آٹزم کیا ہے؟ کیا آپ نے دنیا کو کبھی آٹسٹ کی نظروں سے دیکھا ہے؟

کراچی – آٹزم کے شکار افراد کو عموماً دیگر انسانوں سے بالکل مختلف انسانی گروپ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ اس لیے غلط ہے کہ آٹسٹ انسانوں میں بس چند ایسی مخصوص اور طے شدہ عمومی خصوصیات نہیں ہوتیں، جو ہر آٹسٹ میں پائی جاتی ہوں

ہر سال 2 اپریل کو آٹزم کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ان غیر آٹسٹ انسانوں سے، جنہیں عرف عام میں ‘نارمل‘ انسان کہا جاتا ہے، یہ پوچھا جانا چاہیے کہ آیا انہوں نے کبھی دنیا کو کسی آٹسٹ کی نگاہوں سے دیکھنے کی کوئی کوشش کی ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک عام انسانی رویہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی فرد کی کسی مخصوص جسمانی یا ذہنی حالت کو اس کی معذوری قرار دے کر اکثر یوں دیکھا اور بیان کیا جاتا ہے کہ وہ معذوری متعلقہ انسان کی پہچان بنا دی جاتی ہے۔ اس عمل میں معذوری کو آگے رکھا جاتا ہے اور انسان کی صلاحیت کو پیچھے، حالانکہ ہونا اس کے الٹ چاہیے

آٹزم روایتی معنوں میں کوئی بیماری نہیں اور نہ ہی اس کا ’’علاج‘‘ موجود ہے۔ البتہ ان افراد کی صورت حال میں بہتری لائی جا سکتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ بہتر طور پر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں

آٹزم کیا ہے؟

نفسیاتی ماہرین کے مطابق آٹزم ایک پیچیدہ بیماری ہے جو عام طور پر بچپن میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایک انسان کی معاشرتی زندگی، تعلقات اور اظہار خیال کی اہلیت کو متاثر کرکے اس پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوتی ہے

آٹزم سے متاثرہ شخص میں ایسے رویے پائے جاتے ہیں جو معاشرتی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہوتے۔ طبی ماہرین کے مطابق اس بیماری کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے سے پورا جسم متاثر ہونے کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کے شکار بچوں کو اضطراب، ڈپریشن اور نیند کی کمی کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔

آٹزم پر بین الاقوامی ریسرچ یہ بھی کہتی ہے کہ اس نفسیاتی بیماری سے متاثرہ ایک تہائی بچوں کو مرگی کے دورے بھی پڑتے ہیں۔

آٹزم کی علامات کیا ہیں؟

نفسیاتی ماہرین کے مطابق آٹزم کی علامات میں سینکڑوں قسم کے رویے شامل ہیں، تاہم یہ رویے مائلڈ اور شدید دو طرح کے ہوتے ہیں

بین الاقوامی ادارے نیشنل آٹزم ایسوسی ایشن کے مطابق آٹزم کے شکار بچے سماجی لحاظ سے نارمل بچوں سے مختلف ہوتے ہیں

اس بیماری میں مبتلا کچھ بچے ایک یا دو سال کی عمر سے پہلے معمول کے مطابق دکھائی دیتے ہیں لیکن بعد کے سالوں میں ان کے رویوں میں اچانک تبدیلی رونما ہونا شروع ہوجاتی ہے

اگر کوئی بچہ آٹزم سے متاثر ہے تو اسے مندرجہ ذیل تین مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے

• بول چال میں دشواری (یا تو بالکل بول نہیں سکنا، یہ ٹوٹے پھوٹے اور بے ربط الفاظ میں مدعا بیان کرنا)

• لوگوں سے میل ملاپ میں جھجھک اور لوگوں سے نظریں چار کرنے سے پر ہیز کرنا

• اپنے رویہ اور خیالات کے اظہار میں دشواری محسوس کرنا

• آٹزم کی علامات
کچھ علامات جو آٹزم سے متاثر بچوں میں نظر آتی ہیں مندرجہ ذیل ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آٹزم سے متاثر بچہ:

• بالکل بول نہ سکتا ہو یا اتنی اچھی طرح اور اس روانی سے بات نہ کر سکتا ہے جتنی روانی سے اس کے ہم عمر بچے کرسکتے ہوں

• اپنے اطراف میں موجود لوگوں کی موجودگی کے احساس سے محروم ہو

• لوگوں سے نظریں چار کرنے سے کتراتا ہو

• کچھ آلات یا اشیا مثلاً بجلی کے سوئچ، پنکھے اور گھومنے والے پرزے یا کھلوں کے ساتھ غیر معمولی لگاؤ

• کھیلتے وقت کسی فرضی کردار سے باہمی عدمِ تعاون

• دیگر بچوں کے ساتھ کھیل کود میں نہ تو خود شریک ہونا اور نہ ہی انہیں اپنے کھیل میں شریک کرنا

• کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی نہ تو کوشش کرنا اور نہ ہی چیزوں کی طرف اشارہ کرنا

• بار بار اپنے ہاتھوں اور انگلیوں سے غیر معمولی حرکات کامظاہرہ کرنا

• کسی سنی ہوئی بات یا جملے کو بے وجہ دہراتے رہنا

• کسی خاص آواز یا خوشبو پر ردِ عمل کا اظہار کرنا

• بہت سے ذائقوں کو نا پسند کرنا

• خود اپنی حفاظت نہ کرسکنا، نہ تو اپنے کام خود کر سکنا اور نہ ہی کسی سے مدد مانگنا

• گرمی اور سردی کے احساس سے عاری ہونا

• معمول کے خلاف کسی بھی بات پر ناخوشی کا اظہار کرنا

آٹزم میں طبیعت میں جارحانہ پن، نام سے پکارے جانے پر جواب نہ دینا، ہر وقت کی بے چینی اور خوف، بہت ہی ظالم یا بہت ہی نرم دل ہونا، توجہ دینے میں دشواری، بات کرتے وقت آنکھیں چرانا، ذرا سی بات پر پریشان ہو جانا اور اپنا مطلب سمجھانے یا بات کا اظہار کرنے میں دشواری جیسی علامات شامل ہوتی ہیں

آٹزم سے متاثر بچے بعض غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل بھی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ان کی یادداشت بہت اچھی ہو سکتی ہے، وہ حساب یا ریاضی میں مہارت رکھ سکتے ہیں یا گانے بجانے اور موسیقی کے آلات استعمال کرنے میں اپنے ہم عمر بچوں سے بہت زیادہ بہتر صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکتے ہیں

آٹزم کے شکار افراد پیدائشی آٹسٹ ہوتے ہیں

آٹزم ایک ایسی جسمانی اور ذہنی حالت کا نام ہے، جس میں کسی بھی متاثرہ فرد کی نشو ونما کا عمل گہرے اثرات کے حامل خلل کا شکار ہو کر معمول سے مختلف ہوتا ہے۔ لیکن کوئی انسان پیدائش کے بعد اپنے حالات زندگی کی وجہ سے آٹسٹ نہیں بنتا بلکہ اس کی یہ حالت ہمیشہ پیدائشی ہوتی ہے۔ اپنی اس حالت سے خود آٹسٹ انسان بھی واقف ہوتے ہیں اور جب وہ اپنی اس حالت کو بیان کرتے ہیں تو بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں

رِکی سیہرر ایک ایسی چوالیس سالہ خاتون ہیں، جو آٹسٹ ہیں۔ وہ خود بھی یہ طبی حقیقت جانتی ہیں اور اس کی وضاحت بھی کرتی ہیں کہ آٹسٹ انسانوں کا دماغ غیر آٹسٹ انسانوں کے دماغ کے مقابلے میں مختلف طریقے سے کام کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ”میری رائے میں تو ساری بات صرف اتنی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد رونما ہونے والے حالات و واقعات کا ادراک کیسے کرتے ہیں اور کوئی آٹسٹ انسان انہی واقعات کو کیسے دیکھتا یا فلٹر کرتا ہے‘‘

آٹسٹ غیر آٹسٹ انسانوں سے مختلف کیسے؟

زیادہ تر آٹسٹ افراد اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات کو اس طرح فلٹر کر کے نہیں سمجھ سکتے، جیسے کہ غیر آٹسٹ انسان۔ کسی عام انسان کے دماغ میں ہر ایک سیکنڈ میں تقریباﹰ 11 ملین حسیاتی شبیہات یا تاثرات اپنی جگہ بناتے ہیں۔ ان میں سے ہم صرف 40 سینسری امیجز کو ہی پوری طرح سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں

عام انسان اپنی حسیات کے ذریعے جو کچھ بھی محسوس کرتے ہیں، وہ پورے کا پورا ہی ادراک اور افہام کے عمل کے لیے دماغ کو نہیں بھیجا جاتا۔ اس لیے کہ انسانی دماغ ایسا تو بنایا ہی نہیں گیا کہ جو کچھ بھی روزمرہ کی زندگی میں دیکھا، سنا یا محسوس کیا جائے، یا جو بھی معلومات حاصل ہوں، وہ سب کی سب دماغ میں علیحدہ علیحدہ کر کے باقاعدہ پروسیس کی جائیں

ہر انسان کا دماغ اسے ملنے والی معلومات کو چھلنی کرتا ہے۔ آٹسٹ انسان، مثلاﹰ رِکی سیہرر، بھی یہی کرتے ہیں، مگر آٹزم کے باعث اپنے طریقے سے۔ وہ کہتی ہیں، ”میں جو کچھ دیکھتی، سنتی یا محسوس کرتی ہوں، وہ اپنی مکمل حالت میں مجھ تک پہنچتا ہے۔ مجھے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے خود کو مطمئن رکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ایسی بہت سی معلومات اور ان کے عمل انگیز اثرات کا مطلب ہوتا ہے مستقل ذہنی دباؤ۔‘‘

کسی بھی عمل یا احساس کے ‘بہت زیادہ‘ سے بچنے کی کوشش

آٹسٹ انسان اپنے دماغ پر اثر انداز ہونے اور بے چین یا مشتعل کر دینے والے اسباب پر مختلف ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ جب ان کے لیے کوئی بھی صورت حال بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا سبب بننے لگے، تو وہ اس سے نکلنے اور اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کے لیے کسی بھی عمل، احساس یا تجربے کا ‘بہت زیادہ‘ ہو جانا باعث تکلیف ہوتا ہے

اسی ‘بہت زیادہ’ عمل یا تجربے کی ایک مثال روشنی بھی ہے۔ آٹسٹ انسانوں کو بہت تیز روشنی بے چین اور مشتعل کر دیتی ہے۔ رِکی سیہرر اس کا حل یہ نکالتی ہیں کہ وہ گھر سے باہر جانتے ہوئے روشنی کے ساتھ براہ راست بصری رابطے سے بچنے کے لیے دھوپ کا چشمہ لگا لیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ”میں جب گاڑی میں ہوتی ہوں، تو گاڑی میں لگا دھوپ سے بچاؤ کا فولڈنگ کور اپنی آنکھوں کے آگے کر لیتی ہوں۔‘‘

دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا

آٹسٹ انسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتے۔ ایسا ہوتا ہے مگر ہر آٹسٹ کے ساتھ نہیں۔ ایسے کچھ انسان دوسروں کے ساتھ نظریں ملانے سے کتراتے ہیں مگر بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں، جو بات کرتے ہوئے دوسروں کو اتنی توجہ سے دیکھتے ہیں کہ جیسے انہیں گھور رہے ہوں۔ تاہم ان کا یہ تقریباً گھورنا بھی دوسرے انسانوں کے گھورنے کے عمل سے کچھ مختلف ہوتا ہے

شور کے حوالے سے انتہائی حساس

ہر کوئی نہیں لیکن بہت سے آٹسٹ انسانوں کے لیے بہت زیادہ شور بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ وہ بہت اونچی اور شور کے زمرے میں آنے والی آوازوں کے حوالے سے انتہائی حساس ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے دماغ پر پڑنے والے بہت زیادہ بوجھ سے بچنے کے لیے شور سے بچاؤ کی کوشش کرتے ہیں

آٹسٹ انسان کسی بہت پرسکون ماحول میں بھی جذباتی طور پر بہت بے چین اور مشتعل ہو سکتے ہیں

ایک اہم بات یہ بھی کہ اگر کوئی ان سے اونچی آواز میں بات کر رہا ہو اور پس منظر میں دوسری آوازوں کا شور بھی زیادہ ہو، تو ان کے لیے اپنے شریک گفتگو انسان کی آواز اور پس منظر سے آنے والے شور میں تفریق کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ آوازوں کو ذہنی طور پر فلٹر نہ کر سکنے کی وجہ سے چڑچڑے اور پھر مشتعل ہو جاتے ہیں کیونکہ سب آوازوں کا مل کر ‘بہت زیادہ’ ہو جانا ان کے ذہن میں انتشار پیدا کر دیتا ہے

رِکی سیہرر کہتی ہیں ”بہت زیادہ شور سے تحفظ کا ایک طریقہ ہیڈ فون کا استعمال بھی ہے۔ اس سے پہلے کہ کئی طرح کا شور آپ کو بے چین کرے، آپ اس شور کو راستے ہی میں روک دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہلکی آواز میں کوئی موسیقی لگا کر اسے ہیڈ فون کے ذریعے سننے سے بھی شور کا مقابلہ ایک مختلف طرح کے اور یکساں نوعیت کے شور کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے“

آٹسٹ انسانوں کے جذبات

آٹسٹ انسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت جذباتی ہوتے ہیں اور ان میں چیزوں کو محسوس کرنے کا عمل بہت شدید ہوتا ہے۔ رِکی سیہرر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں، ”آٹسٹ انسانوں میں ان کے اپنے جذبات بھی دوسروں کی نسبت کم نہیں بلکہ زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کے لیے بہت زیادہ محسوس کرنے کا عمل بذات خود بے چینی اور اشتعال کی وجہ بن سکتا ہے۔ لیکن کئی ایسے آٹسٹ افراد بھی ہوتے ہیں، جو یہ بھی صحیح طرح نہیں جانتے ہوتے کہ وہ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے جذبات اور محسوسات کو سمجھ کر ان کی چھانٹی اور پھر ان کا ادراک کر سکیں۔‘‘

رِکی سیہرر کا کہنا ہے ”آٹسٹ انسان تو زیادہ تر خود کو انہی کوششوں میں مصروف رکھتے ہیں کہ کس طرح ان کا رویہ، اٹھنا بیٹھنا اور سماجی برتاؤ بھی ویسے ہی ہوں، جیسے کہ غیر آٹسٹ افراد کے۔ ان کی بہت زیادہ توانائی تو یہی کوششیں لے جاتی ہیں۔‘‘

آٹزم کے شکار افراد کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ آٹسٹ انسانوں کو کم تر، بیمار یا معذور سمجھنے کے بجائے انہیں وہی عزت، احترام اور توجہ دی جائے، جو ان کا حق ہے اور جو بطور حق دوسرے غیر آٹسٹ انسانوں کے حق سے مختلف یا کم نہیں ہے

ایک اچھا اور مؤثر طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آٹزم کو سمجھنے کے لیے غیر آٹسٹ انسان اپنے ارد گرد کی دنیا کو کبھی کبھی آٹسٹ انسانوں کی نظروں سے دیکھنے کی بھی کوشش کریں۔ اس لیے کہ اپنی نظروں سے تو دنیا کو ہر انسان دیکھتا ہی ہے۔ مختلف دنیا تو دوسروں کی نظروں سے ہی نظر آتی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close