دو سر اور تین ہاتھوں والے بچے پیدا ہونے کی وجہ کیا ہے، کیا علاج ممکن ہے؟

ویب ڈیسک

رتلام – حال ہی میں بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے رتلام ضلع میں ایک خاتون نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا ہے، جس کے دو سر اور تین ہاتھ ہیں. بچے کے جسم میں ایک قسم کی ڈیفارمیٹی یا نقص ہے اور اس بچے کی حالت کے بارے میں بحث ہو رہی ہے

بچوں میں اعضا سے متعلق نقائص کے بارے میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ نوزائیدہ بچوں کے جسم میں نقائص کیوں پیدا ہوتے ہیں اور کیا ان کا علاج ممکن ہے؟

رتلام کے اس بچے کے بارے میں بات کی جائے تو ڈاکٹروں کے مطابق اسے ’پیراپیگس ڈائیففلس‘ کہا جاتا ہے، جو نامکمل جڑواں پن کی انتہائی کمزور قسم ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ اس بیماری کی اور بھی کئی قسمیں ہیں

بھارت کے شہر اندور کے ایم وائی ہسپتال کے ڈاکٹر برجیش کمار لاہوتی کا کہنا ہے کہ ’جسم کے ان نقائص کو ’مینوفیکچرنگ ڈیفیکٹس‘ کہا جا سکتا ہے

بچوں کی سرجری کے شعبہ کے سربراہڈاکٹر برجیش کمار لاہوتی کا کہنا ہے ”جب بچے ابتدائی چند ہفتوں میں نشوونما پاتے ہیں تو اسی وقت ان میں کچھ نقائص پیدا ہو سکتے ہیں“

انہوں نے وضاحت کی کہ ’مصنوعی خرابیاں جسم کے کسی بھی حصے میں ہو سکتی ہیں دماغ، دل، جگر، گردے، بازو یا ٹانگوں میں بھی۔‘

ڈاکٹر پرویندر ایس نارنگ میکس ہسپتال میں ماہر اطفال ہیں۔ وہ اس بات کو چند مثالوں کی مدد سے سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں ”بعض اوقات کچھ لوگوں کی پانچ کے بجائے چھ انگلیاں ہو سکتی ہیں یا کچھ کے چہرے پر نشان بھی ہو سکتے ہیں۔ کچھ نقائص ایسے ہوتے ہیں، جو بہت کم ہوتے ہیں، جیسے تین سے پانچ ہزار کیسز میں ایک کیس ہوتا ہے، جس میں نوزائیدہ بچے کے جسم میں کچھ خرابی پیدا ہوتی ہے“

اس بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے رتلام کے بچے کی مثال بھی دی

ڈاکٹر برجیش کا کہنا ہے ”بچوں میں یہ بہت عام ہے۔ اگر ہم پیدائشی نقائص کی بات کریں تو بھارت میں دو سے تین فیصد لوگوں میں یہ نقائص ہیں اور تقریباً پانچ سے چھ فیصد جان لیوا ہوتی ہیں“

ان کا کہنا تھا ”کچھ خرابیاں ایسی ہوتی ہیں، جو پیدائش کے وقت معلوم نہیں ہوتیں اور بعد میں سامنے آتی ہیں۔ نقص جتنے شدید ہوتے ہیں اتنی دیر میں ان کا پتہ چل جاتا ہے“

جسم میں نقائص کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ کے سوال پر ڈاکٹر برجیش کا خیال ہے کہ ان جسمانی نقائص کےحوالے سے اکثر لوگوں میں کچھ وہم ہوتے ہیں لیکن ان کے خیال میں اس غلط فہمیوں کو تعلیم و بیداری کی مدد سے ہی دور کیا جا سکتا ہے. پیدائشی نقائص جینیاتی وجوہات سب سے زیادہ اہم ہوتی ہی۔ ہمارے جینز یا جینز میں ہونے والے تغیرات کا اس میں بڑا ہاتھ ہے۔ کچھ نقائص موروثی ہوتے ہیں، یعنی خاندان میں رونما ہوتے رہتے ہیں اور کچھ خرابیاں پہلی بار میوٹیشن کی وجہ سے ہوتی ہیں“

مثال کے طور پر ڈاکٹر برجیش بتاتے ہیں کہ ’کچھ بچوں کے کھانے کا پائپ ونڈ پائپ سے جڑا ہوتا ہے اور کچھ بچوں میں پاخانہ نکلنے کا راستہ بھی نہیں بن پاتا۔“

جسمانی نقائص کا پتہ لگانے کے طریقے کے بارے میں ڈاکٹر برجیش بتاتے ہیں کہ حمل کے پہلے سولہ سے طیس ہفتوں یعنی چار سے پانچ ماہ میں کچھ پیدائشی نقائص کا پتہ لگایا جا سکتا ہے اور ایسا سونوگرافی کی مدد سے ممکن ہے

انھوں نے کہا ”جب سونوگرافی میں خرابی کا پتہ چلتا ہے تو ہم اس کی مزید تحقیقات کرتے ہیں اور ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا یہ بچہ زندہ رہے گا یا نہیں“

ڈاکٹر برجیش کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ جگہوں پر ٹیسٹ کے لیے سہولیات یا ٹیسٹ کے لیے آلات نہیں ہوتے۔ اگر دور دراز علاقوں پر تعلیم اور اچھی سونوگرافی یا ٹیسٹ کی سہولت فراہم کی جائیں تو اس طرح کے کیسز کم ہو سکتے ہیں

انھوں نے کہا ”بچوں میں دل کی بیماریاں پائی جاتی ہیں۔ بعض اوقات پاؤں میں کلب فٹ ہوتا ہے یعنی پاؤں ٹیڑھے ہو جاتے ہیں۔ بھارت میں بچوں میں ایک بہت عام خرابی ہے جس میں بچوں کی ریڑھ کی ہڈی کی نشوونما نہیں ہوتی۔“

اس کے علاج کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر برجیش بتاتے ہیں ”ایسا نہیں ہے کہ تمام بچے پیدائشی خرابی کی وجہ سے مرتے ہیں۔ کچھ نقائص کا علاج منصوبہ بند طریقے سے کیا جا سکتا ہے اور بعض صورتوں میں ہنگامی آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ 90 فیصد نقائص کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ بہت سی خرابیوں کا علاج سرجری سے کیا جا سکتا ہے“

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ’اگر نومولود بچوں کی شرح اموات کو دیکھا جائے تو سات فیصد بچے ان خرابیوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔‘

ڈاکٹر پرویندر کا کہنا ہے کہ ہر جسمانی نقص کا علاج مختلف ہوتا ہے۔ اگر صرف تھائرائڈ کی کمی ہے تو اس کا علاج زیادہ مہنگا نہیں ہے۔ دوسری طرف، اگر آپ کو دل کے چیمبر کا آپریشن کرنا پڑتا ہے، تو علاج مہنگا ہوسکتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا ”اب ان نقائص کا علاج بڑے ہسپتالوں میں ہوتا ہے لیکن علاج کے اخراجات کا انحصار بیماری پر ہوتا ہے۔“

ڈاکٹر پرویندر بتاتے ہیں کہ حمل سے پہلے بھی خواتین کو اپنا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے جسم میں کن چیزوں کی کمی ہے

انہوں نے کہا ”یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ ماں فولک ایسڈ اور وٹامنز صحیح وقت پر لیتی یا نہیں ہے؟ ایسا کرنے سے بچوں میں دل اور ریڑھ کی ہڈی سے متعلق خرابی کم ہوتی ہے“

ڈاکٹر برجیش بتاتے ہیں ”کسی حد تک خواتین میں فولک ایسڈ کی کمی کو سپلیمنٹس کی مدد سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے. جس طرح آیوڈین کی کمی کو نمک میں آیوڈین ملا کر ٹھیک کیا جاتا ہے اسی طرح فولک ایسڈ کی سپلیمنٹیشن بھی شروع کی جائے تاکہ ان خرابیوں کو کافی حد تک کم کیا جا سکے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close