اپوزیشن سے رابطے میں ممبران کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش، حکومت کے 10 سے 12 اراکین اپوزیشن کی سیف کسٹڈی میں ہیں، پرویز الہیٰ

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – اپوزیشن سے پینگیں بڑھانے والے مرد اور خواتین ایم این ایز کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی گئی ہے

وزیراعظم کی زیر صدارت تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو ایک اہم رپورٹ پیش کردی گئی ہے، جس میں قومی اسمبلی کے تمام ارکان خصوصاً پی ٹی آئی ممبران کے حوالے سے مفصل تفصیلات پیش کی گئی ہیں

ذرائع کے مطابق وزیراعظم کو پیش کی گئی رپورٹ میں تحریک انصاف کے ایک درجن کے قریب ارکان قومی اسمبلی کی اپوزیشن کے ساتھ جھکاؤ اور معاملات طے کرنے کی تفصیلات بھی شامل ہیں، اور بتایا گیا ہے کہ جن حکومتی ارکان نے اپوزیشن سے پینگیں بڑھائیں ان میں مردوں کے ساتھ خواتین ایم این ایز بھی شامل ہیں

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ ایسے ممبران اسمبلی اپوزیشن کے ساتھ مل گئے ہیں جو پہلی بار ایوان میں آئے ہیں

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو تفصیلات پیش کرنے پر کئی سنیئر رہنما ہکے بکے رہ گئے ہیں، جب کہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کور کمیٹی اور اہم وفاقی وزرا و اعلیٰ عہدیدار مسلسل رابطے میں ہیں

ذرائع نے بتایا کہ رپورٹ کے بعد حکومت نے بھی تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لئے اپنی حکمت عملی کو تیز کردیا ہے

اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 21 مارچ کو بلایا جائے، اور شرکا نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اجلاس بلا کر ارکان کی حاضری کا پتہ چل جائے گا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے منحرف ارکان سے رابطوں کا ٹاسک پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی کو دے دیا ہے

ادہر حکومت نے سندھ ہاؤس پر بڑا ایکشن کرنے کی تیاری کر لی، اس حوالے سے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سندھ ہاؤس سے بہت سا پیسہ منتقل کرنے کی اطلاعات ہیں

انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ ہاؤس میں لوگوں کو رکھنے کے لیے پولیس منگوائی گئی ہے، اس وقت ہارس ٹریڈنگ کا مرکز سندھ ہاؤس ہے، ہم اس پر ایک بڑا ایکشن پلان کر رہے ہیں

ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ سندھ ہاؤس پر ریڈ کرنے جا رہے ہیں؟

فواد چوہدری نے جواب دیا کہ ریڈ کا نہیں پتہ مگر سخت ایکشن ہوگا

صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ بارہ بندے ڈھونڈ رہے ہیں؟

وزیرِ اطلاعات نے جواب دیا کہ بارہ بندوں کا ہمیں پتہ ہے، ڈھونڈنا کیا ہوتا ہے؟ اس وقت ہارس ٹریڈنگ کا مرکز سندھ ہاؤس ہے، جس طرح سے منڈیاں لگ رہی ہیں آئین کے خلاف ہے، ہارس ٹریڈنگ کے خلاف مضبوط ایکشن پلان کر رہے ہیں

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دی جائے گی

وزیراعظم عمران خان نے کراچی ٹیسٹ ڈرا کرنے پر قومی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں میچ دیکھ نہیں سکا کیونکہ میں میچ فکسنگ کے خلاف ایک اور محاذ پر لڑ رہا ہوں جہاں میرے کھلاڑیوں کو للچانے کے لیے بڑی بڑی رقوم کی پیشکش کی جا رہی ہے

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم اس سے قبل مختلف جلسوں میں تقاریر کے دوران بھی سیاسی محاذ پر جاری میچ فکسنگ کے الزامات عائد کر چکے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے اراکین اسمبلی کے ساتھ ساتھ حکومت کی اتحادی جماعتوں کو کروڑوں روپے کی پیشکش کی گئی ہے۔

متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے سبب حکومت اس وقت بحرانی صورتحال سے دوچار ہے اور وزیراعظم عمران خان مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پر ان کے اراکین کو اسمبلی کو وفاداری تبدیل کرنے کے لیے 15 سے 20 کروڑ روپے کی پیشکش کرنے کے الزامات بھی لگا چکے ہیں

حکومت کے 10 سے 12 اراکین اپوزیشن کی سیف کسٹڈی میں ہیں، پرویز الہیٰ

دوسری جانب مسلم لیگ ق کے رہنما اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہیٰ نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے دس سے زائد اراکین لاپتہ اور اپوزیشن کی سیف کسٹڈی میں ہیں

چوہدری پرویز الہیٰ نے نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ تحریک انصاف کے دس سے بارہ اراکین ہم سے ملنے آئے تھے، جنہیں اب ہم بھی تلاش کررہے ہیں مگر وہ لاپتہ ہیں اور امکان ہے کہ وہ خود اپنی حفاظت کے لیے اپوزیشن کے پاس ہوں

انہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا جھکاؤ بھی اب اپوزیشن کی طرف ہے، جن کی طرف (حکومت) زیادہ دیکھتے تھے وہ اب بالکل نیوٹرل (غیر جانبدار) ہیں

چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا کہ مسلم لیگ ق میں تحریک عدم اعتماد کی حمایت یا مخالف کے حوالے سے مشاورت کا عمل جاری ہے۔ انہوں نے حکومت کو تصادم سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ہمیشہ حکومت کو ہی نقصان ہوتا ہے کیونکہ بھٹو صاحب کی حکومت بھی ایسے ہی ختم ہوئی

مسلم لیگ ق کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی پیشکش پہلی بار نہیں ہوئی بلکہ اکثر ہوتی رہتی ہے، شہباز شریف نے بھی اسی طرح کی پیشکش کی اور مولانا فضل الرحمان صاحب گھر آئے تو انہوں نے بھی یہی بات کی تھی۔ پرویز الٰہی نے کہا کہ ’عمران خان صاحب جب ملاقات کے لیے آئے تو انہوں نے ہم سے کسی بات کا کوئی ذکر نہیں کیا اور ایم کیو ایم سے بھی انہوں نے کوئی بات نہیں کی‘

ایک اور بیان میں چودھری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان ایماندار ہیں اور ان کی نیت بھی اچھی ہے

بدھ کو مسلم لیگ ق کی جانب سے جاری بیان میں پرویز الٰہی نے کہا ”انہوں نے حکومت چھوڑی ہے اور نہ ہی اپوزیشن جوائن کی ہے“

 ’اپوزیشن اراکین نے جان بچانے کے لیے سندھ ہاؤس میں پناہ لی‘ پیپلز پارٹی

وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے تناظر میں حکومتی شخصیات کی جانب سے پیپلز پارٹی پر حکومتی ارکانِ اسمبلی کو سندھ ہاؤس میں ’قید‘ رکھنے کے الزامات کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ وہاں یقیناً متعدد ارکان مقیم ہیں لیکن اُن کا تعلق ’حکومت سے نہیں اپوزیشن سے ہے۔‘

تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے اس نوعیت کے الزامات بدھ کو سامنے آئے تھے اور انھیں حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنما پرویز الٰہی کے اس انٹرویو سے بھی تقویت ملی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ حکومت کے پندرہ، سولہ ارکان قومی اسمبلی ’ٹوٹ گئے ہیں‘ اور ان میں سے بیشتر اپوزیشن کے پاس ’حفاظتی حراست‘ میں ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ حزبِ اختلاف کے رہنما حکومتی ارکان کی وفاداریاں خریدنے کے لیے ‘پیسے کی بوریوں’ کے ساتھ سندھ ہاؤس میں موجود ہیں جبکہ وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے بھی ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ سندھ پولیس کے چار سو اہلکار سندھ ہاؤس میں تعینات ہیں

اس بارے میں فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ سندھ ہاؤس میں اپوزیشن بشمول پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے وہ ایم این ایز موجود ہیں جن کی جانوں کو حکومت کے ہاتھوں خطرہ ہے

وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے معاملے پر جی ڈی اے کہاں کھڑی ہے؟

وزیرِ اعظم عمران خان نے گذشتہ ہفتے سندھ میں موجود اپنے اتحادیوں سے ملاقات کی غرض سے کراچی کا ایک روزہ دورہ کیا تھا، اس دورے کے دوران ان کی اپنے اتحادی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا سے ملاقات نہیں ہو سکی، جس کے بعد مختلف نوعیت کی چہ میگوئیوں نے جنم لیا ہے

وزیر اعظم ایسے وقت میں سندھ میں اپنے اتحادیوں کے پاس چل کر آئے تھے، جب متحدہ اپوزیشن کی جانب سے اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تھی

مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما سردار رحیم کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سے جی ڈی اے کا کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پیر پگارا پیر صبغت اللہ شاہ کی طبعیت ناساز تھی، اس لیے وزیر اعظم سے ملاقات میں احتیاط برتی گئی ورنہ کوئی اختلافات نہیں تھے

سردار رحیم کے مطابق تحریک عدم اعتماد میں وہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، نہ کوئی ناراضی ہے نہ اختلافات ہیں، ہاں انھیں اعتماد میں لیا گیا یا نہیں، یہ سیاسی معاملات ہیں جن کو حل کیا جا سکتا ہے

سیاسی تجزیہ نگار فیاض نائچ کہتے ہیں ایسے دعوے سامنے آ رہے ہیں کہ اپوزیشن میں یہ طے ہو چکا ہے کہ وزیر اعظم کے امیدوار میاں شہباز شریف ہوں گے، اس لیے جی ڈی اے اُن کی حمایت کرے گی، اور مہر برادران اور فہمیدہ مرزا کے لیے شریف خاندان کے ساتھ کام کرنا آسان ہو گا

اسلام آباد میں سندھ کی پارلیمانی سیاست پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی قربان بلوچ کا خیال ہے کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور غوث بخش مہر کے لیے پیپلز پارٹی کا ساتھ دینا دشوار ہے کیونکہ مرزا خاندان کے لیے یہ سیاسی نہیں ذاتی معاملہ بھی ہے جبکہ غوث بخش مہر ٹھٹہ کے شیرازیوں اور دیگر ایسے خاندانوں کی صورتحال دیکھ چکے ہیں جنھوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی

سینیئر صحافی ناز سہتو کہتے ہیں کہ ایک رابطے وہ ہیں جو نظر آتے ہیں جبکہ دوسرے منظرِ عام پر نہیں آتے، سابق صدر آصف علی زرداری کے پیر پگارا سے رابطہ کیا ہے۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد کے خاندان کی پیر پگارا کے خاندان سے رشتے داریاں بھی ہیں اور اس بنیاد پر یوسف رضا گیلانی کو پہلے بھی ووٹ بھی مل چکا ہے

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں اسلام آباد میں جی ڈی اے کی قیادت سے ملاقات کی تھی جس کے بعد ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے ایک ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ کابینہ کا حصہ ہیں اور انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ اُن کا ساتھ نہ دوں۔ تاہم، انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو سندھ میں ان کے تحفظات سے آگاہ کیا گیا تھا

ایم کیو ایم وفد کی شہباز، فضل الرحمٰن سے ملاقات

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بدھ کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ لاجز میں اپوزیشن رہنما ء مولانا فضل الرحمٰن اورشہباز شریف سے ملاقات کی ہے، جس میں دونوں رہنمائوں کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ہونے والی ملاقات اور اس میں طے ہونے والے معاملات سے آگاہ کیا

ذرائع کے مطابق ایک گھنٹے سے زائد جاری ملاقات میں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن نے ایم کیو ایم کو یقین دلایا کہ اپوزیشن کی حمایت کی صورت میں پی پی سے ہونے والے صوبائی معاہدے اور متحدہ اپوزیشن کے ساتھ وفاقی معاہدے پر مکمل عمل در آمد کرایا جائے گا، جس میں مردم شماری، وفاقی ملازمت میں شہری کوٹے اور سندھ میں ایم کیو ایم کے گورنر کی تقرری، کراچی اور حیدر آباد میں جاری وفاقی منصوبوں کی وقت پر تکمیل کے نکات نمایاں ہیں

اتحادیوں کے خطرناک اشارے، کیا پارٹی واقعی اوور ہو گئی ہے؟

حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے کھل کر اپوزیشن کے ساتھ جانے کے عندیے اور ایم کیو ایم کی جانب سے پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات طے پا جانے کی اطلاعات کے بعد یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا حکومت کے لیے پارٹی اوور ہو گئی ہے اور کیا اب صرف رسمی کارروائی باقی ہے

حکومتی اتحادیوں کے واضح اشاروں کے باوجود ابھی باضابطہ طور پر کسی بھی اتحادی جماعت نے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا۔ پرویز الٰہی کے حالیہ انٹرویو نے حکومتی ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں مگر انہوں نے بھی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا کھلے لفظوں میں اعلان نہیں کیا بلکہ کہا کہ سب اکٹھے فیصلے کریں گے، جس کے تقریباً قریب پہنچ چکے ہیں۔
اسی طرح ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کی ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری اعلامیے میں تو کہا گیا کہ ’تمام معاملات پر اتفاق ہو گیا ہے‘ مگر ایم کیو ایم کے بیان میں کہا گیا کہ مشاورت جاری ہے۔ گویا ابھی تک رسمی طور پر اتحادیوں کا حکومت سے علیحدگی کا اعلان نہیں ہوا ہے

اتحادیوں کی جانب سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا سب سے بڑا اشارہ اس وقت سامنے آیا جب منگل کی شب پاکستانی چینل ’ہم نیوز‘ کے ساتھ انٹرویو میں ق لیگ کے اہم رہنما پرویز الٰہی نے کہا کہ ’وزیراعظم عمران خان 100 فیصد مشکل میں ہیں کیونکہ سارے اتحادیوں کا 100 فیصد رجحان اپوزیشن کی جانب ہے۔‘

اس بیان اور پھر ایم کیو ایم کے اپوزیشن کے ساتھ مسلسل رابطوں کے بعد یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ حکومت کے بڑے اتحادی اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں

موجودہ صورتحال میں اگر مسلم لیگ ق کے پانچ اور ایم کیو ایم کے سات ارکان بھی حکومت سے علیحدہ ہو کر اپوزیشن کے ساتھ ہو جائیں تو قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے پاس صرف 167 ووٹ رہ جائیں گے اور وہ اکثریت کھو دیں گے

اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی (بعپ) کے پانچ ارکان ہیں اور اس کی بھی اکثریت اپوزیشن کی طرف جھکاؤ ظاہر کر ہی ہے۔ یاد رہے کہ ان تینوں اتحادیوں نے طے کر رکھا ہے کہ وہ مل کر فیصلہ کریں گے۔ گویا اس وقت اتحادی تُرپ کا وہ پتہ ہے جو فیصلہ کن حثییت رکھتا ہے

تاہم حکومتی اتحاد ابھی تک برقرار رہنے کی ایک علامت یہ ہے کہ مسلم لیگ ق سمیت اتحادی جماعتوں کے پاس وفاق اور صوبے میں وزارتیں اور اہم عہدے ابھی تک موجود ہیں۔ کسی علیحدگی کے اعلان کی صورت میں ان سب کو اپنےعہدے چھوڑنا ہوں گے اور باقاعدہ طور پر اپوزیشن بنچوں پر جانا ہوگا

اتحادیوں کے اعلان میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟

مسلم لیگ ق نے چند روز قبل کہا تھا کہ فیصلہ کر چکے ہیں اور جلد اعلان کریں گے مگر ان کی طرف سے تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن یا حکومت کے ساتھ جانے کا اعلان اب تک نہیں ہوا نہ ہی ایم کیو ایم یا باپ پارٹی کی جانب سے ایسا اعلان سامنے آیا ہے تو آخر اس تاخیر کی وجہ کیا ہے؟
اس حوالے سے مسلم لیگ ق کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تاخیر کی ایک وجہ 23 مارچ کو پاکستان میں ہونے والی اسلامی کانفرنس تنظیم کی وزرائے خارجہ کانفرنس ہے جس میں دنیا بھر سے مہمان وزرائے خارجہ آئیں گے۔ ان کے مطابق اس کانفرنس سے قبل اتحادیوں کی جانب سے حکومت چھوڑنے کا اعلان ملک میں ایک بے یقینی کی صورتحال پیدا کر سکتا ہے اس لیے 24 مارچ تک انتظار کیا جا رہا ہے تاکہ اس طرح کا اعلان کیا جا سکے

دوسری جانب تازہ اطلاعات کے مطابق حکومت کے ایک اہم عہدیدار نے تقسیم کی موجودہ سیاست کو ختم کرنے میں مدد دینے اور اپنا کردار ادا کرنے کے لئے ایک طاقتور شخصیت سے رابطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ تقسیم کی اس سیاست سے عوام کا زبردست نقصان ہو رہا ہے اور اپوزیشن کی وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اس تقسیم میں مزید اضافہ ہوگا۔

یہ مدد کسی پارٹی کی حمایت حاصل کرنے یا کسی اور مقصد کیلئے طلب نہیں کی گئی تھی بلکہ اس کا مقصد ایک طرف عدم اعتماد کی تحریک سے بچنا، جلد انتخابات کی راہ ہموار کرنا اور بہتر سیاست اور اچھی طرز حکمرانی کیلئے اصلاحات لانا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close