کیلیفورنیا – کیا آپ امریکا جا کر گھومنے کے لیے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کریں گے، جو بالکل عام سی ہو بلکہ ایک فائر اسٹیشن ہو؟
ممکن ہے آپ اس پر کہہ دیں کہ ”پاگل سمجھا ہے کیا!؟“ لیکن امریکی ریاست کیلیفورنیا کے علاقے لیور مور کا ایک فائر اسٹیشن دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے اور اس کی وجہ بہت انوکھی ہے، اور وہ ہے لگ بھگ ایک سو اکیس سال سے مسلسل روشن ایک بلب
جی ہاں، اس عمارت میں ایک بلب 1901ع سے روشن ہے اور یہ اس لیے حیران کن ہے کیونکہ اس طرح کے بلب عموماً بہت زیادہ عرصے تک نہیں چلتے، لیکن اس بلب کو روشن ہوئے 2015ع میں دس لاکھ گھنٹے ہوگئے تھے اور اس کے بعد بھی اب تک متعدد گھنٹے گزر چکے ہیں
صد سالہ (Centennial Light) کے نام سے مشہور یہ بلب گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بھی بن چکا ہے
سان فرانسسکو کے مشرق میں واقع علاقہ لیور مور کا یہ فائر اسٹیشن اس بلب کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں سے بھرا رہتا ہے
سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کی طویل زندگی کسی اسرار سے کم نہیں، جس کو دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ فزکس کا کرشمہ ہے یا اس بات کی نشانی کے نئے بلب کمزور ہوتے ہیں
دنیا کے سب سے طویل عرصے سے روشن اس بلب کو شیلبے الیکٹرک کمپنی نے 1889ع میں تیار کیا تھا، جس کے ڈیزائنر فرنچ الیکٹریکل انجنیئر ایڈولف اے کیلاٹ تھے
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 60 واٹ کا بلب تھا (حقیقی نمبر معلوم نہیں ) لیکن اس وقت یہ 4 واٹس پر کام کررہا ہے اور اسے دنیا بھر میں کہیں بھی ویب کیم پر دیکھا جاسکتا ہے
یہ بلب 1901ع میں لیور مور پاور اینڈ واٹر کمپنی کے مالک ڈینس بیرنل نے فائر ڈیپارٹمنٹ کو عطیہ کیا تھا، جس کے بعد یہ خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا
درحقیقت 1971ع تک اس بلب کو زیادہ شہرت حاصل نہیں تھی اور بہت کم لوگ اس کی طویل زندگی کے بارے میں جانتے تھے، لیکن 1972ع میں لیورمور ہیرالڈ اینڈ نیوز کے ایک رپورٹر مائیک ڈنسٹن نے اس کے بارے میں چھان بین شروع کی
لوگوں کے انٹرویوز کے ذریعے وہ بلب کی 71 سالہ زندگی کو ثابت کرنے میں کامیاب رہا
اس بلب کو عطیہ کرنے والے ڈینس بیرنل کی ایک بیٹی نے رپورٹر کو بتایا ”میرے والد نے 1901ع میں کاروباری اور ذاتی اشیا عطیہ کی تھیں اور ان میں ہی ممکنہ طور پر یہ بلب شامل تھا۔“
اس علاقے کے پرانے رہائشیوں کو یاد تھا کہ جب وہ 1900ع کی دہائی میں فائر اسٹیشن کے پاس سے گزرتے تو وہ اس بلب کو روشن دیکھتے
لیورمور فائر ڈیپارٹمنٹ میں 1905ع میں رضاکار فائر فائٹر کے طور پر کام کرنے والے جان جینسن نے بتایا ”جہاں تک انہیں یاد ہے بلب کی روشنی ہر وقت موجود رہتی تھی ، کیونکہ یہ ایک طرح کی ایمرجنسی لائٹ کے طور پر کام کرتا تھا تاکہ فائرفائٹرز دن کے کسی بھی چیزوں کو دیکھ سکیں گے۔“
ان کے بقول اس بلب کو کبھی بند نہیں کیا جاتا تھا
ایک سو اکیس سال سے یہ بلب مسلسل روشن ہے اور بس چند مواقعوں پر اسے بند کیا گیا
پہلی بار یہ 1906ع میں اس وقت بند ہوا، جب فائر اسٹیشن کو ایک سے دوسری گلی میں منتقل کیا گیا
دوسری بار یہ 1937ع میں ایک ہفتے کے لیے بجھایا گیا، کیونکہ مقامی پراجیکٹ کے تحت فائر اسٹیشن کی تزئین نو کی جارہی تھی
تیسری بار اسے 1976 میں اس لیے بند کیا گیا تھا کہ اسے نو تعمیر شدہ فائر اسٹیشن نمبر 6 میں منتقل کیا جاسکے اور اس دوران وہ بائیس منٹ تک بند رہا
وہاں نصب ہونے کے بعد بھی چند سیکنڈ تک وہ کام نہیں کرسکا، کیونکہ ساکٹ میں اسے ٹھیک طرح نہیں لگایا گیا تھا
آخری بار یہ بلب مئی 2013ع میں بند ہوا، جس کی وجہ بجلی کی فراہمی میں پیدا ہونے والی خرابی تھی اور ایسا علی الصبح ہوا تو فائر اسٹیشن کے عملے کو اس کا علم نہیں تھا
لیکن اس وقت آسٹریلیا کا ایک شخص بلب کو ویب کیم میں دیکھ رہا تھا، جس نے بجلی کی خرابی کا نوٹس لیا اور فائر اسٹیشن کے عملے سے رجوع کرنے کی کوشش کی مگر وہ 9 گھنٹے تک روشن نہیں ہوا
اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے فائرفائٹرز نے پاور سپلائی کو ایک ایکسٹینشن کورڈ کی مدد سے بائی پاس کیا
اس موقع پر وہ وہ بلب عام معمول سے 4 گنا زیادہ روشن ہوگیا، جس سے ڈر ہوا کہ اب یہ فیوز نہ ہوجائے، لیکن آئندہ چند روز کے اندر اس کی روشنی معمول کی سطح پر لوٹ آئی
اس بلب کے حوالے سے یہ سوال اب تک ایک معمہ بنا ہوا ہے کہ یہ 121 سال سے خراب کیوں نہیں ہوا؟ اس کا کوئی واضح جواب نہیں بلکہ یہ کسی اسرار سے کم نہیں، مگر کچھ خیالات ضرور سامنے آئے ہیں، خاص طور پر تین تھیوریز کو زیادہ زیرغور لایا جاتا ہے
ایک خیال تو یہ ہے کہ اس بلب کو بند نہیں کیا جاتا تھا یا بہت کم بند کیا گیا کہ اس کے اندر نصب فلیمنٹ ایک مستحکم شرح سے جل رہا ہے یعنی وہ بار بار نہ تو ٹھنڈا ہوتا ہے اور نہ گرم
دوسرا خیال یہ ہے کہ یہ بس اپنی طرز کا ایک منفرد اتفاق اور ایک پرفیکٹ حادثہ ہے. اس خیال کے مطابق یہ بلب ہاتھ سے تیار کیا گیا، جس کی ساخت، حجم، فلیمنٹ اور دیگر عناصر منفرد ان بلبوں سے مختلف ہیں، جو بڑے پیمانے پر بیک وقت تیار ہوتے ہیں، ان تمام عناصر نے پرفیکٹ حادثے کا کام کیا
تیسرا خیال یہ ہے کہ دنیا میں بلب تیار کرنے والی بڑی کمپنیوں کے نمائندوں نے 23 دسمبر 1924ع کو ملاقات کرکے ایک کارٹل تشکیل دیا، جس نے دنیا کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا، جن کو وہ انفرادی طور پر کنٹرول کرسکیں اور سیلز کوٹہ مقرر کیا تاکہ ہر کمپنی مساوی بنیادوں پر بالادست رہ سکے. انہوں نے لائٹ بلب کی اوسط زندگی کو ایک ہزار گھنٹوں تک محدود کرنے کا فیصلہ بھی کیا تاکہ مصنوعات کی فروخت کا سلسلہ جاری رہے
یہ کارٹل 1930ع کی دہائی میں ختم ہوگیا، جس کی جزوی وجہ حکومتی مداخلت اور منصفانہ تجارتی قوانین تھے جبکہ چھوٹی کمپنیاں بھی سستے بلب فروخت کرکے بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری توڑنے میں کامیاب ہوئیں
ویسے تو اس کارٹل کی زندگی ان کے تیار کردہ بلبوں کی طرح مختصر ثابت ہوئی، مگر اس کے اثرات زیادہ عرصے تک برقرار رہے، ایسے ہی الزامات موجودہ عہد کی کمپنیوں پر لگتے ہیں، جیسے اسمارٹ فون کمپنیوں پر
اب جو بھی کہا جائے مگر صد سالہ بلب ایسے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا، جن کا ماننا ہے کہ کمپنیاں اب بھی مختصر وقت تک کام کرنے والی مصنوعات بنا رہی ہیں تاکہ زیادہ منافع کمایا جاسکے
اب ان میں سے کون سا خیال درست ہے یا ممکن ہے کوئی اور ہی وجہ ہو، مگر یہ بلب ایک سو اکیس سال بعد بھی روشن ہے، جو کہ یقیناً ایک حیران کن بات ہے
2013ع میں بلب کے 9 گھنٹے تک بند رہنے پر اس کا خیال رکھنے والے پریشان ہو گئے تھے اور وہ بغیر کسی حکمت عملی کے اسے الوداع کہنا نہیں چاہتے تھے
درحقیقت انہوں نے تو ”تدفین“ کی مکمل رسومات کی تیاری بھی کر لی تھی اور ایک جگہ اس کی آخری قیام گاہ کا انتظام بھی کیا گیا
اسی طرح بلب کے متعدد متبادل بھی ان لوگوں کے پاس موجود ہیں، جیسے شیلبے ماڈل کے غیر استعمال شدہ بلب موجود ہیں، جو صد سالہ بلب جیسے ہی ہیں اور وقت آنے پر اس کی جگہ لیں گے، لیکن ان تمام منصوبوں پر عمل اسی وقت ہوگا، جب یہ بلب کام کرنا چھوڑ دے گا.