لاہور – غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل نوجوان احسن رمضان سولہ سال کی عمر میں انٹرنیشنل بلیئرڈز اینڈ اسنوکر فیڈریشن (آئی بی ایس ایف) کی ورلڈ اسنوکر چیمپیئن شپ جیت چکے ہیں
احسن نہ تو کوئی عام کیوئسٹ ہیں اور نہ ہی عام فرد بلکہ ان کی زندگی کسی بھی حوالے سے عام نہیں ہے۔ ان کی زندگی کے سولہ سالوں کا ہر لمحہ مشکلات، پریشانیوں اور چیلنجز سے بھرا تھا۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ہر امتحان میں کامیاب رہے
وہ تین بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کی کم عمری میں ہی ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ بارہ برس کے ہوئے تو ان کے والد بھی انہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر دار فانی کوچ کر گئے، یوں ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہ رہا۔ احسن نے خاندانی کاروبار میں بھائیوں کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا تو ان کے بھائیوں نے بھی ان سے منہ موڑ لیا۔ ان کی بہنیں شادی شدہ ہیں اور اپنے اپنے گھر کی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہیں
اس بارے میں احسن نے بتایا ”میرے بھائی چاہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ دکان پر بیٹھوں۔ وہ مرغی کے گوشت کی دکان تھی۔ میں سارا دن وہاں بیٹھ کر مرغیاں ذبح کرکے ان کا گوشت فروخت نہیں کرسکتا تھا۔ پنجروں میں بند مرغیوں کی بُو سے ہی میرا جی متلانے لگتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ شاید مجھے مرغیوں سے الرجی ہے. اس وجہ سے میرے بھائیوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا“
صرف احسن کی ایک بہن ماریا اپنے چھوٹے بھائی کے حوالے سے فکر مند رہیں اور ان کی ہر ممکن مدد کرتی رہیں۔ اس دوران احسن نے خود پر انحصار کرنا سیکھ لیا تھا۔ وہ لاہور کے ایک اسنوکر کلب میں رہتے تھے اور سارا دن اسنوکر کھیلتے تھے۔ وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو انہوں نے آٹھویں جماعت کے بعد اسکول چھوڑ دیا تھا
احسن نے بتایا کہ انہیں یاد ہے کہ وہ سات یا آٹھ سال کے تھے، جب ان کے والد پول ٹیبل گھر لائے تھے ”میں آج جس پروفیشنل اسنوکر ٹیبل پر کھیلتا ہوں وہ اس سے چھوٹی ٹیبل تھی۔ لیکن میں اور پاپا اس پر کھیلتے تھے۔ بس میں اور پاپا۔ اب جب میں اس کھیل کے بارے میں سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ وہ بلیئرڈز سے ملتا جلتا کوئی کھیل تھا لیکن اس میں کم گیندیں تھیں۔ میرے دیگر بہن بھائیوں نے کبھی اس میں دلچسپی نہیں لی لیکن ہم دونوں کو اس کھیل میں بہت مزا آتا تھا“ یہ کہتے ہوئے احسن مسکرائے اور پھر خاموش ہوگئے
انہوں نے کہا ”میں کبھی اس کھیل کو ترک نہیں کرنا چاہتا تھا اور آج میں بس یہی کھیل کیھلتا ہوں۔ میں روز دس سے بارہ گھنٹے پریکٹس کرتا ہوں۔ میں اسنوکر کھیلتے ہوئے نہیں تھکتا۔ ماضی میں بھی کھیلتے ہوئے مجھے معلوم تھا کہ یہی وہ کام ہے، جو میں ساری زندگی کرنا چاہتا ہوں۔ چونکہ میں ہر وقت کھیلتا ہی رہتا تھا اور اپنا زیادہ وقت اسنوکر کلب میں ہی گزارتا تھا، اس وجہ سے مجھے وہیں رہنے کی اجازت دے دی گئی۔ ویسے بھی میرا کوئی گھر تو تھا نہیں، جہاں میں رہ سکوں۔ میں کلب میں ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتا تھا، جہاں میں صرف سونے جاتا تھا، باقی وقت میں بس کھیلتا رہتا تھا“
11 مارچ کو آئی بی ایس ایف ورلڈ اسنوکر چیمپیئن شپ جیتنے کے بعد لوگوں کو لگا کہ احسن اچانک ہی کہیں سے نمودار ہوئے اور مشہور ہو گئے، لیکن یہ تو احسن جانتے تھے کہ ان کی کامیابی اچانک نہیں تھی
انہوں نے مسرت کے ساتھ بتایا ”قومی اسنوکر چیمپیئن شپ میں شرکت کے لیے مجھے پنجاب کپ میں خود کو ثابت کرنا تھا اور یہ کام سننے میں جتنا آسان لگتا ہے، اتنا آسان ہے نہیں۔ قومی چیمپیئن شپ تک پہنچنے کے لیے آپ کو آٹھ بہترین کھلاڑیوں میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ میں نے اس میں بھی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور دوسرا بہترین کھلاڑی رہا“
انہوں نے بتایا کہ ”پھر چھ ماہ بعد ہونے والی قومی چیمپیئن شپ میں بھی میں دوسرے نمبر پر رہا۔ یوں ورلڈ اسنوکر چیمپیئن شپ میں جانے کے لیے میری راہ ہموار ہوگئی۔ اس کے لیے قطر جانے سے قبل میں کبھی پاکستان سے باہر نہیں گیا تھا“
اس سوال پر، کہ کیا وہ دوحہ میں سیر و تفریح کرسکے؟ انہوں جواب دیا ”شاید اگلی مرتبہ“
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ”میں صرف میچ کھیلتا تھا اور اپنے کمرے میں چلا جاتا تھا، پھر اگلے دن دوبارہ میچ کھیلنے آتا تھا۔ یعنی میں بس میچ کھیلتا تھا اور کمرے میں رہتا تھا لیکن ایسا ہمیشہ نہیں رہے گا۔ میں دنیا دیکھوں گا، اپنی زندگی کا لطف لوں گا لیکن ابھی نہیں۔“
احسن کہتے ہیں ”ان چیزوں کے لیے ابھی بہت وقت ہے، پہلے تو مجھے اس ایک جیت سے آگے بڑھنا ہے کیونکہ صرف ایک چیمپیئن شپ سے کچھ نہیں ہوتا۔ میں ابھی بہت سی فتوحات چاہتا ہوں“
احسن نے ہنستے ہوئے کہا ”بہت ساری چیمپیئن شپس اور بہت سارے کپ“
انہوں نے بتایا کہ پاکستان بلیئرڈز اینڈ اسنوکر فیڈریشن نے ان کے لیے ایک مصروف کلینڈر تیار کر رکھا ہے اور وہ اب بھی اپنے ملک کا نام روشن کرنے کے لیے پُرعزم ہیں ”میرے کوچ شاہد حسین ہیں، جو پاکستان کے معروف کیوئسٹ محمد آصف کے بھی کوچ رہ چکے ہیں۔ وہ اچھی رہنمائی کرسکتے ہیں اور میں محنت کرسکتا ہوں“
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس کھیل میں پیسہ بھی ہے؟ احسن نے جواب دیا ”جی ہاں اگرچہ اس میں اتنا پیسہ نہیں ملتا جتنا کرکٹرز کمالیتے ہیں لیکن پھر بھی اچھے پیسے ملتے ہیں۔ مجھے ورلڈ اسنوکر ٹائٹل جیتنے پر چار ہزار ڈالر ملے جبکہ اس سے قبل مقامی ٹورنامنٹس جیتنے پر مجھے چار لاکھ روپے مل چکے ہیں۔ مجھے ایک سال کے لیے کراچی کلب کی ممبر شپ بھی ملی ہے“
اس سوال پر کہ اگر کرکٹ میں زیادہ پیسہ ہے تو انہوں نے کرکٹ میں قسمت کیوں نہیں آزمائی؟ انہوں نے کہا ’مجھ میں اسنوکر کا ہی ٹیلینٹ ہے، میرے خیال میں مجھے یہی کھیلنا چاہیے‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ دیگر چیزوں کے بارے میں کیا خیال ہے۔ تعلیمی سفر پورا ہونے اور اسنوکر میں کامیابی کے بعد زندگی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ شادی کے بارے میں کیا ارادہ ہے؟ احسن نے ہنستے ہوئے جواب دیا ”میرے پاس اس کے لیے اجازت نہیں“
اس سوال پر کہ ان کے بھائیوں نے تو انہیں الگ کردیا ہے اور ان کی بہنیں اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں تو پھر انہیں کس کی اجازت کی ضرورت ہے؟ تو احسن نے جواب دیا ”میری…. میں نے ابھی تک خود کو ان سب چیزوں کے بارے میں سوچنے کی بھی اجازت نہیں دی۔ پہلے مجھے اپنا اور اپنے ملک کا نام بنانے دیں۔ دیگر دنیاوی چیزوں کے لیے ابھی بہت وقت ہے۔ میں ابھی سولہ سال کا ہوں۔ مجھے دلہن سے زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے“