لگ بھگ بارہ برس کی عمر میں ڈیوڈ مے مین نے باڑ کے ٹکڑوں اور گھاس کاٹنے کی ایک پرانی مشین سے ہیلی کاپٹر بنانے کی کوشش کی تھی، لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ ان کی یہ مشین نہ صرف یہ کہ اُڑ نہیں سکی، بلکہ الٹا انہیں باغ کی باڑ کی مرمت کے بھی لالے پڑ گئے
ڈیوڈ مے مین کہتے ہیں ”میری پرورش اس طرح کی گئی کہ میرے خیال میں سائنس میرے لیے ایک چیلنچ کی طرح بن گئی۔ مجھے ہمیشہ یہ بتایا گیا کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے“
آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں اپنے بچپن کے دنوں میں وہ اپنی عمر سے بڑے کام کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ باڑ کے ٹکڑوں اور گھاس کاٹنے کی ایک پرانی مشین سے ہیلی کاپٹر بنانے کی کوشش کرنے والے ڈیوڈ مے مین نے بڑے ہونے کے بعد ایسی جدید مشینیں بنائیں، جو واقعی اُڑ سکتی ہیں
انہوں نے اپنا آن لائن کاروبار بیچنے کے بعد ایک جیٹ پیک بنایا، جسے انہوں نے نیویارک میں مجسمہ آزادی کے گرد اڑایا
لیکن سنہ 2018ع سے وہ ایک مختلف منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس سے انہیں زیادہ کاروباری مواقع ملیں گے
ان کی نئی یہ نئی مشین، جسے اسپیڈر کا نام دیا گیا ہے، ایک اڑنے والی موٹر سائیکل ہے۔ یہ فضا میں عمودی طور پر بلند ہوگی اور پھر بہت تیز رفتار سے پرواز کرے گی۔ اس مشین کا سائز اتنا ہوگا کہ یہ کسی پک اپ ٹرک میں رکھی جا سکے
اسپیڈر ان کئی اڑنے والی مشینوں کے منصوبوں میں سے ایک ہے، جن پر کام ہو رہا ہے
ایسی سینکڑوں اُڑنے والی مشینیں تیاری کے مراحل میں ہیں، جنہیں ای وی ٹی او ایل یعنی الیکٹرک وہیکل ٹیک آف اینڈ لینڈنگ کہا جاتا ہے
انجینیئروں کو امید ہے کہ جلد ہی سَستی اور کم آواز والی فضائی ٹرانسپورٹ کا دور شروع ہونے والا ہے
تاہم ڈیوڈ مے مین کی مشین ان ایئر کرافٹس سے بہت مختلف ہے۔ بیٹریوں اور الیکٹرک انجن کے بجائے مے مین کا اسپیڈر چار چھوٹے انجنوں سے چلتا ہے اور یہ انجن ہوا بازی میں استعمال ہونے والے ایندھن سے چلتے ہیں
جدت اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک قدم پیچھے کی جانب ہے، لیکن مے مین کے خیال میں صارفین کو صرف لیکوئڈ (مائع) ایندھن ہی راغب کرے گا
ان کا کہنا ہے کہ فوج، ایمرجنسی سروسز اور سمندروں میں تیل اور گیس نکالنے کی صنعت کے لیے ایک ایسے ایئر کرافٹ کی ضرورت ہے، جو چھوٹا ہو اور کافی زیادہ وزن اٹھا سکے۔ اس کے لیے آپ کو جہازوں میں استعمال ہونے والا ایندھن چاہیے، جو بیٹریوں کے مقابلے میں ایک مخصوص وزن کو اٹھانے کے لیے بیس گنا زیادہ طاقت فراہم کرتا ہے۔ اتنا وزن اٹھانے کے لیے بہت وزنی اور بڑی بیٹریاں درکار ہوں گی
ڈیوڈ مے مین کا کہنا ہے ”اگر آپ ایک مخصوص وزن کا سامان لے جانا چاہتے ہیں اور جس ایئر کرافٹ میں یہ سامان جانا ہے، آپ اس کی ایک مخصوص رینج اور رفتار چاہتے ہیں تو یہ کام موجودہ ٹیکنالوجی میں رہ کر، یعنی ٹربائن انجن کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے
مے مین کو اسپیڈر کا خیال اس وقت آیا، جب وہ امریکی نیوی کے ساتھ کام کر رہے تھے، نیوی کو دراصل اپنی اسپیشل فورسز یعنی سیلز کے لیے جیٹ پیک کے حصول میں دلچسپی تھی
”اسی طرح ہوا بازی کی صنعت میں بھی یہی صورتحال تھی۔ آپ ایک مخصوص خصوصیات والی مشین پر کام شروع کریں اور جلد ہی بالکل مختلف خصوصیات والی مشین کا کام آجاتا ہے“
ڈیوڈ مے مین نے بتایا کہ وہ شروع میں ایک ایسی ہوائی مشین چاہتے تھے جو پچانوے کلو وزن اٹھا کر اُڑ سکے لیکن ابھی اس پروجیکٹ پر کام ہو ہی رہا تھا کہ ایک سو پینتیس کلو وزن اٹھانے والی مشین کی بات ہونے لگی۔ اس کے علاوہ وہ چاہتے تھے کہ کسی کو دس منٹ میں اس کام کی تربیت بھی دے دی جائے
یہ سب موجودہ جیٹ پیک کے ساتھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے لیے کوئی ایسی مشین چاہیے تھی، جو بڑی ہو اور اڑانے میں آسان ہو۔ تو اس طرح اسپیڈر پروجیکٹ وجود میں آیا۔ اس کے لیے جیٹ پیک کی کچھ ٹیکنالوجی کام آئی لیکن زیادہ تر بالکل شروع سے کرنا پڑا
جیٹ پیک میں اُڑان کی سمت کو پائلٹ کو باقائدہ خود کنٹرول کرنا پڑتا ہے جبکہ اسپیڈر میں یہ کام الیکٹرانک فلائٹ کنٹرول سسٹم کرتا ہے
مے مین نے بتایا ”اسپیڈر کے مالک کو لائسنس کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ اسپیڈر کا فلائٹ کنٹرول سسٹم ہی پرواز کے دوران زیادہ تر کام کرتا ہے
مے مین نے بتایا ”اسپیڈر موثر طور پر ایک مصنوعی ذہانت والی مشین ہے، جسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس وقت کس کام کی ضرورت ہے۔ یہ انجنوں کو ضرورت کے مطابق کنٹرول کرتا ہے“
ڈیوڈ مے مین کو امید ہے کہ اسپیڈر کو ساز و سامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ان کا خیال ہے کہ مختلف ادارے اسپیڈر میں دلچسپی ظاہر کریں گے خاص طور پر مسلح افواج اور ایمرجنسی سروسز کی جانب سے اسپیڈر کی مانگ میں اضافہ ہوگا
اسپیڈر کی تیز ترین رفتار دو سو میل فی گھنٹہ ہے جبکہ یہ ایک گھنٹے تک اڑ سکتا ہے۔ مے مین کہتے ہیں کہ یہ فوج اور ایمرجنسی سروسز کو ضروری اشیا بہت جلدی اور مطلوبہ مقام پر پہنچا سکتا ہے
اس کے علاوہ کارگو موڈ میں جب اسے ریموٹ کنٹرول سے اڑیا جائے تو یہ پانچ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتا ہے اور ساڑھے چار سو کلو تک وزن اٹھا سکتا ہے
ڈیوڈ مے مین کے خیال میں کیونکہ یہ چھوٹی اور مکمل مشین ہے، اس لیے یہ ہر طرح کے موسم میں سفر کر سکتی ہے اور اس طرح ہیلی کاپٹر سے زیادہ کارآمد ہے
لیکن اگر آپ زیادہ پرجوش اور خوش ہو رہے ہیں کہ آپ اس پر بیٹھ کر بسوں، گاڑیوں اور ٹریفک کے اوپر سے اڑتے ہوئے گزر جائیں گے تو مے مین کا کہنا ہے اس بات کا امکان کم ہے کہ یہ شہروں میں استعمال ہو
وہ کہتے ہیں ”یہ شور مچاتا ہے، یہ بہت زیادہ طاقتور ہے اور بہت چھوٹا ہے۔ میرے خیال میں ایک ایسے ایئر کرافٹ کی شہری علاقوں میں ضرورت نہیں ہے، جس کا سائز آپ کی ڈائنگ ٹیبل کے برابر ہو“
تاہم صارفین تک پہنچانے سے پہلے اس اُڑنے والی موٹر سائیکل کو بہت اچھی طرح آزمانے کی ضرورت ہے. اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا تو اسپیڈر نامی یہ اُڑن موٹر سائیکل سنہ 2024 یا 2025 تک عام صارفین کے لیے دستیاب ہوگی جبکہ فوج کو یہ اس سے پہلے مل سکتی ہے.