میڈیکل سائنس کی دنیا میں ایک انقلابی پیش رفت سامنے آئی ہے اور طب کی دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے. ایک اہم سائنسی رپورٹ کے مطابق اب دوائیں مریض کے ڈی این اے کے مطابق استعمال ہونگی
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ چند ادویات کا استعمال کسی کے لیے غیر مؤثر تو کسی کے لیے مہلک ہوتا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم سب کے جسم ایک طرح کام نہیں کرتے اور ان میں انتہائی باریک فرق ہوتا ہے
برٹش فارماکولوجیکل سوسائٹی اور رائل کالج آف فزیشن کا کہنا ہے ”جینیاتی ٹیسٹ کرنے سے ہم اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کوئی دوا کسی ایک انسان پر کیسے اثر کرے گی۔ یہ جینیاتی ٹیسٹ اگلے برس سے برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے پاس میسر ہوں گے“
کسی بھی انسان کا ڈی این اے یا جنیاتی کوڈ اس کے جسم کے متعلق ایک بنیادی اور مکمل معلومات پر مشتمل کتابچے کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسانی جسم کام کیسے کرتا ہے۔ ادویات کے ڈی این اے کے مطابق استعمال کرنے کو فارماکوجینومکس کا نام دیا گیا ہے
علاج کے اس طریقے سے لیورپول سے تعلق رکھنے والی جین برنز کو صحت یابی میں مدد ملی، جن کی جلد کا دو تہائی حصہ مرگی کے مرض کے لیے استعمال کرنے والی دوا کے مہلک اثرات سے خراب ہو گیا تھا
جین برنز جب اُنیس برس کی تھیں تو انہیں مرگی کے علاج میں استعمال ہونے والی دوا کاربامازمین کا استعمال شروع کروایا گیا۔ استعمال کے دو ہفتوں بعد انہیں جلد پر ریش ہوئے اور جب انہیں بخار ہونا شروع ہوا تو ان کے والدین انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ جلد پر زخموں کے باعث اگلے ہی دن ان کی جلد متاثر ہونا شروع ہو گئی
جین نے بتایا ”مجھے یاد ہے کہ جب میں نیند سے جاگی تو میرے ساری جلد پر چھالے تھے، یہ کسی ڈراؤنی فلم جیسا تھا، مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میں جل رہی ہوں“
مرگی کے مرض کی دوا کی وجہ سے وہ اسٹیونز جانسن سنڈروم کا شکار ہو گئی تھی جس نے ان کی جلد کو متاثر کیا، یہ زیادہ تر ان افراد میں ہوتا ہے جو پیدائشی طور پر ایک خاص قسم کے جینیاتی جنوم کے حامل ہوتے ہیں
مسز برنز خود کو بہت زیادہ خوش قسمت سمجھتی اور وہ فارماکوجینومک ٹیسٹ کی حمایت کرتی ہیں. ان کا کہنا ہے”اگر یہ آپ کی جان بچائے تو یہ زبردست ہے“
جین کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ شاید آپ کو عجیب اور بہت ہی کم پیش آنے والا لگے لیکن برٹش فارماکولوجیکل سوسائٹی کے منتخب صدر پروفیسر مارک کالیفیلڈ کا کہنا ہے ”99.5 فیصد افراد کے جنیاتی کوڈ یا ڈی این اے میں کوئی ایسا جنوم ہوتا ہے کہ اگر ہم غلط دوا استعمال کریں تو یا تو وہ غیر مؤثر ہوتی ہے یا نقصان پہنچاتی ہے“
برطانیہ میں پچاس لاکھ سے زائد افراد کو کوڈین نامی دوا سے درد میں کمی نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان کے ڈی این اے یا جنیاتی کوڈ میں وہ ہدایات شامل نہیں ہیں، جو کوڈین نامی دوا کو مارفین میں تبدیل کریں اور مریضوں کو درد سے نجات دلائیں، اس لیے یہ دوا ان کے لیے بیکار ہے
اسی طرح سائنسدانوں کے مطابق پانچ سو افراد میں سے ایک شخص ایسا ہوتا ہے، جس کے جینیاتی کوڈ یا ڈی این اے کے مطابق اگر وہ جینٹامائسین انٹی بائیوٹک استعمال کرے تو اس کے سماعت سے محروم ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے
واضح رہے کہ فارماکوجنومک کا استعمال پہلے سے چند ادویات کے لیے کیا جاتا ہے
ماضی میں ایچ آئی وی سے متاثرہ پانچ سے سات فیصد افراد کے لیے اس مرض کی ایک دوا اباکاور کے نقصاندہ اثرات سامنے آئے تھے اور ان میں سے چند ہلاک بھی ہو گئے تھے۔ اگر اب دوا تجویز کرنے سے قبل کسی مریض کے ڈی این اے کا تجزیہ کر لیا جائے تو دوا کے غیر مؤثر اور نقصاندہ ہونے کا خطرہ صفر ہو جاتا ہے
سائنسدانوں نے برطانیہ میں سب سے زیادہ تجویز کیے جانے والے ایک سو نسخے دیکھے۔ ان کی رپورٹ کے مطابق ان کے پاس پہلے ہی ایسی ٹیکنالوجی ہے کہ وہ ان میں سے چالیس نسخے لوگوں کی انفرادی ضروریات کے مطابق ڈھال سکیں
یہ جینیاتی تجزیہ ایک سو پاؤنڈ میں کیا جا سکتا ہے اور یہ ٹیسٹ خون یا لعاب کے نمونے کے ذریعے کیا جائے گا
ابتدائی طور پر ان کا خیال ہے کہ یہ ٹیسٹ ان چالیس ادویات میں سے کسی ایک کے تجویز کیے جانے پر ہوگا۔ جبکہ خیال ہے کہ مستقبل میں یہ ٹیسٹ کسی بھی بچے کی پیدائش کے وقت ہی کیا جائے اور یا پھر یہ معائنہ پچاس سال کی عمر میں روٹین چیک کا حصہ ہو گا
یونیورسٹی آف لیورپول کے پروفیسر سر منیر پیر محمد کا کہنا ہے کہ ‘ایک دوا سب کے لیے’ کی سوچ سے آگے بڑھنا ہو گا تاکہ ہم ہر انسان کے مطابق دوا تجویز کر سکیں اور مریضوں کو درست نوعیت کی دوا فراہم کی جا سکے
ان کا کہنا ہے ”دراصل ہم جو کرنے جا رہے ہیں، وہ طب کی دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہے، کیونکہ ہم سب مختلف ہیں اور مختلف طریقے سے ادویات ہم پر اثر کرتی ہیں“
منیر پیر محمد کہتے ہیں ”جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، ویسے ویسے ہمیں زیادہ دوائیاں استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ اور ستر فیصد امکان ہے کہ جب تک آپ ستر برس کی عمر کو پہنچیں گے تو کم سے کم ایک ایسی دوا ضرور ہوگی جو ہمارے انفرادی ڈی این اے کے مطابق ہوگی“
نیشنل ہیلتھ سروسز انگلینڈ کے چیئرمین لارڈ ڈیوڈ پرائر اس پیش رفت کو طب کی دنیا میں ایک انقلاب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ”فارماکوجنومک ہی مستقبل ہے اور یہ اب ہمیں سنہ 2022ع میں صحت کا ایک نیا اور ہر فرد کی ضرورت کے مطابق ڈھلا ہوا جدید نظام فراہم کرنے میں مدد دے سکتا ہے“