انڈیانا – کسی کو بھی غلہ منڈی میں سیریل کلر سے ملنے کی امید نہیں تھی تاہم لاتعداد امریکی مڈویسٹرن گاہک ان سے مل چکے تھے
منگل کو کئی ریاستوں میں اس وقت حیرت کی لہر دوڑ گئی، جب پولیس نے 1980ع کی دہائی میں کم از کم تین خواتین کے ریپ اور قتل میں ملوث ایک مشتبہ شخص کا نام جاری کیا
پولیس نے ہیری ایڈورڈ گرین ویل کی بطور قاتل شناخت کی، جن کی موت 2013ع میں آئیووا میں اڑسٹھ سال کی عمر میں ہوئی تھی
تیس سال سے زیادہ عرصہ پہلے موٹل میں کام کرنے والی تین نوجوان خواتین کو قتل کرنے والے اس نامعلوم حملہ آور کو I-65’ کلر‘ یا ’ڈیز اِن کلر‘ کہا جاتا تھا
2013ع میں ان کی موت کے اعلان میں کہا گیا تھا کہ گرین ویل ایک خاندان سے محبت کرنے والے، کسان، فلاحی کام کرنے والے اور ایک فیاض شخص تھے۔ ان کی موت آئیووا میں کینسر کے ساتھ جنگ لڑتے ہوئے ہوئی۔ ان کے بہت سے دوست ہیں، جو ان کے کھرے رویے اور کسی کی بھی مدد کرنے کے لیے تیار رہنے کے جذبے کو پسند کرتے ہیں
ہیری ایڈورڈ گرین ویل کو ایک سیریل کلر کے طور پر نامزد کیے جانے سے کئی سال پہلے ان کے موت کے اعلان میں مزید کہا گیا: ’ان کی روح اپنے اچھے کاموں کی بدولت بہت سے لوگوں میں زندہ رہے گی۔‘
لوئس ول میں پیدا ہونے ولے اور ڈیڑھ درجن سے زیادہ بہن بھائیوں میں سے ایک، جن میں سے کئی کا انتقال بھی ہو چکا ہے، گرین ویل نے 2010ع میں ریٹائر ہونے سے پہلے تیس سالوں تک عوامی تحفظ کے ادارے ’کینیڈین پیسیفک ریل روڈ‘ کے لیے کام کیا
لیکن ان کی یہ شخصیت منگل کو ملٹی ایجنسی کی پریس کانفرنس میں پیش کیے گئے پورٹریٹ کے بالکل برعکس ہے، جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ ڈی این اے کی مدد سے گرین ویل کو 1987ع میں وکی ہیتھ کے قتل اور 1989ع میں جین گلبرٹ اور پیگی گل کے قتل میں ملوث پایا گیا
حکام کے مطابق ہیری ایڈروڈ گرین ویل، جو اپنی موت کے وقت اڑسٹھ برس کے تھے، کی انڈیانا اور کینٹکی سرحد کے قریب ہونے والی قتل کی ان تینوں وارداتوں میں ملوث ہونے کی تصدیق جینیاتی تحقیق کے ذریعے کی گئی تھی
انڈیانا اسٹیٹ پولیس نے منگل کو جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں کہا: ’اس تکنیک میں کرائم سین سے ملنے والے ڈی این اے پروفائل کو جینیاتی ڈیٹا بیس پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے تاکہ مجرم کے رشتہ داروں یا ان کے خاندانی شجرے کی شناخت کی جاسکے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا: ’اس عمل کو بروئے کار لاتے ہوئے گرین ویل کا ڈی این اے خاندان کے ایک قریبی فرد کے ساتھ میچ ہوگیا، جس سے اس بات کا تعین کیا گیا کہ گرین ویل کے ان حملوں کا ذمہ دار ہونے کا امکان 99.99 فیصد سے زیادہ ہے‘
گرین ویل کے رشتہ داروں نے اس حوالے سے کسی بھی قسم کے سوالات کا جواب نہیں دیا
یاد رہے کہ I-65 کلر کا شکار ہونے والی پہلی خاتون اکتالیس سالہ وکی ہیتھ تھیں، جو دو بچوں کی ماں تھیں اور قتل سے کچھ عرصہ قبل ہی ان کی منگنی ہوئی تھی۔ ان کی لاش کینٹکی کے الزبتھ ٹاؤن میں سپر 8 موٹل کے پیچھے ایک کچرے کے ڈبے کے پاس پائی گئی
21 فروری 1987ع کو انہیں 38 کیلیبر پستول کے ذریعے سر میں دو گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا
جبکہ قاتل کی دوسری اور تیسری شکار دونوں ایک ہی روز ماری گئیں، یعنی 3 مارچ 1989
چوبیس سالہ میری پیگی گل انڈیانا کے قصبے میرل وِل کے ایک ڈیز اِن موٹل میں نائٹ آڈیٹر کے طور پر کام کرتی تھیں۔ ان کی لاش موٹل کی عمارت کی پارکنگ لاٹ میں گزرنے والے ایک موٹرسائیکل سوار نے دیکھی تھی
چونتیس سالہ جین گلبرٹ بھی دو بچوں کی ماں تھیں، جو ریمنگٹن ڈیز ان میں پارٹ ٹائم آڈیٹر کے طور پر کام کرتی تھیں۔ ان کو بھی اسی روز 22 کیلیبر پستول سے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ حملہ آور نے دونوں موٹلز کو لوٹا تھا اور لوٹی ہوئی رقم کی مجموعی مالیت چار سو چھبیس ڈالر تھی
انڈیانا کے شہر کولمبس کے ڈیز ان موٹل میں رات کی شفٹ میں کام کرنے والی چوتھی خاتون کو 1990ع میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں چاقو مارا گیا لیکن وہ موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں
ان کا نام جین ڈو تھا، انہوں نے پولیس کو ایک حملہ آور کا جامع خاکہ بتایا، جس کے مطابق ان کے بال چکنے تھے، ان کی آنکھوں کا رنگ ہلکا سبز اور ان کی داڑھی تھی
یہ واضح نہیں ہے کہ گرین ویل اپنی بقیہ زندگی سزا سے کیسے بچے رہے یا آیا انہوں نے مزید خواتین کو نشانہ بنایا یا نہیں
انڈیانا اسٹیٹ پولیس کے سپرنٹنڈنٹ ڈگ کارٹر نے منگل کو کہا: ’وہ جانور جس نے یہ سب کچھ کیا وہ اب زندہ نہیں ہے۔ میں اس کا نام نہیں لوں گا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں آج متاثرین کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس کمرے میں اس تحقیق میں شامل وہ اہلکار موجود ہیں، جو کئی نسلوں سے کسی نہ کسی شکل میں اس تحقیق پر کام کرتے رہے ہیں۔ ان پر ہماری شکر گزاری کا قرض ہے جسے ہم کبھی بھی ادا نہیں کر سکتے۔‘
منگل کی کانفرنس میں موجود متاثرین کے خاندانوں کی طرف سے ان کی کوششوں کو سراہا گیا
متاثرہ خاتون جین گلبرٹ کی بیٹی کمبرلی گلبرٹ رائٹ نے اس موقعے پر کہا: ’میں اس بات پر یقین کرنا چاہتی ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک جو اسے بطور انصاف یا کیس بند ہونے کے طور پر بیان کر سکتا ہے، طویل عرصے سے اندھیرے میں رہنے والے حملہ آور کا چہرہ بے نقاب ہونے کے بعد اب ہمارے زخم بھر گئے ہیں۔‘
ایف بی آئی انڈیاناپولس کے سپیشل ایجنٹ انچارج ہربرٹ جے اسٹیپلٹن نے کہا کہ ’ایسا نہیں کہ تفتیش میں فعالیت کی کمی کی وجہ سے یہ مقدمات ان تمام سالوں میں حل نہیں ہوئے جب کہ تفتیش کاروں نے ملک بھر میں مسلسل لیڈز کا سراغ لگایا اور ان جرائم کے ذمہ دار شخص کی شناخت کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اب تکنیکی ترقی اور مضبوط اور باہمی تعاون پر مبنی شراکت داریوں کے ذریعے ہم اس شخص کی شناخت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور امید ہے کہ وکی، پیگی اور جین اور زندہ بچ جانے والی خاتون کے خاندانوں کے زخم بھرنا شروع ہو جا ئیں گے اور یہ کیس بند ہو جائے گا۔‘