کھرمنگ، بلتستان – تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں زبانوں کی کل تعداد 76 ہے، البتہ حال ہی میں ایک ایسی زبان دریافت کی گئی ہے، جو اس فہرست میں شامل نہیں ہے، جس کے بعد اب پاکستانی زبانوں کی کل تعداد 77 ہو گئی ہے
یہ زبان بروسکت کہلاتی ہے اور اس کے بولنے والے بلتستان کے ضلع کھرمنگ میں لائن آف کنٹرول کے قریب صرف ایک گاؤں میں آباد ہیں، جس کا نام گنوخ ہے. اس گاؤں کی آبادی چار سو کے قریب ہے۔ یہاں سے کارگل تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے
محمد قاسم، جو بروسکت زبان بولتے ہیں، کا دعویٰ ہے کہ وہ اس زبان کے پہلے شاعر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں یہ زبان صرف گنوخ گاؤں میں ہی بولی جاتی ہے
اس حوالے سے پاکستان کی نایاب زبانوں پر کام کرنے والے ادارے فورم فار لینگوئج انیشی ایٹیو کے سربراہ فخرالدین نے تصدیق کی کہ یہ زبان اب تک پاکستانی زبانوں کے ریکارڈ کا حصہ نہیں تھی اور کسی بھی فہرست میں اس کا نام شامل نہیں ہے
فخرالدین کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ (فورم فار لینگوئج انیشی ایٹیو) اس زبان پر کام کر کے اسے رکارڈ کا حصہ بنانے کی کوشش کرے گا اور اس کا رسم الخط وضع کرنے میں مقامی افراد کی مدد کرے گا
اسکردو میں مقیم سوشل ورکر اور ماہرِ لسانیات عاشق فراز بلتی کہتے ہیں ”میں خود شینا زبان بولتا ہوں اور میں بروسکت زبان کے کچھ الفاظ پہچان لیتا ہوں، جو شینا سے ملتے جلتے ہیں البتہ پورے فقرے کی سمجھ نہیں آتی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ الگ اور منفرد زبان ہے“
انہوں نے کہا ”اب تک اس زبان پر تحقیق نہیں ہوئی، البتہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ پہلے یہ زبان خاصے بڑے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی مگر بلتی زبان کے غلبے کی وجہ سے سمٹ کر سرحد کے قریب ایک دور دراز کے پہاڑی علاقے تک محدود ہو گئی“
یہاں اس بات کا ذکر بے مہل نہ ہوگا کہ زبانوں پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے ایتھنو لاگ کے مطابق بروکسکت نامی ایک زبان بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی بولی جاتی ہے، البتہ یہ زبان معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس ادارے نے بھی اس زبان کو پاکستانی زبانوں کے اندر شمار نہیں کیا
ایتھنولاگ کے مطابق ”بروکسکت زبان کا تعلق دردی زبانوں کی قدیم ترین شاخ سے ہے۔ دری زبانیں پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بولی جاتی ہیں اور ان میں شینا (جو چلاس اور گلگت میں بولی جاتی ہے)، کھوار (چترال)، کنڈل شاہی (وادیِ نیلم)، کشمیری (کشمیر)، کلاشا (کافرستان) وغیرہ شامل ہیں
محمد قاسم نے اپنی زبان کو فروغ دینے کے سلسلے میں خاصا کام کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں احساس ہوا کہ ان کی زبان صرف انہی کے گاؤں میں بولی جاتی ہے تو اور کہیں پر کیوں نہیں
وہ کہتے ہیں ”مجھے بچپن ہی سے تجسس تھا کہ یہ زبان کہیں اور ہے بھی یا نہیں۔ میں ریڈیو چینلوں یا ٹی وی اسٹیشنوں پر ڈھونڈتا تھا کہ شاید بھارت یا چین میں کہیں ہماری زبان بولی جاتی ہو۔ میں نے میٹرک پاس کیا اور اسکردو ڈگری کالج میں داخلہ لیا۔ وہاں لائبریری میں جا کر مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ مختلف زبانوں پر کام ہوا ہے“
محمد قاسم کی تلاش سوشل میڈیا کے چلن کے بعد نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں ”فیسبک کے ذریعے مجھے پتہ چلا کہ سرحد کے اس طرف ہماری زبان بولی جاتی ہے۔ تجسس بڑھتے بڑھتے میں نے الفاظ جمع کرنا شروع کیے۔ ڈکشنری پر کام شروع کیا۔ شعر و شاعری، قصیدے، نوحے وغیرہ۔ اب تک میں نے آٹھ ہزار الفاظ جمع کیے“
محمد قاسم نے واٹس ایپ پر اور فیسبک پر مختلف گروپ بنائے ہیں، جن میں بروسکت بولنے والے اپنی زبان میں بات کرتے ہیں
بروسکت زبان کے پہلے شاعر ہونے کا دعویٰ کرنے والے قاسم نے بتایا ”شروع میں لوگ ہماری زبان میں لوک گیت گاتے تھے۔ ان پر کام نہیں ہوا، اس لیے یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ اب کوئی گانے والا نہیں“
البتہ محمد قاسم نے خود اس زبان میں شاعری شروع کی ہے اور آئندہ کبھی جب اس زبان کی تاریخ لکھی جائے گی تو عین ممکن ہے قاسم کو بروسکت کے پہلے شاعر کی حیثیت سے یاد کیا جائے
وہ کہتے ہیں ”اس زبان میں شعر و شاعری پہلے موجود نہیں تھی۔ اب میں نے کام شروع کیا ہے۔ قصیدے، نوحے اور منقبت لکھنا شروع کیے ہیں۔ مجھ سے پہلے کسی نے شاعری نہیں کی تھی“
محمد قاسم اور ان کے خاندان کے دیگر افراد اسلام آباد کے قریب بری امام کے قریب مقیم ہیں۔ انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ گنوخ کے علاقے میں تعلیم اور روزگار کے مواقع میسر نہیں ہیں، اس لیے وہاں سے لوگ نقلِ مکانی کر کے ملک کے دوسرے حصوں میں آباد ہو رہے ہیں
چونکہ کسی بھی زبان کی بقا کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اس زبان بولنے والے افراد کے لیے علاقہ بھی ہو، اس لیے اگر بروسکت بولنے والے دوسری جگہوں پر آباد ہوتے گئے اور وہاں کے مقامی لوگوں سے شادیاں کرتے گئے تو یہ زبان خطرے سے دوچار ہو جائے گی
واضح رہے کہ پاکستان میں اس وقت کئی ادارے ایسے ہیں جو نادر زبانوں کے تحفظ کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ اس میں ادارۂ فروغِ قومی زبان، اکادمی ادبیات، نیشنل بک فاؤنڈیشن کے علاوہ مختلف یونیورسٹیوں میں لسانیات کے شعبے بھی ان زبانوں پر کام کر سکتے ہیں، تاکہ ان کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے. ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نایاب اور معدومیت کی کگار پر کھڑی زبان کی حفاظت کی جائے.