کراچی – سیٹلائٹ تصاویر میں انٹار کٹیکا میں اسلام آباد سے بھی بڑے رقبے پر پھیلی آئس شیلف کے ڈرامائی اختتام کا مشاہدہ کیا گیا ہے
مشرقی انٹار کٹیکا کے ساحل پر کونگر آئس شیلف 15 مارچ کو مکمل طور پر منہدم ہوگئی
اس آئس شیلف کا رقبہ 1200 اسکوائر کلومیٹر تھا، اس کا صحیح اندازہ لگانے کے لئے جا لیں کہ اسلام آباد کا رقبہ 906 کلومیٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے
ووڈز ہول اوشین او گرافک انسٹیٹوٹ ناسا کی ماہرین کیتھرین والکر نے سیٹلائٹ تصاویر کو 24 مارچ کو ٹوئٹر پر شیئر کیا
اس ٹوئٹ میں موجود جی آئی ایف میں دکھایا گیا کہ 14 مارچ سے آئس شیلف غائب ہونا شروع ہوئی اور 16 مارچ کی تصویر میں بالکل غائب ہوگئی
آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کے ماہر اینڈریو میکینٹوش نے بتایا کہ کونگر آئس شیلف وہاں موجود تھی اور اچانک غائب ہوگئی
واضح رہے کہ آئس شیٹس اس برطانوی براعظم کے سمندر میں برف کے بہاؤ کو روکے رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں
اینڈریو میکنٹوش نے بتایا ”اگر وہ منہدم ہوجائیں تو برف کے بہاؤ کی رفتار بڑھ جائے گی جس کا نتیجہ سمندروں کی سطح میں اضافے کی شکل میں نکلے گا“
انٹار کٹیکا کو حال ہی میں غیرمعمولی شدید درجہ حرارت کا سامنا ہوا ہے
مشرقی انٹار کٹیکا میں موجود کنکورڈیا اسٹیشن کے مطابق اس خطے میں درجہ حرارت مارچ کے وسط میں منفی 11.8 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، جو کہ سال کے اس حصے کی اوسط سے 30 ڈگری زیادہ تھا
یہ درجہ حرارت اس خطے میں چلنے والی گرم ہوا کا نتیجہ تھا
اگرچہ یہ جاننا تو بہت مشکل ہے کہ زیادہ درجہ حرارت اس آئس شیلف کے منہدم ہونے کا باعث بنی، لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کونگر کے ارگرد کا ماحول کس حد تک بدل گیا ہے
انہوں نے کہا ”ہمیں یہ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشرقی انٹارکٹیکا میں گرم موسم نے برف کے پگھلنے پر کس حد تک اثر کیا ہے“
یاد رہے کہ اس سے قبل جولائی 2017ع میں انٹارکٹیکا کے برفانی خطے لارسن سی سے 5800 اسکوائر کلومیٹر بڑا تودہ الگ ہوا تھا، جس وزن ایک کھرب ٹن تھا
اس برفانی تودے کے الگ ہونے سے کئی سال پہلے ہی ایک بہت بڑی دراڑ نمودار ہونے لگی تھی، لیکن مئی 2017ع کے آخر میں یہ دراڑ سترہ کلو میٹر تک پھیل گئی تھی جبکہ جون کے آخر میں اس کی رفتار تیز ہوگئی اور روزانہ دس میٹر سے زائد تک پہنچ گئی تھی
اس حوالے سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سائنسدانوں کے پاس انٹارکٹیکا میں موسم کی صورتحال کے حوالے سے مستقبل کی معلومات موجود نہیں، جس نے انہیں زیادہ فکر مند کیا ہوا ہے
کمپیوٹر کی پیشگوئی سے عندیہ ملتا ہے کہ اگر اسی شرح سے زہریلی گیسوں کا فضا میں اخراج جاری رہا تو دنیا بھر کا موسم زیادہ گرم ہوگا، جس کے نتیجے میں برفانی براعظم کے مختلف حصے تیزی سے پگھل جائیں گے اور اس سے اس صدی کے آخر تک سمندری سطح میں چھ فٹ یا اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے
سائنسدانوں کے مطابق کسی تحقیق کے نتائج سامنے آنے میں کئی برس لگ جائیں گے مگر سمندری سطح کی رفتار بڑھنے کے حوالے سے فوری تفصیلات جاننا ضروری ہے
ابھی سائنسدانوں کو معلوم نہیں کہ انٹارکٹیکا کے مختلف حصے کب تک پگھل کر سمندر کا حصہ بن جائیں گے، مگر کچھ بدترین پیشگوئیاں یہ ہیں کہ ایسا رواں صدی کے وسط میں ہوسکتا ہے.