کراچی – حکومت سندھ کی جانب سے جنگلی حیات کے لیے محفوظ پناہ گاہ قرار دیے گئے کھیرتھر نیشنل پارک میں تیل کی تلاش اور ڈرلنگ کی اجازت دے دی گئی ہے
تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلی حیات کے خط کے مطابق مجاز اتھارٹی وزیرِ اعلیٰ سندھ کی اجازت سے پاکستان آئل فیلڈ لمیٹڈ کو ڈرلنگ اور تحقیقی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ اس خط میں سندھ وائلڈ لائف پریزرویشن اور مینجمنٹ ایکٹ کی دفعہ 9 (3) کا حوالہ دیا گیا ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دفعہ کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں بھی ڈرلنگ اور مائننگ کی اجازت کا کوئی ذکر موجود نہیں بلکہ اس سیکشن کے مطابق کسی سائنسی مقصد، پارک کی خوبصورتی بڑھانے اور عوام کے وسیع تر مفادات کے پیش نظر اس قانون میں نرمی کر کے سرگرمی کی اجازت دی جا سکتی ہے
اس بارے میں محکمہ جنگلی حیات کے ایک سینیئر افسر کا کہنا ہے کہ اس اجازت نامے میں وائلڈ لائف ایکٹ کی دفعہ 86 کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ ایکٹ کے مطابق ایسے کسی بھی اقدام کی اجازت سے قبل ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جائے گی، جو جنگلی حیات کے تحفظ اور پناہ گاہوں میں سرگرمی سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لے گی اور اپنی سفارشات پیش کرے گی جس کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا، لیکن یہ معاملہ کمیٹی کے روبرو لایا ہی نہیں گیا
دوسری جانب رابطہ کرنے پر کھیرتھر نیشنل پارک میں ڈرلنگ کرنے والی کمپنی پاکستان آئل فیلڈ لمیٹڈ کے مرکزی دفتر سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، تاہم ایک اہلکار نے بتایا کہ ’کام چل رہا ہے اور اس کو میچور ہونے میں پانچ سے سات ماہ لگ سکتے ہیں۔‘
جب ان سے کہا گیا کہ یہ تو محفوظ قرار دیا گیا پارک ہے تو، اُنہوں نے مشورہ دیا کہ وزارت پیٹرولیم سے رابطہ کیا جائے
واضح رہے کہ پاکستان آئل فیلڈ لمیٹڈ تیل اور گیس کی تلاش اور پیداوار کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات، ایل پی جی، سالوینٹ آئل اور سلفر بھی تیار کرتی ہے
کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کھیرتھر میں سائزمک سروے سے ہائیڈرو کاربن کی کھوج لگائی جائے گی، جس کے لیے اُنہوں نے ڈرلنگ کی اجازت حاصل کر لی ہے
دوسری جانب سندھ کی محکمہ ماحولیات کی جانب سے اس ڈرلنگ کے اثرات پر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی بلاک میں دو کنویں کھودے جائیں گے
سندھ کے صوبائی وزیر جنگلات اور حیوانات تیمور تالپور اور صوبائی وزیر ماحولیات اسماعیل راہو سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا گیا لیکن ان کا کوئی مؤقف سامنے نہیں آ سکا
فطرت کے تحفظ کی عالمی تنظیم (آئی یو سی این) کے نوید سومرو کہتے ہیں نیشنل پارک کی ماحولیاتی اہمیت ہوتی ہے، اسی لیے ہی اس کو قومی پارک اور تحفظ دیا جاتا ہے
اُنہوں نے کہا کہ کھیرتھر میں کئی نایاب چرند و پرند ہیں، جن میں سے بعض ایسی اقسام بھی ہیں جو معدومیت کے خطرے کی شکار ہیں
اُن کا کہنا تھا کہ سندھ کی جو بڑی شہری آبادیاں ہیں مثلاً کراچی اور حیدرآباد، ان میں ماحولیاتی توازن کے لیے بھی اس پارک کی اہمیت ہے کیونکہ یہاں پر جنگلات موجود ہیں، اور جب ماحولیاتی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہوں تو اس میں اس کا کردار اور بھی بڑھ جاتا ہے
نوید سومرو نے کہا ”ڈرلنگ اور تحقیق کے لیے اجازت دینا ایک غیر قانونی اقدام ہے کیونکہ نیشنل پارک میں کسی بھی قسم کی ترقیاتی سرگرمی غیر قانونی ہے. وہاں کان کنی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، بلکہ وہاں تو سڑک کی تعمیر تک نہیں ہو سکتی۔ ایسی سرگرمیاں وائلڈ لائف کو متاثر کریں گی اور وہ وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔“
خیال رہے کہ کھیرتھر نیشنل پارک تین لاکھ آٹھ ہزار 733 ہیکٹرز پر مشتمل پاکستان کا دوسرا بڑا قومی پارک ہے، جہاں چرند اور پرند کو تحفظ حاصل ہے۔ یہ پارک کراچی سے 80 میل شمال میں کراچی اور جامشورو اضلاع کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے
کراچی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ظہیر خان کی ایک تحقیق کے مطابق کھیرتھر سندھی آئی بیکس، یوریل، چنکارا ہرن، انڈین لومڑی، پنگولین، جنگلی بلیوں، تیندوے، لگڑ بگھوں سمیت ممالیہ جانوروں کی ستائیس دیگر اقسام کا مسکن ہے اور رینگنے والے جانوروں کی مختلف نسلیں اور پرندوں کی کم از کم اٹھاون اقسام یہاں پائی جاتی ہیں
یہ علاقہ چٹانوں، ریتیلے میدانوں پر مشتمل ہے، جہاں پانی کے قدرتی تالاب اور قدرتی چراگاہیں موجود ہیں، بحریہ ٹاؤن کی تعمیر سے قبل یہ جانور اس علاقے میں بھی نظر آتے تھے
کھیرتھر کو سنہ 1974ع میں سندھ محکمہ جنگلی حیات سندھ نے قومی پارک کا درجہ دیا تھا، جو پاکستان کے پہلے پارکوں میں سے ہے۔ سنہ 1975ع میں اس کو اقوام متحدہ کی نیشنل پارکس کی فہرست میں شامل کیا گیا اور سنہ 1997ع میں اقوام متحدہ کی چرند پرند کے محفوظ علاقوں کی فہرست میں بطور قومی پارک اس کی حیثیت کی توثیق کی گئی
کھیرتھر کا علاقہ تاریخی اہمیت کا بھی حامل ہے، جس میں دنیا کے سب سے بڑے قلعوں میں سے ایک رنی کوٹ اور آثار قدیمہ کے مقامات واقع ہیں، جن کے بارے میں ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ 3500 قبل مسیح کے ہیں
کھیرتھر نیشنل پارک سنہ 1991 میں ایک مجوزہ شاہراہ کی تعمیر کی وجہ سے زیر بحث آیا تھا۔ جس پر ’شہری‘ نامی شہری حقوق کی تنظیم سمیت دیگر تنظیموں نے آواز بلند کی، جس کے بعد اس سڑک کا رخ تبدیل کیا گیا
سنہ 1997ع میں وفاقی حکومت نے کھیرتھر میں شیل کمپنی کو گیس کی تلاش اجازت دی تھی، جس کے خلاف شہری تنظیم نے ماحول کے بقا کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے ہمراہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کی اور معاملہ ہائی کورٹ میں پہنچ گیا
’شہری‘ نامی تنظیم کی رضاکار عنبر بھائی بتاتی ہیں کہ مقامی اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے شیل کمپنی کو پیچھے ہٹ جانا پڑا تھا
ان کا کہنا ہے ”یہ پاکستان کا اعلانیہ نیشنل پارک ہے، جس کے تحفظ کے لیے ہم دوبارہ ہر قدم اٹھائیں گے جو پہلے کرتے آئے ہیں، یہاں مائننگ اور ڈرلنگ کی اجازت نہیں دی جاسکتی“