کوئٹہ – کوئلے کی کان میں کام کرنے والے تیس سالہ محمد عمر کا کہنا ہے ”اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا زندہ رہنا ایک معجزہ ہے، کیونکہ ہم 1300 فٹ گہرائی میں پھنسے ہوئے تھے اور پانچ دن کچھ کھائے یا پیے بغیر گزر چکے تھے، تو اللہ نے واقعی ہمیں ایک نئی زندگی عطا کی ہے“
انہیں ان کے پانچ ساتھی کان کنوں کے ساتھ منہدم ہونے والی کان سے نکالنے کے بعد کوئٹہ کے سول ہسپتال میں داخل کرایا گیا
یہ چھ افراد 22 مارچ کو ضلع ہرنائی کے علاقے تور گھر میں میتھین گیس کے دھماکے کے بعد کان کے اندر پھنس گئے تھے، تین مزدوروں کو چوبیس گھنٹوں کے اندر بچا لیا گیا جبکہ تین دیگر پانچ دن تک 1300 فٹ کی گہرائی میں پھنسے رہے تھے
دھماکے کے سبب باہر نکلنے کا واحد راستہ ختم ہو گیا تھا کیونکہ کان کے مالک نے انہیں ہنگامی بنیادوں پر باہر نکالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی
انہوں نے کہا ”ہم ایک گہری سیاہ کھائی میں پھنس گئے تھے، جہاں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، کان کا منہ بند ہو گیا تھا اور ہمارے پاس کھانے پینے کو کچھ نہیں تھا“
محمد عمر نے خوشی کے آنسو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ”مجھے نہیں معلوم کہ ہم کیسے سانس لے سکے“
ان کا کہنا تھا ”ہر لمحہ ہمیں موت کے منہ میں لے جا رہا تھا لیکن اللہ نے ہمیں مزید وقت دینے کا فیصلہ کیا، جس کی بدولت امدادی ٹیمیں ہم تک پہنچ سکیں، وہ ہمیں ‘بلیک ہول’ سے زندہ نکالنے میں کامیاب ہو گئے“
کان سے زندہ نکالے گئے کان کنوں میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے، اسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے، ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم بیگ نے امید ظاہر کی کہ ان کی حالت جلد بہتر ہو جائے گی کیونکہ وہ مسلسل نگرانی میں ہیں
چیف انسپکٹر آف مائنز عبدالغنی مشوانی نے بتایا کہ زہریلی میتھین گیس کی وجہ سے ریسکیو ٹیموں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا
انہوں نے کہا کہ ایک پائپ کے ذریعے ہم نے متبادل طریقے سے ان کے لیے آکسیجن کا بندوبست کیا تھا
کان کنوں کے زندہ حالت میں کان سے نکالنے کے لیے چار ٹیموں نے دن رات محنت کی
کان کے مالک نے اس حوالے سے کوئی بھی موقف نہیں دیا
یاد رہے کہ یہ اس مخصوص کان میں پچھلے تین سالوں میں پیش آنے والا دوسرا حادثہ ہے، صوبائی سیکریٹری برائے کان کنی سید ظفر بخاری نے بتایا کہ 2019 میں میتھین گیس کے دھماکے کے بعد کان بند ہو گئی تھی جس میں متعدد افراد کی جانیں گئی تھیں
انہوں نے کہا کہ مالک نے عدالت سے بری ہونے کے بعد کان میں دوبارہ کام شروع کر دیا تھا
بلوچستان تیل و گیس، سونا، چاندی، تانبا، لوہا، ماربل، کرومائیٹ کوئلہ جیسے معدنی وسائل سے مالا مال ہے
صوبے میں کوئلے کی کان کنی تقسیم ہند سے پہلے شروع ہوئی تھی، کوئلے کے سب سے بڑے کھیپ کوئٹہ، مچھ، مارواڑ، ہرنائی اور لورالائی میں ہیں
ان سانحات کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے، گیس کے دھماکے تواتر سے ہوتے رہتے ہیں کیونکہ نہ تو حکام اور نہ ہی مالکان مزدوروں کی حفاظت کے بارے میں کسی قسم کا خیال رکھتے ہیں
2011ع میں پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی جانب سے کوئلہ نکالنے کے لیے ساڑھے چار ہزار فٹ کی گہرائی میں دھماکے کے بعد سورنج میں پی ایم ڈی سی کی زیر ملکیت کان میں کم از کم 43 کان کن ہلاک ہو گئے تھے
سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل سلطان محمد نے کہا کہ کوئلے کی کانوں میں دھماکا خیز مواد کے استعمال کی اجازت نہیں ہے
1892ع میں ہرنائی کے علاقے خوست زردالو میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک کان میں دھماکے کا حکم دیا تھا جس میں چار سو سے زائد مزدور اور انجینئر مارے گئے تھے
ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک سینئر اہلکار پین مین کے بیٹے کی بھی اس دھماکے میں موت ہو گئی تھی
صوبائی سیکریٹری سید ظفر بخاری کے مطابق کوئلہ نکالنے کے لیے مزدوروں کو اندر جانے کی اجازت دینے سے پہلے کان میں میتھین کی موجودگی کی جانچ کرنا لازمی ہے، لیکن مالکان حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد نہیں کرتے
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر حادثات کانوں کے اندر میتھین گیس جمع ہونے کی وجہ سے پیش آئے
گزشتہ چند سالوں میں بلوچستان بھر میں حادثات میں چار سو چوالیس کان کن ہلاک ہو چکے ہیں
مائن ورکرز فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل سلطان محمد نے کہا کہ صرف پچھلے تین ماہ کے دوران انتالیس کان کن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے
انہوں نے الزام لگایا کہ زیادہ تر کانیں غیر قانونی طور پر چلائی جا رہی ہیں لیکن حکام کرپشن کے سبب انہیں بند نہیں کرتے
سلطان محمد نے الزام لگایا کہ زیادہ تر ٹھیکیدار نہ تو فرار کے راستے بناتے ہیں اور نہ ہی وینٹی لیٹر کا نظام فراہم کرتے ہیں
حکام نے کوئلے کی کانوں کی تعداد سولہ سو کے لگ بھگ بتائی ہے جبکہ غیرسرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں کوئلے کی قانونی اور غیر قانونی کانوں کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ ہے
سیکریٹری مائنز اینڈ منرل ڈیولپمنٹ کے مطابق صوبے میں صرف ایک سو ساٹھ کانیں لیز پر دی گئی ہیں، انہوں نے غیر قانونی کانوں کے موجودگی کو تسلیم کیا کیونکہ مالکان اس کے لیے اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں.