روہڑی اور سکھر کے درمیان دریا ہے ، دو کنارے ہیں ، سندھو جو نہ جانے کتنے لاکھوں برسوں سے بہہ رہا ہے
یہ تب سے رواں دواں ہے جب اس سندھو ماتھری پر انسان بھی نہ تھا۔ نہ جانے کتنے حملہ آور آئے، کتنے مذاہب آئے ، ثقافتیں ،زبانیں آئیں، شہر اجڑے، تہذیبیں آئیں اور برباد ہوئیں ، زبانیں بنیں اور بگڑ گئیں
موہن جو دڑو کے جو لوگ بھاشا بولتے تھے اس کا اسکرپٹ تو مل گیا مگر ہم اسے سمجھ نہیں پاتے۔ یہ وہی روہڑی ہے جو راجا داہر کا آج سے تیرہ سو سال پہلے دارالسلطنت تھا۔ ’’اروڑ‘‘ کے نام سے، جہاں محمد بن قاسم نے اسے شکست دی تھی۔ خود راجا داہر کے بڑے سندھ پر حملہ آور ہوئے تھے، یہ کشمیری تھے۔ جب یہ حاکم تھے تو سندھ کے لوگ بودھ مذہب کی پوجا کرتے تھے، اس سے پہلے سندھ کے لوگ جین مذہب کی پیرو کار تھے
جب محمد بن قاسم کا دور ختم ہوا تو یہاں سومرو گھرانے کی بادشاہت رہی اور اس کے بعد سموں گھرانہ بھی۔ پھر جب ارغون اور ترخان آئے تو ٹھٹھ دارالسلطنت تھا، اکثریت ہندو دھرم کی پیرو کار تھی۔ کلہوڑو گھرانے سے تالپر گھرانے نے بادشاہت چھینی۔ تالپر اہل تشیع تھے اور اکثریت اہل سنت تھی۔ کتنے بڑے زماں و مکاں بیتے، نشیب و فراز آئے، یہ وہی سکھر ہے جو 1922 کو دریا سندھ پر پہلا بیراج دیکھتا ہے
ایک نئی سندھ کی ترتیب رکھی جاتی ہے، لاکھوں ایکڑ زمین کاشت کے لائق بنتی ہے۔ یہ وہی سکھر بیراج ہے جس کی کوکھ سے خوشحالی نکلتی ہے۔ سندھ بمبئی ریذیڈینسی کا حصہ تھا، گورنر لائیڈ تھاجس کے دو شاہکار پروجیکٹ تھے ،ایک تھا بمبئی کے بیچ بڑی پہاڑی کو کاٹ کر تین اطراف سے سمندر سے جڑا ہوا بمبئی جس کے پھیلنے کا کوئی بھی امکان نہ تھا اسے ممکن بنایا ، دوسرا تھا سکھر بیراج جس نے سندھ کی زمینوں کی پیداوار اتنی بڑھا دی کہ گندم ایکسپورٹ ہونے لگی اور اس کے لیے بنایا گیا ویسٹ وہارف کراچی کا سی پورٹ۔ 1940میں سکھر بیراج کی خوشحال سندھ کی کوکھ سے چار بڑے شہر ابھرے تھے
کراچی، حیدرآباد، سکھر اور شکارپور۔ دو شہر شمال میں تھے تو دو مغرب میں، جب سمندری راستے نہ تھے تو تجارت کے راستے شکارپور سے جاتے تھے ، قندھار، سمرقند، بخارا، مزار شریف ، تاشقند ، آذر بائیجان۔ شکارپور کا ذکر تو کارل مارکس نے بھی کیا ہے کہ ہندوستان کے بارہ بڑے تجارتی مراکز میں سے ایک ہے۔ یہ وہی راستے تھے جہاں سے گزر کر ہلاکو خان بغداد پر حملہ آور ہوا تھا۔ یہ وہی راستے ہیں جہاں سے نادر شاہ افشار اپنی فوج کے ساتھ دہلی لوٹے گیا تھا
مگر مجھے بات آج روہڑی کی رہنے والی پوجا کی کرنی ہے۔ قدیم سندھی تھی پوجا ، نسل و شجرہ نسب کے اعتبار سے ۔ پوجا کی عمر بیس سال تھی ۔ یہ ذات کے اعتبار سے اوڈھ تھی۔ یعنی بھیل، کولھی، مینگھواڑ ۔ وہ ہندو روایت سے نچلی ذاتوں والے ٹھہرتے ہیں
تحقیق بتاتی ہے یہ لوگ موہن جو دڑو کے باشندے تھے ۔ نہ جانے کیا ہوا ، ان میں سے کئی ہجرت کر گئے، اب کوئی تیلگو ہے ، کوئی بنگالی ، سنہالی تو کوئی تامل۔ ایسی کئی ہیں جو تھر کی ریگستانوں میں آباد ہیں، راجھستان میں رہتے ہیں ، ان کو بنجارہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی خانہ بدوش بن کے یورپ بھی گئی تھے اور خاص کرکے اسپین میں آباد ہوئے تھے۔ پوجا مجھے پشکن کی طویل نظم Gypsy Girl کی طرح لگی
اس کا چہرہ من کو موہ لینے جیسا تھا ، پوجا بنجارن تھی کہ جیسے خانہ بدوش تھی۔ اس پر نظر پڑ گئی کسی وحشی کی۔ پوجا پورے بازو پہ کلائی تک کنگن پہنتی تھی۔ اس میں کوئی بات تھی، میں نے اس کی تصویر دیکھی اور اپنے فیس بک پر شناخت بناکے یہ تصویر رکھ دی۔ کئی سالوں تک میں پشکن کی نظم ’’بنجارن ‘‘کے سحر میں گرفتار رہا تھا۔ وہ بھی بنجارن تھی جو ماسکو کے شہر کے ایک چوک میں مجمع سے بھرے لوگوں کے درمیان ریچھ کے ساتھ ناچ رہی تھی
کہتے ہیں اس طویل نظم کا بانی پشکن کے لہو میں بھی ایشیائی خون تھا، تبھی تو وہ روسیوں کی طرح گورا چٹا نہ تھا۔ انتالیس سال کی عمر میں مارا گیا مگر اس چھوٹی سی عمر میں وہ شاہکار نظمیں لکھیں کہ روسی زبان کا بے تاج بادشاہ ہے جس طرح سندھ میں بھٹائی ہے، ہند میں کبیر ہے،فارسی میں رومی ہے ،سعدی و جامی ہے
ماسکو کے شہر میں ناچتی بنجارن لڑکی پرآنکھ پڑ گئی تھی ،روسی شہزادے کی، دور محل سے وہ ناچتی بنجارن کو دیکھ رہا تھا۔ وہ مجمعے میں آجاتا ہے اور وہیں کا ہوجاتا ہے۔ رات گئے چپکے سے درختوں کے اور چپکے سے کھڑے اسے دیکھتا رہتا جہاں پر ان بنجاروں نے خیمے لگائے تھے۔ پشکن کی نظم والا یہ ماسکو کا شہزادہ شہری بابو تو تھا مگر میں جب موازنہ کرتا ہوں پشکن کی نظم میں اس قاتل شہزادے کا، اس قاتل واحد بخش لاشاری سے جس نے پوجا کو قتل کیا، محض اس لیے کہ پوجا نے اس سے شادی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ وہ اسے اغوا کرنے ا ٓتا ہے، پوجا نے مزاحمت کی اور قاتل نے پوجا کو وہیں کھڑے کھڑے گولیوں سے بھون ڈالا
میں یہاں موازنہ کرنے نہیں بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ فرض کرلیں، اگر پوجا اغوا ہوجاتی تو کیا ہوتا ؟ یہی ہوتا کہ اس کا مذہب تبدیل کیا جاتا ۔ پھر پروپیگنڈا کیا جاتا کہ وہ خود سے خوشی سے آئی ہے اور سندھ کے کسی وڈیرے یا گدی نشین کی حمایت سامنے آجاتی لیکن پوجا نے مزاحمت کرکے پردہ ہٹادیا ہے، ان سیکڑوں لڑکیوں سے جو اغوا ہوئیں اور یہ پتہ نہ چل سکا وہ خود اپنی مرضی سے گئیں یا کوئی اور ماجرہ تھا
پوجا آج سے چھ سات دن پہلے روہڑی میں اغوا ہونے سے کے لیے مزاحمت پر قتل کردی گئی۔ یہ غریب گھرانے کی لڑکی تھی ۔ بھیل، کولھی، اوڈھ لوگ اپنی عورت کو اپنے برابر سمجھتے ہیں۔ یہ بچیاں اپنے مال مویشی چراتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں، مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرتی ہیں
پوجا کو اس بگڑے ہوئے اور بدقماش فرد نے قتل نہیں کیا بلکہ وڈیرہ شاہی اور مذہبی انتہاپسندی کی سوچ نے قتل کیا کیونکہ قاتل کو پتہ ہے کہ اس ملک میں غریب خصوصاً غیرمسلم مرد یا عورت کو اغوا کرنا یا قتل کرنا کتنا آسان ہے۔ غریب گھر کی لڑکی کو اغوا کرو اور کہو کہ یہ تو مرضی سے خود بھاگی ہے اور جشن منائو کے اس نے مذہب تبدیل کر لیا ہے، جب کہ آج تک ایک بھی ہندو نوجوان لڑکا یا بوڑھی عورت مذہب تبدیل کرتے نظر نہیں آئی، ایسا ہی کیوں ہے کہ صرف نوعمر ہندو لڑکیاں مذہب تبدیل کرتی ہیں؟
ایک سرہندی پیر ہے میرپورخاص میں اور دوسرا بھرچونڈی کا پیر ہے، روہڑی کے قریب جو ایسے اغوا ہوتی لڑکیوں کی شادیاں کراتے ہیں۔ بلاشبہ ہر لڑکی کا حق ہے، بشرطیکہ وہ بالغ اور خود مختار ہے ۔ ناخواندہ ، ناسمجھ نوعمر بچی کے حوالے سے شکوک پیدا ہونا بھی فطری ہے ۔ پوجا کے اس قتل میں ٹوٹے پھوٹے سندھ کی اقدار بھی ملوث ہیں، یہ تو بھٹائی ، بلھا اور باہو کے فکر کی نفی ہے۔ ہمارا پولیس سٹسم بھی طاقتور کا ساتھ دیتا ہے
پوجا کا قاتل بھی دوران تفتیش پولیس کی مدد سے حقائق کو آسانی سے توڑ مروڑ سکتا ہے۔ پوجا کے اس قتل میں، میں خود بھی ملوث ہوں کہ میں اس کے پاس روہڑی چل کے نہیں گیا، ایک وکالت نامہ میں بھی داخل کرتا،وہ میری بیٹی تھی ۔ کب تک اس طرح ہوگا؟ اس ملک سے انتہاپسندی اور ظلم کے سائے اٹھیں گے جو ہمارے رواداری والے سماج کو کھوکھلا کر رہے ہیں
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی,
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی,
پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
(ساحرلدھیانوی)
بشکریہ : ایکسپریس نیوز