کراچی – عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ ہر سال ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے پر ہلاک ہو جاتے ہیں، جن میں ستر لاکھ سے زیادہ وہ لوگ شامل ہیں، جو فضائی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں
عالمی ادارۂ صحت کے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ عملی طور پر پوری دنیا غیر صحت مند ہوا میں سانس لے رہی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے فضائی آلودگی کی سطح کو کم کرنے کے لیے ایک بار پھر روایتی ایندھن کے استعمال کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے
ڈبلیو ایچ او کے شعبہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور صحت میں تکنیکی افسر سوفی گومی کہتی ہیں ”اس سے اربوں لوگوں کی صحت کوخطرہ ہے۔“
انھوں نے کہا کہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ مشرقی بحرہ روم، جنوب مشرقی ایشیائی اور افریقی خطوں میں ہوا کا معیار سب سے زیادہ ناقص ہے
سوفی گومی نے کہا کہ ستر لاکھ اموات میں سے زیادہ تر کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ زیادہ آمدنی والے ممالک متاثر نہیں ہوتے
انہوں نے کہا کہ ہم صحت پر فضائی آلودگی کے اثرات کا حساب لگانے کے لیے اس سے ہونے والی اموات کے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہیں، حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ بیماری کے لیے جو وجوہات پیدا کرتی ہیں، انہیں بھی شمار کیا جانا چاہیے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے بہت سے اخراجات ہوتے ہیں، جس کا ضروری نہیں کہ اموات کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہو
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہوا کے بہت سے ذرات کی کم سطح سے بھی بڑا نقصان ہو رہا ہے۔آلودہ فضا سے ذرات پھیپھڑے اور خون میں داخل ہوجاتے ہیں، یہ دل کی بیماری، فالج اور سانس لینے میں مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نائٹروجن آکسائیڈ یا این او ٹو دمہ اور سانس کی دیگر بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے
ڈبلیو ایچ او کے شعبہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور صحت کی ڈائریکٹر ماریہ نیرا کا کہنا ہے کہ ذرات جسم کے تقریباً ہر عضو کو متاثر کرسکتے ہیں۔ وہ اسے صحت کا ایک بڑا مسئلہ قرار دیتی ہیں، جو کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اسی لیے وہ کہتی ہیں کہ فضائی آلودگی کے اسباب سے بھی اسی طرح نمٹا جانا چاہیے
نیرا نے کہا کہ ہمیں توانائی کے صاف، جدید ، پائیدار اور قابل تجدید ذرائع کی طرف منتقلی کو تیز کرنے کی ضرورت ہے
انھوں نے کہا ” اگر ہم اپنی صحت کی حفاظت چاہتے ہیں تو میرے خیال میں سب اس بات پر متفق ہوں گے کہ توانائی پیدا کرنے کے لیے فوسل ایندھن پر انحصار ختم کرنا ہوگا“
زندہ افراد کے پھیپھڑوں میں پلاسٹک کے باریک ذرات کی موجودگی کا انکشاف
ایک تحقیق میں پہلی مرتبہ زندہ افراد کے پھیپھڑوں میں پلاسٹک کے باریک ذرات موجود ہونے کا انکشاف ہوا ہے
بدھ کو برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ذرات حاصل کیے گئے تقریباً تمام نمونوں میں پائے گئے
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ’پلاسٹک ذرات کی آلودگی اب دنیا بھر میں عام ہو چکی ہے اور ’صحت پر اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔‘
سرجری سے گزرنے والے تیرہ مریضوں کے پھیپھڑوں سے ٹشوز کے نمونے لیے گئے، جن میں سے گیارہ میں یہ ذرات پائے گئے۔ ان میں سے سب سے عام پولی پراپیلین کے ذرات تھے جو پلاسٹک بیگز اور پلاسٹک پائپس میں پائے جاتے ہیں
پہلی بار مارچ میں انسانی خون کے اندر مائیکرو پلاسٹک ذرات پائے گئے۔ ماہرین نے دیکھا کہ یہ ذرات پورے جسم میں سفر کرتے ہیں اور کسی بھی اعضا میں جگہ بنا سکتے ہیں
ابھی ان ذرات کے صحت پر ہونے والے اثرات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکا، لیکن ماہرین کو تشویش ہے کہ مائیکرو پلاسٹک انسانی خلیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں
جب کہ فضائی آلودگی میں پائے جانے والے ذرات کے بارے میں پہلے ہی علم ہو چکا ہے کہ یہ جسم میں داخل ہو کر وقت سے پہلے اموات کا سبب بنتے ہیں
1998ع میں امریکا میں پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ایک سو سے زائد افراد کے پوسٹ مارٹم کے دوران پلاسٹک اور پودوں کے ریشے پائے گئے تھے.