پاکستان کے معروف اینکر ارشد شریف کینیا میں قتل، تحقیقات کیلئے سیکریٹری داخلہ و سیکریٹری خارجہ کو نوٹس جاری

ویب ڈیسک

نیروبی میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’ہائی کمیشن (ارشد شریف کے قتل کی) کینین حکام سے تصدیق کی کوشش کر رہا ہے اور ہائی کمیشن کینیا کے اعلیٰ ترین حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔‘

اطلاعات ہیں کہ پاکستان کے معروف اینکر اور صحافی ارشد شریف کے اہل خانہ کے مطابق انہیں اتوار اور پیر کی درمیان شب کینیا میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا

ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق کا کینیا کی پولیس کے حوالے سے کہنا ہے کہ ارشد کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تاہم پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ پر دعویٰ کیا گیا کہ وہ ایک حادثے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں

کینیا میں موجود پاکستانی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کینیا کے حکام کے ساتھ رابطے میں ہے

ارشد شریف پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے ملک چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہوگئے تھے اور موجودہ حکومت کے سخت ترین ناقدین میں شامل تھے

ان کے اہل خانہ نے بھی کینیا میں ہونے والے اس واقعے کی تصدیق کی ہے لیکن تاحال اس بات کی وضاحت نہیں ہو سکی کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا

معروف صحافی اور سینیئر اینکر پرسن ارشد شریف کے کینیا میں مبینہ قتل کی تحقیقات کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری خارجہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل تک رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔

یرسٹر شعیب رزاق کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ کمیشن بنا کر تحقیقات کرائی جائیں کہ ارشد شریف کن حالات میں باہر گئے، سیکیورٹی ایجنسیز کو کینیا کی ایجنسیز سے رابطہ بنا کر تحقیقات کا حکم دیا جائے

درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ ارشد شریف کی میت پاکستان لانے کیلئے اقدامات کا حکم دیا جائے۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ارشد شریف کی لاش کہاں ہے؟ بیرسٹر شعیب رزاق نے جواب دیا کہ ارشد شریف کی میت نیروبی میں ہے۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کل تک واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری خارجہ کو نوٹس جاری کردیا

ان کی اہلیہ جویریہ صدیق نے ایک ٹویٹ میں کینین پولیس کے حوالے سے اس خبر کی تصدیق کی اور اپیل کی کہ ان کے اس غم میں ان کی نجی زندگی کا خیال رکھا جائے

ارشد شریف کے سابق چینل اے آر وائی کے مطابق انہیں کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے دو گھنٹے کی مسافت پر ایک مقام پر گولی لگی، جس سے وہ جان بر نہ ہوسکے۔ ارشد شریف طویل عرصے سے پاکستانی نیوز چینل اے آر وائی نیوز سے منسلک رہے،

ارشد شریف کی اہلیہ نے اس واقعے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی نجی زندگی کا احترام کرنے کی درخواست کی ہے

پاکستان میں پولیس نے ارشد شریف، اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے صدر اور سی ای او سلمان اقبال، نیوزاینڈ کرنٹ افیئرز کے سربراہ عماد یوسف، اینکر پرسن خاور گھمن اور ایک پروڈیوسر کے خلاف اس سال 8 اگست کو پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل کے چینل پر نشر کیے گئے ایک متنازع بیان پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا

وزارت داخلہ نے بعد میں اس فیصلے کی وجہ کے طور پر’ایجنسیوں کی طرف سے منفی رپورٹس’ کا حوالہ دیتے ہوئے چینل کا این او سی کا سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیا تھا اور اس کے بعد ارشد شریف ملک سے باہر چلے گئے تھے

اس کے بعد ’اے آر وائی نیوز‘ نے کوئی خاص وجہ کا حوالہ دیے بغیر اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ارشد شریف سے ‘راستے الگ کر لیے ہیں

23 مارچ 2019 کو انہیں صحافت میں ان کی خدمات پر صدر پاکستان نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ ارشد شریف آخری دنوں تک پاکستان میں اے آر وائی نیوز پر پروگرام پاور پلے کی میزبانی کر رہے تھے

انہوں نے آج ٹی وی میں بطور نیوز ڈائریکٹر خدمات انجام دیں۔ آج میں شامل ہونے سے پہلے وہ دنیا ٹی وی کی نیوز ٹیم کی بطور ڈائریکٹر نیوز اور پروگرام کیوں کے میزبانی کر رہے تھے

اگست 2022 کے دوران ان کے ایک پروگرام کی وجہ سے ان کی اے آر وائی کی ملازمت چلی گئی جس کے بعد سے لے کر اپنی موت تک وہ اپنا یو ٹیوب چینل چلا رہے تھے

یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد ارشد شریف نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔ خود ساختہ جلا وطنی کے دوران وہ دبئی اور لندن میں مقیم رہے تھے

ارشد کی موت کی تصدیق ان کی اہلیہ نے پیر کی صبح کی۔ جویریہ صدیق نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’آج میں نے اپنا دوست، شوہر اور پسندیدہ صحافی کھو دیا۔ جویریہ صدیق نے کہا کہ ’پولیس نے انھیں بتایا ہے کہ ارشد شریف کو کینیا میں مار دیا گیا۔‘

جویریہ نے یہ بھی اپیل کی ہے کہ ارشد شریف کی کینیا کے مقامی ہسپتال میں لی جانے والی آخری تصویر کو شیئر نہ کیا جائے

بیرون ملک روانگی سے قبل ہراسانی کا دعویٰ

کراچی میں پیدا ہونے والے 49 سالہ ارشد شریف نے متعدد پاکستانی نیوز چینلز میں بڑے عہدوں پر کام کیا تھا

وہ بیرون ملک سے اکثر وی لاگز کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے اور عمران خان کے خلاف ’بیرونی سازش‘ کے بیانیے کے حامی تھے

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد انھوں نے دعویٰ کیا تھا انھیں ایف آئی اے کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔ ان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو صحافیوں کے خلاف شکایت کی صورت میں صحافتی تنظیموں کے ساتھ رابطہ کرنے کا حکم دیا تھا

ارشد شریف کے وکیل فیصل چوہدی کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اُن کے موکل (ارشد شریف) کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکومت نے اُن کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ ارشد شریف کی رپورٹنگ اور حکومت پر تنقید بتائی گئی

درخواست کے مطابق ارشد شریف ذرائع سے ملنے والی ان معلومات کے بعد ڈرے ہوئے تھے کیونکہ ’سول کپڑوں میں ملبوس افراد اُن کے گھر اور خاندان کی نگرانی کر رہے ہیں۔‘

تاہم ایف آئی اے کا دعویٰ تھا کہ اس نے نہ تو ارشد شریف کو گرفتار کیا ہے اور نہ ہی انھیں ہراساں کیا گیا۔ عدالتی حکم کے مطابق ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے بتایا تھا کہ درخواست گزار کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے بارہا اپنے بیانات میں ارشد شریف پر مبینہ حملے کی مذمت کی اور کہا کہ حکومتی عتاب کا نشانہ بننے والے صحافیوں کے حق میں بھرپور آواز اٹھانی چاہیے۔

سنہ 2019 میں ارشد شریف کو صدر عارف علوی کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا

سوشل میڈیا پر صحافی برادری کا ردعمل

مختلف صحافیوں کی طرف سے ارشد شریف کی کینیا میں موت کے واقعے سے متعلق تعزیتی ٹویٹ کیے گئے

سوشل میڈیا پر ارشد شریف کی موت کی خبر نشر ہوئی تو پھر اس کے بعد پاکستان کے مقامی میڈیا نے بھی ذرائع سے ارشد شریف کی موت کی خبر نشر کی۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق ان کے چینل سے وابستہ صحافی ارشد شریف کی کینیا میں ایک حادثے میں موت واقع ہوئی ہے

یاد رہے کہ ارشد شریف کے بیرون ملک چلے جانے کے چند دن بعد اے آر وائی نے یہ واضح کیا تھا کہ ارشد شریف اب اے آر وائی سے وابستہ نہیں رہے

جہاں اے آر وائی میں کام کرنے والے ان کے ساتھیوں نے اس موت پر سوشل میڈیا پر دُکھ کا اظہار کیا وہیں چینل کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال نے بھی تعزیتی ٹویٹ کیا اور کہا کہ انھیں اس خبر پر یقین نہیں ہو رہا ہے اور اس واقعے پر کہنے کو کوئی الفاظ نہیں مل رہے ہیں

سینیئر صحافی کامران خان اور شہباز رانا نے ارشد شریف کو قتل کیے جانے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا

اے آر وائی نیوز کے اینکر پرسن کاشف عباسی نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’میرے بھائی، میرے دوست، میرے ساتھی ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار دی گئئ، میں اب بھی یقین نہیں کر سکتا، یہ خبر دل ٹوٹنے سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے، یہ بہت غلط اور تکلیف دہ ہے‘

عمار راشد ٹوئٹر پر لکھتے ہیں کہ ’کینیا میں ارشد شریف کے قتل کی خبر خوفناک ہے۔ پاکستانی صحافیوں اور ناقدین کے خلاف ملک کے اندر اور باہر حملوں کی حالیہ تاریخ دیکھتے ہوئے اس پر شکوک و شبہات جائز ہیں۔ کینیا کے حکام پر فوراً یہ دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ تحقیقات کریں۔‘

اسامہ خلجی کا کہنا تھا کہ ارشد شریف نے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کی جس کے بعد انھیں دھمکیوں کا سامنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان کے قتل کی انٹرنیشنل انکوائری ہونی چاہیے۔‘

صحافی مظہر عباس نے عالمی صحافتی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے سینیئر اینکر پرسن اور صحافی کے قتل کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن قائم کیا جاہیے۔ ’(ماضی میں) کئی صحافیوں کے قتل کی طرح یہ کیس نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔‘

اینکر نسیم زہرہ نے سوال کیا کہ ‘یہ خون کا کھیل کب تک جاری رہے گا؟’

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close