نیو یارک: سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہمارا سیارہ زمین کسی دل کی طرح دھڑکتا ہے, لیکن اس کی ہر دھڑکن تقریباً 27.5 ملین (دو کروڑ پچھتر لاکھ) سال بعد واقع ہوتی ہے
واضح رہے کہ ہم زمین کو اس طرح سے زندہ نہیں کہہ سکتے کہ جیسے جانوروں، پرندوں، درختوں وغیرہ کو زندہ کہا جاتا ہے، لیکن 1972ع میں جیمس لولاک (Lovelock) نامی ایک سائنسدان نے ’’گائیا مفروضہ‘‘ پیش کیا تھا
اس مفروضے کے تحت ان کا کہنا تھا کہ زمین اپنی کئی خصوصیات کے اعتبار سے کسی جاندار کی طرح برتاؤ کرتی ہے۔ تاہم اس مفروضے کو اب تک سائنسی حلقوں نے قبول نہیں کیا ہے
ان ہی خطوط پر تحقیق کرتے ہوئے اب کارنیگی انسٹیٹیوٹ فار سائنس اور نیویارک یونیورسٹی کے ماہرین نے کچھ نئے انکشافات کیے ہیں
انہوں نے زمین کی چھبیس کروڑ سالہ تاریخ کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا ہے کہ ہمارے سیارے پر لگ بھگ ہر دو کروڑ پچھتر لاکھ سال بعد کچھ غیرمعمولی طور پر تباہ کن واقعات بہت تیزی سے رونما ہوتے ہیں جن کی وجہ سے زمین پر بیشتر جاندار صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں
ان واقعات میں بڑی تعداد میں آتش فشاؤں کا پھٹ پڑنا، صرف چند سال کے عرصے میں زمین کے مجموعی موسم کا بہت زیادہ تبدیل ہوجانا اور براعظموں کی تیز رفتار ترتیبِ نو (ری الائنمنٹ) وغیرہ شامل ہیں
اگرچہ ان واقعات کا دورانیہ ہزاروں لاکھوں سال ہوتا ہے لیکن ارضیاتی نقطہ نگاہ سے یہ بہت کم مدت ہے جو کروڑوں سال کے پیمانے پر ایک مختصر دھڑکن قرار دی جاسکتی ہے
پچھلے چھبیس کروڑ سال کے ارضیاتی ریکارڈ میں کم از کم 9 مقامات ایسے ملے ہیں جو مسلسل کئی ہزار سے چند لاکھ سال تک غیرمعمولی اور تباہ کن واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں
ان میں آج سے تقریباً ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ڈائنوسار کے اچانک خاتمے کا واقعہ بھی شامل ہے جو ایک بڑے شہابِ ثاقت کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں ہوا تھا
ماہرین نے یہ تو دریافت کرلیا ہے کہ ہمارے سیارے پر تقریباً پونے تین کروڑ سال کے وقفے سے کچھ غیرمعمولی واقعات ہوتے ہیں جنہیں ہم زمین کی ’’دھڑکن‘‘ کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ بات اب تک وہ نہیں جان سکے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے، کیسے ہوتا ہے اور اس سب کے پسِ پشت کیا نظام کارفرما ہے؟
ریسرچ جرنل ’’جیوسائنس فرنٹیئرز‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق نے زمین پر جاری مختلف نظاموں کے بارے میں نئے سوالات پیدا کردیئے ہیں
اسی کے ساتھ پچاس سال پرانے ’’گائیا مفروضے‘‘ پر بحث بھی ایک بار پھر تازہ ہوگئی ہے
البتہ، اطمینان کی بات یہ ہے کہ زمین کی اگلی دھڑکن میں اس وقت لگ بھگ دو کروڑ سال باقی ہیں، لہٰذا اگر آنے والے چند برسوں میں زمین پر کوئی تباہی پھیلتی ہے تو اس کی مکمل ذمہ داری یہاں رہنے والے انسانوں پر عائد ہوگی.