واشنگٹن – پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے مستقبل سے متعلق امریکا میں موجود سیکیورٹی اور سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ معاملات کو مزید بگڑنے سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے
تجزیہ کار اس کے لیے 2 اپریل کو پاکستان کے دارالحکومت میں منعقد ہونے والے ‘اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ’ سے خطاب میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خطاب کا حوالہ بھی دیتے ہیں، جس میں انہوں نے پاک امریکا تعلقات کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ انہوں نے بعض امور میں مغربی ممالک کے پاکستان کے لیے عدم تعاون پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا
نیو لائنز انسٹیٹیوٹ فار اسٹرٹیجی اینڈ پالیسی کے انالیٹکل ڈویلپمنٹ کے ڈائریکٹر کامران بخاری کہتے ہیں ”پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی جانب سے دھمکی کے الزام کے بعد سے ‘ڈیمج کنٹرول’ یعنی حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے
انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ کی جانب سے روس کی مذمت اور پاکستان امریکا تعلقات پر زور دینے سے انہوں نے امریکا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور دونوں ممالک کے مفادات مشترک ہیں
ان کے بقول جنرل باجوہ کی تقریر سے یہ پیغام دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ امریکا اس وقت پاکستان میں درپیش سیاسی طوفان پر زیادہ دھیان نہ دے، کیوں کہ یہ گزر جائے گا
جنرل باجوہ نے 2 اپریل کو اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ دیرپا اور بہترین اسٹرٹیجک تعلقات رہے ہیں، جو پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے۔ پاکستان چین اور امریکا دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں وسعت کا خواہاں ہے، جو اس قیمت پر نہ ہوں جس سے کسی ایک ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات متاثر ہوتے ہوں
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان مسلسل یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ امریکا کی جانب سے ان کی حکومت گرانے کے لیے دھمکی دی گئی تھی۔ تاہم امریکا ان الزامات کی تردید کرتا ہے
ایسے میں جب پاکستان کے وزیرِ اعظم امریکا پر الزامات عائد کر رہے ہیں، وہیں فوج کے سربراہ پاک امریکا تعلقات کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ فار پیس میں جنوبی ایشیا کے لیے سینئر ایڈوائزر ڈینئل مارکی کہتے ہیں ”میرے خیال میں جنرل باجوہ کے حالیہ بیان کی وجہ سے پاک امریکا تعلقات میں برف پگھلنے کے امکانات نہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال سے پہلے ہی دباؤ پایا جاتا تھا“
لیکن انہوں نے بھی کامران بخاری کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن جنرل باجوہ کے بیان کو حالات مزید خراب ہونے سے بچانے کی کوشش کے طور پر دیکھے گا
امریکی ادارے سینٹر فار اے نیو امیرکن سیکیورٹی میں انڈو پیسیفک سیکیورٹی پروگرام کی ڈائریکٹر لیزا کرٹس کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان میں جاری سیاسی بحران کا پاک امریکا تعلقات پر کم ہی اثر پڑے گا
ان کے بقول پاکستان کے نظام حکومت میں پاکستانی فوج کے پاس بہت زیادہ طاقت ہے۔ پاکستان کے سویلین سیاسی سیٹ اپ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا ان مسائل پر بہت ہی معمولی اثر پڑتا ہے، جن سے امریکہ کا کوئی بھی تعلق بنتا ہو جیسا کہ بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات
جنرل باجوہ نے اپنے خطاب میں اس بات کی بھی نشاندہی کی تھی کہ پاکستان کے ترکی سے ہیلی کاپٹرز لینے کے معاملے میں ان ہیلی کاپٹروں کے امریکی انجن کے استعمال کے لیے امریکا سے تھرڈ پارٹی کلئیرنس درکار تھی۔ امریکا اور مغربی ممالک نے یہ کلئیرنس دینے میں تعاون نہیں کیا تھا
اس معاملے پر کامران بخاری کہتے ہیں جنرل باجوہ نے امریکی قیادت پر نہ صرف یہ واضح کیا تھا کہ ہم تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ کیسے تعلقات کی بہتری کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے
ان کے خیال میں فوجی ساز و سامان کی خرید و فروخت میں اجازت نامے نہ دینا، ایسے ہی اقدامات کسی بھی ملک پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے مطابق جب مذاکرات شروع ہوں گے تو پھر اس قسم کی اجازتیں بھی دی جا سکتی ہیں
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بحالی کے سوال پر کامران بخاری نے کہا کہ یہ عمل سفارتی سطح پر ہی شروع ہوسکتا ہے اور اس کا آغاز پاکستان میں نئی حکومت کے آنے کے بعد ہی ہوسکے گا
جنرل باجوہ کی جانب سے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ اہمیت دینے کے سوال پر ڈینئل مارکی کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے زیادہ ہمدردی رکھتا ہے۔ لیکن بقول ان کے، پچھلے بیس برسوں میں واشنگٹن کی ان دونوں ملکوں سے متعلق پالیسی کو ‘ڈی ہائفینیشن’ کہا جا سکتا ہے، یعنی اس کا مقصد دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا ہے
ان کے بقول امریکا اور پاکستان کے مستقبل کے لیے بہتر راستہ ڈھونڈنے میں ناکامی کی بہت سی وجوہ ہیں، جن میں پاکستان کے اپنے فیصلے بھی شامل ہیں
ڈینئل مارکی کے خیال میں مستقبل میں پاکستان کو چین اور روس کے ساتھ اچھے تعلقات اور امریکا سے دوری سے متعلق خطرات اور فوائد سے متعلق فیصلے کرنا ہوں گے۔لیکن کیا امریکا سے دوری اس (پاکستان) کے مفاد میں ہے؟۔ اس کا جواب پاکستان کے پاس ہی ہے.