عالمی برادری کا دوہرا معیار: چند دن سے قابض روس غلط، ساٹھ سال سے قابض اسرائیل ٹھیک!؟ کویت

ویب ڈیسک

جکارتہ – کویتی قومی اسمبلی کے اسپیکر مرزوق الغنیم نے عالمی برادری کی جانب سے دنیا میں جاری تنازعات کے حوالے سے دوہرا معیار اپنانے کی مذمت کرتے ہوئے بین الپارلیمانی یونین (آئی پی یو) سے اسرائیلی وفد کو نکالنے کا مطالبہ کیا ہے

انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں آئی پی یو کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مرزوق الغنیم کا کہنا تھا کہ کویت اصولی طور پر کسی بھی قسم کے قبضے کا مخالف ہے

انہوں نے تیس سال قبل عراقی فوج کے خلیج فارس پر حملے کا حوالہ بھی دیا

ان کا سوال تھا کہ ”روسی وفد کو اس حملے کی وجہ سے آئی پی یو سے نکالنے کا مطالبہ کیسے کیا جا سکتا ہے، جو چند دن یا ہفتے پہلے شروع ہوا تھا، جبکہ اسرائیلی مندوبین کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا، جن کی حکومت ساٹھ سال سے زیادہ عرصے سے فلسطین پر قابض ہے؟“

انہوں نے کہا ”لہٰذا یہ ایک دوہرا معیار ہے، جسے میں نہیں سمجھتا کہ آیی پی یو کے صدر قبول کریں گے“

واضح رہے کہ کویت خطے کے ان بعض عرب ممالک کے برعکس اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا سخت مخالف ہے، جنہوں نے حالیہ برسوں میں اسرائیلی قابض حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کیے ہیں

گزشتہ سال مئی میں، کویت کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر ایسے بلوں کی منظوری دی تھی، جو تل ابیب حکومت کے ساتھ کسی بھی معاہدے یا تعلقات کو معمول پر لانے کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں

18 اگست 2020ع کو کویت کے سینتیس قانون سازوں نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے درمیان معمول کے معاہدے کو مسترد کر دے

کویت میں اسرائیل مخالف جذبات عروج پر ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک، واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے 2019ع میں کرائے گئے ایک سروے نے ظاہر کیا کہ 85 فیصد کویتی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کرتے ہیں

یاد رہے کہ ستمبر 2020ع میں، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ معمول کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ مراکش اور سوڈان نے بھی بعد میں اسرائیلی حکومت کے ساتھ اسی طرح کے معاہدوں پر دستخط کیے۔ ابراہم معاہدے کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا نے آگے بڑھایا تھا

فلسطینیوں نے ان معاہدوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ اور اپنے مقصد کے ساتھ ’خیانت‘ قرار دیا تھا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close