سے بڑا مسئلہ مینگرووز کی کٹائی ہے، جس کی وجہ سے سمندر میں مچھلیوں کی افزائش روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔ اس سے ماہی گیر برادری کی زندگیوں میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اس دستاویزی فلم میں ماہی گیر خواتین کی مشکلات بیان کی گئی ہیں۔ یہ 72 سالہ حکیمہ ماہی گیر کی کہانی ہے، جو آج سے پچپن سال پہلے ریڑھی گوٹھ کراچی آئی تھیں اور تب ہی سے ماہی گیری کر رہی ہیں
ایوب ملاح
ابراہیم حیدری سے تعلق رکھنے والے ایوب ملاح ایک مقامی دستاویزی فلم ساز ہیں، جو پچھلے پچیس سالوں سے کراچی میں فلم سازی کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے شروعات اپنے محلے کی شادیوں میں وڈیوز بنانے سے کی تھی۔ مگر فلمیں بنانے کا شوق انہیں دستاویزی فلموں کی جانب لے آیا۔ وہ ان کے ذریعے اپنے پسماندہ علاقے کے مسائل اجاگر کرتے ہیں، جہاں زیادہ مچھیرا کمیونٹی آباد ہے۔ ایوب اپنا سادہ سا شلوار قمیض زیب تن کیے کپڑے کا بیگ لٹکائے اکثر ابراہیم حیدری کی ایک جیٹی کمیونٹی سے دوسری کے مسائل عکس بند کرتے اور ان کا حل تلاش کرتے نظر آتے ہیں
7۔ صاحبہ مسافر
یہ ماڑی پور میں رہنے والی ایک ماہی گیر کی بیٹی صاحبہ ناز کی کہانی ہے، جسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے لیکن وہ اپنے مالی مسائل کے باعث اعلیٰ تعلیم سے محروم ہے۔ صاحبہ مقامی اداروں کی مدد سے اپنی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ وہ صبح خود پڑھتی ہیں اور شام میں اپنے محلے کے چھوٹے بچوں کو انتہائی کم معاوضے یا بالکل مفت میں پڑھاتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بچے اسکول نہیں جا پاتے اور اپنے والدین کے ساتھ محنت مزدوری پر لگ جاتے ہیں۔ صاحبہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے محلے کی خواتین کی بااختیار بننے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنے زیورات بیچ کر ایک لیپ ٹاپ خریدا اور محلے کی لڑکیوں کو متحرک کیا تاکہ وہ انہیں سماجی اور مالی طور پر بااختیار بنانے کے لیے مختلف تعلیمی اور ہنر پر مبنی پروگراموں میں درخواست دینے کی ترغیب دیں
8۔ لال خاتون
ماڑی پور میں آج بھی ستر سالہ لال خاتون کی محنت اور عظمت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ شوہر سے طلاق کے بعد اپنے چار بچوں کی واحد سرپرست اور روٹی کمانے والی بننے کے بعد لال خاتون تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باعث کافی پریشانیوں کا شکار رہیں۔ یہاں تک کہ ان کے گھر میں کئی کئی روز کھانے پینے کو کچھ نہیں ہوتا تھا۔ طلاق یافتہ ہونے کے باعث لال خاتون کو اپنے خاندان اور برادری سے کسی قسم کی مدد نہیں مل پاتی تھی۔ انہوں نے مجبوراً دو دو نوکریاں کرنا شروع کردیں لیکن اپنے گھر کا زیادہ تر خرچہ وہ پھلیاں بیچ کر نکالتی تھیں۔ لال خاتون ماڑی پور میں گلی گلی گھر گھر جا کر پھلیاں بیچتی تھیں۔ وہ اپنے محلے کی واحد خاتون ہیں، جنہوں نے کئی سالوں تک پھلیاں بیچنے کا کام کیا اور اپنے گھر کا خرچہ چلایا
9- روزی پینٹر
لیاری کے علاقے چاکی واڑہ میں بہادری کی مثال روزینہ ناز عرف روزی پینٹر خاتون قدرتی طور پر پینٹنگ میں مہارت رکھتی ہیں۔ روزینہ پاکستان کے مشہور ٹرک آرٹ پر مبنی فن پارے بناتی ہیں مگر وہ آج بھی کئی مواقع سے محروم ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ چاکی واڑہ کی رہائشی ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ شناختی کارڈ سے محروم ہیں۔ روزی اپنی صلاحتیوں کو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب معاشی مسائل کے باعث انہیں لوگوں نے بھیگ مانگنے پر مجبور کیا گیا مگر انہوں نے سڑکوں پر بھیگ مانگنے کی بجائے پینٹنگ کرنے کا انتخاب کیا
10۔ مائرا اسکل سینٹر
ساجدہ بلوچ ایک سماجی کارکن ہیں جو سعید آباد کی کچی آبادی کی رہائشی ہیں اور اپنے محلے میں مائرا اسکل سینٹر چلاتی ہیں۔ ساجدہ نے دیکھا کہ ان کی برادری کی نوجوان خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکا جاتا ہے اور انہیں کوئی نوکری کرنے نہیں دی جاتی۔ ساجدہ نے اپنی برادری کی نوجوان خواتین کو تربیت دینے کے لیے ایک اسکل سینٹر کی بنیاد رکھی، جہاں وہ خواتین کو خودمختار بننے کے لیے مختلف ہنر سکھاتی ہیں
11۔ یعقوب شیدی
سولہ سے اٹھارویں صدی کے درمیان ہجرت کر کے برصغیر آنے والے افریقی یا شیدی آج بڑی تعداد میں بھارت اور پاکستان میں موجود ہیں۔ کراچی اور جیکب آباد میں شیدی برادری کے سب سے زیادہ افراد مقیم ہیں۔ اس برادری کی ایک الگ ثقافت ہے اور وہ آج بھی اپنی پرانی روایتوں پر عمل کرتے ہیں۔ اس دستاویزی فلم کا مرکز شیدی برادری سے تعلق رکھنے والے سعیدآباد کے رہائشی ایک معروف مصنف اور سماجی کارکن یعقوب شیدی ہیں، جو نہ صرف ایک مصنف کے طور پر کام کر رہے ہیں بلکہ اپنی برادری میں ایک کارکن کے طور پر بھی سرگرم ہیں۔ وہ شیدی برادری کی جڑوں کا پتہ لگانے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں اور اس پر انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی
12۔ آواز
چکرا گوٹھ کے رہائشی مزمل فیروزی ایک صحافی ہیں، جو چکرا گوٹھ میں صحافت کا ایک اسکول چلاتے ہیں۔ اس اسکول میں وہ نوجوانوں کو ٹی وی، پرنٹ اور ڈجیٹل میڈیا میں کام آنے والی چیزیں سکھاتے ہیں۔ مزمل مردوں کے ساتھ ساتھ اپنی کمیونٹی کی خواتین کو بھی تربیت دیتے ہیں اور اپنے طلبہ کو مقامی مسائل پر صحافت کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ چکرا گوٹھ کراچی کا ایک پسماندہ علاقہ ہے، جہاں کے نوجوانوں کو نہ معیاری تعلیم حاصل کے اتنے مواقع ملتے ہیں اور نہ ہی بہتر نوکریاں کرنے کے۔ مزمل اپنے ادارے کے ذریعے چکرا گوٹھ کے نوجوانوں کو مین اسٹریم صحافت میں لانا چاہتے ہیں اور وہ آج بھی اس کے لیے محنت کر رہے ہیں.