کراچی – دنیا کے مشہور اکیڈمی ایوارڈز (جنہیں آسکرز بھی کہا جاتا ہے) امریکی فلمی صنعت سے منسلک ہیں، لیکن اس میں ایک کیٹیگری یا زمرہ ایسا ہے، جہاں دوسرے ملکوں کی فلموں کو بھی سال کی بہترین فلم کے اعزاز سے نوازا جاتا ہے
آج تک پاکستان نے آسکرز کے لیے یہاں بننے والی دس فلمیں بھیجی ہیں۔ شاید یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ آج تک کسی بھی پاکستانی فلم آسکر ایوارڈ جیتنا تو درکنار، نامزد تک نہیں ہو سکی
انگریزی کے علاوہ دوسری زبانوں پر مبنی فلموں کی نامزدگی کیسے ہوتی ہے اور آسکر ایوارڈ دینے کا فیصلہ کون کرتا ہے، اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ 1929ع میں جب اکیڈمی ایوارڈز کا ڈول ڈالا گیا تو اس وقت پہلی بولتی فلم ’دا جاز سنگر‘ کو آئے ہوئے ابھی ایک ہی سال ہوا تھا اور اس وقت بیشتر فلمیں خاموش ہوا کرتی تھیں، اس لیے زبان کی بنیاد پر کسی الگ شعبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا
ٹیکنالوجی کی ترقی سے فلمیں بکثرت مکالموں سے آراستہ ہونے لگیں تو انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں بننے والی فلموں کی پذیرائی کا الگ سے بندوست کرنا پڑا۔ 1947ع سے 1955ع کے دوران غیر منظم انداز سے بغیر تسلسل ایسی فلموں کو خصوصی ایوارڈ دیے گئے۔ اکیڈمی ایوارڈز نے بہت مقبولیت اور اعتبار حاصل کر لیا سو دیگر ممالک کی بڑی تعداد دلچسپی لینے لگی
1956ع میں بیسٹ فارن لینگوئج فلم ایوارڈ کے نام سے الگ کیٹیگری یا زمرے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ذرائع ابلاغ میں تیزی اور گلوبل ولیج کے تصور کے بعد فلم کی عالمی برادری میں ’فارن‘ کا لفظ اپنا جواز کھو چکا تھا۔ 2020ع سے اس کیٹیگری کو اکیڈمی کی جانب سے ’بیسٹ فارن لینگوئج فلم‘ کے بجائے ’بیسٹ انٹرنیشنل فیچر فلم‘ کا نام دے دیا گیا
آخر انٹرنیشنل فیچر فلم کی نامزدگی کا طریقہ کار کیا ہے اور حتمی فیصلہ کون کرتا ہے؟ وقت کے ساتھ ساتھ اس طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لیے مختلف تبدیلیاں کی گئیں۔ ہم تازہ ترین اصول و ضوابط کو پیش نظر رکھیں گے
پہلے مرحلے میں ہر ملک اپنی بہترین فلم اکیڈمی کو بھیجتا ہے، جس کے بارے میں اسے امید ہو کہ یہ آسکر جیت سکتی ہے
ہر سال ایک ملک ایک ہی فلم بھیج سکتا ہے، جس کے انتخاب کا فیصلہ متعلقہ موضوع کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی کرتی ہے
یہ پہلا مرحلہ ہے۔ جب فلم اکیڈمی کو موصول ہو جاتی ہے تو پھر اسے اکیڈمی کی جانب سے رائے شماری کے دو مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں بین الاقوامی فیچر فلم کی ابتدائی کمیٹی تمام ممالک کی بھیجی گئی فلمیں دیکھتی اور خفیہ رائے دہی سے پندرہ فلمیں منتخب کرتی ہیں
پھر یہ پندرہ فلمیں بین الاقوامی فیچر فلم نامزد کرنے والی کمیٹی کے سامنے پیش ہوتی ہیں، جو دیکھنے کے بعد خفیہ رائے دہی سے پانچ بہترین فلموں کا انتخاب کرتی ہے۔ بہترین بین الاقوامی فیچر فلم کا انتخاب اکیڈمی کے مستقل اور فعال ارکان پانچوں نامزد فلمیں دیکھنے کے بعد خفیہ ووٹنگ سے کرتے ہیں
بہترین بین الاقوامی فیچر فلم کا ایوارڈ کوئی پاکستانی تو کیا بھارتی فلم بھی اب تک نہیں جیت سکی۔ البتہ ’مدر انڈیا‘ (1957)، ’سلام بامبے‘ (1988) اور ’لگان‘ (2001) فائنل مرحلے تک ضرور پہنچیں۔ محبوب خان کی ’مدر انڈیا‘ بس ذرا سا چوک گئی۔ ایک ووٹ کے فرق سے نامور اٹالین ہدایت کار فلینی کی فلم ’نائٹس آف کیبیریا‘ (Nights of Cabiria) ایوارڈ لے اڑی۔ اور تو اور، بھارت کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر جانے مانے بنگالی فلم ساز ستیہ جیت رائے کی فلمیں تین بار بھیجنے کے باوجود کبھی حتمی نامزدگی تک نہ پہنچ سکیں، جو حیرت ناک ہے
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو صورت حال اتنی حوصلہ افزا نہیں. اس کیٹیگری کا آغاز ہونے کے محض تین سال بعد 1959ع میں پاکستان نے پہلی فلم بھیجی۔ دوبارہ اچانک 1963ع میں خیال آیا تو ایک فلم پرے اکیڈمی کی طرف دھکیل دی گئی۔ اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور…
پوری نصف صدی کے وقفے کے بعد ایسی زحمت 2013ع میں گوارا کی گئی۔ 1959ع میں پہلی فلم بھیجنے کے بعد سے 2020ع تک اکسٹھ برس کے دوران پاکستان نے کل دس فلمیں بھیجیں۔ خود آگاہی کے ایسے مقام پر شاید ہی کسی اور ملک کا سینیما پہنچ سکا ہو۔ آئیے ان دس فلموں کا ذکر کرتے ہیں، جنہیں پاکستان کی طرف سے بہترین انٹرنیشنل فیچر فلم کے لیے بھیجا گیا
1. جاگو ہوا سویرا (1958)
پاکستان میں آرٹ فلموں کی بنیاد رکھنے والے اے جے کاردار کی یہ فلم پاکستان کی طرف سے آسکر کے لیے پہلی انٹری تھی۔ ستیہ جیت رائے کی سماجی حقیقت نگاری سے متاثر ’جاگو ہوا سویرا‘ کا موضوع بنگلہ دیشی ماہی گیروں کے مسائل تھے
اس فلم کی کہانی، مکالمے اور گیت فیض احمد فیض نے لکھے جبکہ عکس بندی کے فرائض 1965ع میں آسکر جیتنے والے مشہور سینماٹوگرافر والٹر لیسیلی نے انجام دیے تھے
جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، یہ ایک انقلابی فلم تھی اسی لیے ایوب خان کی طرف سے اس کی تشہیر اور نمائش میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ جب لندن میں فلم کی نمائش کا فیصلہ کیا گیا تو حکومت پاکستان نے اپنے ہائی کمشن کو بائیکاٹ کا حکم دیا
ماسکو میں انٹرنیشنل ایوارڈ جیتنے والی اس فلم کے پرنٹ وقت کی دھول میں کھو چکے تھے۔ 2006ع میں اس کے مختلف حصے بازیافت کیے گئے جنہیں 2010ع تک قابل دید حالت میں تیار کر لیا گیا
2. گھونگھٹ (1962)
سنتوش کمار اور نیر سلطانہ کو مرکزی کردار میں لے کر یہ فلم نامور موسیقار خواجہ خورشید انور نے بنائی۔ فلم کی کہانی، اسکرین پلے اور بالخصوص موسیقی میں انتہائی نمایاں مقام حاصل کرنے کے بعد خواجہ صاحب نے پہلی بار اس فلم کی ہدایت کاری کی
آسکر کے لیے نامزد نہ ہو سکنے والی اس فلم کو موسیقی، اداکاری، عکس بندی اور ایڈیٹنگ کے شعبوں میں چار نگار ایوارڈ ملے تھے
3۔ زندہ بھاگ (2013)
یہ فلم غربت کے ہاتھوں تنگ ایسے نوجوانوں کی کہانی ہے جو ڈنکی لگا کر (غیر قانونی طریقے سے) کسی دوسرے ملک پہنچنا چاہتے ہیں۔ پنجابی زبان میں بننے والی اس فلم کی ہدایت کار مینو گوہر اور فرجاد نبی جبکہ پروڈیوسر مظہر زیدی تھے
پاکستان کی طرف سے آسکر نامزدگی کے لیے یہ پچاس سال بھیجی گئی فلم تھی
4. دختر (2014)
کم عمری میں بچیوں کی شادی ہماری معاشرتی روایات میں کوئی نئی بات نہیں۔ البتہ ماضی کی نسبت اکیسویں صدی میں اس موضوع پر کھل کر لکھا، بولا اور دکھایا جا رہا ہے۔ دختر بھی ایک ایسی ہی کہانی پردے پر پیش کرتی ہے۔ قبائلی جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے ایک سردار اپنی بیٹی کو شادی کی شکل میں ’پیش‘ کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ ماں اور بیٹی اس وحشت سے بچنے کے لیے بغاوت کرتے ہوئے گھر سے بھاگ نکلتی ہیں
کہانی میں تھرل برقرار رکھنا کسی بھی ہدایت کار کا کمال ہوتا ہے اور عافیہ نتھینیل اس میں کامیاب رہیں۔ یہ فلم بھی آسکر کے لیے نامزدگی حاصل کرنے میں ناکام رہی
5. مور (2015)
وادی ژوب کے بند ہونے، بلوچستان میں ریلوے سسٹم کے مسائل اور وڈیرہ شاہی کلچر کو پردے پر اتارتے ہوئے جامی کی مور دراصل ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر کی مشکلات پیش کرتی ہے
2015 میں یوم آزادی پر نمائش کے لیے پیش کی جانے والی اس فلم کی خاص بات فرحان حفیظ کی سینماٹوگرافی ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے خوبصورت مناظر اتنے مسحور کن ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے آپ سب کچھ بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ فلم کی کہانی اور کردار بھی۔ یہی اس فلم کی سب سے بڑی کامیابی ہے
لیکن آسکر کمیٹی والے ہماری طرح مناظر میں کھونے سے باز رہے اور انہوں نے اس کی بجائے پلاٹ، اداکاری، کردار نگاری، مکالمے وغیرہ جیسی چھوٹی موٹی چیزوں پر توجہ دے کر اسے نامزدگی سے محروم رکھا
6. ماہ میر (2016)
ہمارے عہد کے عمدہ شاعر اور اپنے ڈھب کے انتہائی دلچسپ آدمی سرمد صہبائی کی تحریر کردہ یہ فلم انجم شہزاد نے ڈائریکٹ کی
یہ ایک ایسے شاعر کی کہانی ہے، جسے میر کی وحشت اپنی جانب کھینچتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ رنگ اس کی اپنی زندگی میں گہرا ہونے لگتا ہے
اس فلم کے مرکزی کرداروں میں فہد مصطفیٰ، ایمان علی، منظر صہبائی اور صنم سعید شامل تھے، جسے فنون لطیفہ سے وابستہ افراد نے خوب سراہا۔ گمان گزرتا ہے کہ آسکر کمیٹی میں اردو جاننے والا کوئی ضرور موجود تھا جس نے سوچا کہ بھلا میر تقی میر جیسے شاعر کی زندگی پر بننے والی فلم میں خود مصنف کی پھیکی مقامی آزاد نظمیں شامل کرنے کی کیا تک بنتی ہے؟ اس لیے آسکر کے لیے بھیجی گئی اس فلم کے ساتھ بھی وہی ہوا، جو دیگر پاکستانی فلم کے ساتھ ہو چکا تھا
7. ساون (2017)
فرحان عالم کی تجسس سے بھرپور فلم ’ساون‘ ایک معذور بچے کی کہانی ہے، جو بلوچستان کے دور دراز علاقے میں زندگی کی جنگ لڑتا ہے۔ فلم میں بچے کا مرکزی کردار بہت جاندار ہے لیکن ذیلی بیانیے اس کی اثر پذیری کم کر دیتے ہیں۔ اگر چوں چوں کا مربہ بنانے کے بجائے مرکزی کردار پر ہی توجہ مرکوز رکھی جاتی تو یقیناً یہ بہت عمدہ فلم ہوتی
اس فلم کا اسکرپٹ مشہود قادری نے لکھا جبکہ عاصمہ قادری کے اشتراک کے ساتھ وہ خود ہی پروڈیوسر بھی تھے۔ سلیم معراج، سید کرم عباس، ٹیپو شریف اور عمران اسلم اس فلم کے ستارے تھے، جنہیں ٹیٹ فلیکس پر جگمگاتے یا ٹمٹماتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سال بھی آسکر منصفین کی طرف سے کوئی اچھی خبر نہیں ملی تھی
8. کیک (2018)
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ ایک ہلکی پھلکی فلم تھی جس کے ہدایات کار اس کے مصنف عاصم عباسی خود تھے۔ صنم سعید، آمنہ شیخ اور عدنان ملک وغیرہ کراچی میں بسنے والے ایک زمیندار گھرانے کے کردار نبھاتے نظر آتے ہیں
اس فلم کی ایک خاص بات کلائمکس سین ہے، جو مسلسل دس منٹ ایک ہی شاٹ میں عکس بند کیا گیا۔ کئی کردار اور کمرے بدلتے ہیں لیکن اس دوران ہدایت کار ’کٹ‘ نہیں کہتا
باکس آفس پر نسبتاً اچھی کمائی کرنے والی اس فلم کو مقامی ناقدین نے سراہا، لیکن آسکر کمیٹی کے کان پر جوں تک نہ رینگی
9. لال کبوتر (2019)
کمال خان کی ہدایت کاری میں بننے والی لال کبوتر کا اسکرین پلے علی عباس نقوی نے لکھا جب کہ پروڈیوسر کامل چیمہ اور ہانیہ چیمہ تھیں۔ منشا پاشا نے عالیہ کا کردار ادا کیا، جو اپنے صحافی شوہر کو اپنے سامنے قتل ہوتا دیکھتی ہے۔ عالیہ کی جدوجہد اپنے مقتول شوہر کو قتل کرنے والے فرد کے گرد گھومتی ہے لیکن اس دوران اس کی ملاقات عدیل سے ہوجاتی ہے
لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا عدیل کسی طرح دبئی جا کر ڈھیر سارا پیسہ کمانا چاہتا ہے۔ اس کردار کے لیے احمد علی اکبر کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا تھا۔ چار لکس اسٹائل ایوارڈ جیتنے والی یہ فلم آسکر کی دوڑ میں تاریخ رقم نہ کر سکی۔
10. زندگی تماشا (2020)
جیسے ہی اس فلم کا ٹریلر یوٹیوب پر آیا شدت پسند طبقے نے آسمان کھڑا کر دیا۔ خادم حسین رضوی نے توہینِ مذہب کے الزامات لگائے، کھلی دھمکیاں دیں اور فلم کی ریلیز تماشا بن گئی
فلم کی کہانی ایک نعت خواں راحت خواجہ کے گرد گھومتی ہے، جس کی ایک وڈیو لیک ہوجاتی ہے اور یہیں سے اس نعت خواں اور اس کے گھروالوں کے لیے پریشانی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ فلم کو پاکستان میں بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جس کے بعد فی الحال پاکستان میں فلم کی ریلیز پر پابندی عائد ہے۔ تاہم فلم ’’زندگی تماشا‘‘ نے جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں منعقد ہونے والے فلم فیسٹیول میں کم جی سیوک ایوارڈ جیتا
لیکن بین الاقوامی فیچر فلم ایوارڈز کی کیٹیگری میں پاکستان کی جانب سے باضابطہ طور پر منتخب کی جانے والی فلم ’’زندگی تماشا‘‘ 93ویں اکیڈمی ایوارڈز کی نامزدگی کی دوڑ سے باہر ہوگئی.