بھارت: پولیس کی جانب سے صحافی اور سماجی کارکنوں کے کپڑے اتروانے کا معاملہ

ویب ڈیسک

مدھیہ پردیش – بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ایک پولیس اسٹیشن میں ایک صحافی سمیت چند افراد کو حراست میں لے کر کپڑے اتارنے پر مجبور کیے جانے کا واقعہ پیش آیا ہے

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما کے خلاف خبریں شائع کرنے پر مدھیہ پردیش کی پولیس نے صحافیوں کو تھانے میں بلا کر نیم برہنہ کر دیا تھا

بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق یہ واقعہ جمعرات کو مدھیہ پردیش کے ضلع سدھی میں پیش آیا

پولیس کے ایک سینیئر عہدے دار نے بتایا کہ جمعرات کو گرفتار کیے گئے افراد کی نیم برہنہ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر پولیس کے دو اہلکاروں کا تبادلہ کر دیا گیا ہے

یہ تصاویر 2 اپریل کی رات تقریباً 8.30 بجے سدھی کوتوالی کی ہیں، جن میں نظر آنے والے آٹھ نیم برہنہ لوگوں میں سے دو مقامی صحافی اور باقی ڈرامہ آرٹسٹ ہیں

دو مقامی صحافی اور کچھ ایکٹوسٹس اندراوتی ڈراما اسکول کے ڈائریکٹر نیرج کندر کی گرفتاری کے خلاف دو اپریل کو کوتوالی پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج کر رہے تھے، جس کے بعد مبینہ طور پر پولیس نے ان سب کو پکڑا اور ان کے کپڑے اتار کر تھانے میں پریڈ کرائی

کوتوالی پولیس اسٹیشن کے انچارج منوج سونی کے مطابق نیرج کندر کو حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقامی رکن قانون ساز اسمبلی ناتھ شُکلا کے خلاف فیس بک پر ’توہین آمیز‘ پوسٹس لگانے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا

اس کے بعد ایکٹوسٹس کے ایک گروپ نے مقامی ’یوٹیوب صحافی‘ کانشک تیواری کے ساتھ مل کر پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج کیا اور ایم ایل اے ناتھ شکلا اور وزیراعلیٰ شوراج سنگھ چوہان کے خلاف نعرے لگائے

پولیس آفیسر منوج سونی کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو اس لیے حراست میں لیا گیا کہ وہ بلااجازت مظاہرہ کر کے امن عامہ کو خراب کر رہے تھے اور پھر انہیں اگلے روز 3 اپریل کو رہا کر دیا گیا

صحافیوں اور دیگر سماجی کارکنوں کو تھانے میں نیم برہنہ کرنے کے واقعے کی ہر طرف سے مذمت کے بعد پولیس انسپکٹر منوج سونی نے ایک وڈیو بیان میں مضحکہ خیز دلیل دیتے ہوئے کہا کہ حراست میں لیے گئے افراد کے کپڑے اس لیے اتروا لیے گئے تھے کہ کہیں وہ ان کے ذریعے پھانسی پر لٹک کر خودکشی نہ کر لیں

تصویر میں نظر آنے والے صحافی کنشک تیواری کا کہنا ہے ”اس تصویر میں نظر آنے والے لوگوں میں ہم دو صحافی ہیں، ایک میں اور ایک میرا کیمرہ مین۔ باقی مقامی تھیٹر ورکرز اور آر ٹی آئی کارکن ہیں، جو ایک معاملے میں تھیٹر آرٹسٹ نیرج کندیر کی گرفتاری کی مخالفت کر رہے تھے۔“

معاملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کنشک نےکہا ”مقامی پولیس نے نیرج کندیر کو مقامی ایم ایل اے کیدار ناتھ شکلا کے خلاف جعلی فیسبک پروفائل بنا کر توہین آمیز ریمارکس کے الزام میں گرفتار کیا۔ تھیٹر کے کارکن اس کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ میں اپنے کیمرہ مین کے ساتھ وہاں کوریج کے لیے گیا تھا“

کنشک نے الزام لگایا کہ وہ مقامی بی جے پی ایم ایل اے کیدارناتھ شکلا کے خلاف لکھتے رہے ہیں، اس لیے ان کے اشارے پر ہی پولیس نے تھیٹر کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ انہیں بھی حراست میں لے لیا اور ان کی پٹائی کی

کنشک نے کہا کہ ‘تھیٹر کے کارکن احتجاج کر رہے تھے۔ جب پولیس نے انہیں حراست میں لیا تو میں ان کی کوریج کر رہا تھا۔ پولس نے مجھے میرے کیمرہ مین سمیت پکڑ لیا۔ ہم سب کو نیم برہنہ کر کے تھانے میں جلوس میں نکالا گیا۔ بعد میں تھانہ انچارج کے کیمرے میں یہ تصویر لی گئی۔‘

کنشک کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد انھوں نے کئی بار پولیس کے اس سلوک کی شکایت کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی

اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے سدھی ضلع کے ایس ایس پی مکیش کمار کا کہنا ہے کہ ‘نیرج کندیر ایک تھیٹر آرٹسٹ ہیں جن کی گرفتاری کے بعد لوگ احتجاج کرنے آئے اور تھانے کے باہر قابل اعتراض نعرے لگا رہے تھے، پولیس نے ان کو سمجھایا لیکن انہوں نے پولیس کی ایک نہ سنی۔’

رات گئے مظاہرین کو بھی حراست میں لیا گیا اور انہیں 151 کے تحت قانونی طور پر گرفتار کیا گیا

حراست میں لیے گئے افراد کو نیم برہنہ کرنے اور ان کی تصاویر لینے کے سوال پر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کا کہنا ہے کہ ’یہ تصاویر میرے علم میں ہیں اور ان کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ یہ تصاویر کن حالات میں لی گئیں۔’

جو تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے اس میں صحافی اور دیگر افراد نیم برہنہ دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ تصویر انسانی اقدار کے بھی خلاف ہے۔ تاہم، براہ راست پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ یہ ‘کس اصول کے تحت’ ہوا

پولیس سپرنٹنڈنٹ مکیش کمار کا کہنا ہے کہ ‘یہ کن حالات میں ہوا ہے، کن اصولوں کے تحت کیا گیا ہے، ہم اس کی تحقیقات کر رہے ہیں، اگر یہ اصول کے خلاف ہے تو ہم اسٹیشن انچارج سمیت دیگر پولیس والوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔’

سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کا کہنا ہے کہ اگر رپورٹ میں پولیس اہلکار قصور وار پائے گئے تو سخت کارروائی کریں گے

دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ مظاہرین کی ’زیر جامہ پہنے تصاویر‘ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس آفیسر منوج سونی اور سب انسپکٹر ابھیشک سنگھ کو فیلڈ ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا

اس سوال پر کہ کیا تصویروں میں موجود لوگ صحافی ہیں، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس مکیش کمار نے کہا کہ ‘جہاں تک میں جانتا ہوں، کنِشک مقامی یوٹیوبر ہیں، جو یوٹیوب پر خبریں ڈالتے ہیں۔’

کنشک تیواری کا الزام ہے کہ پولیس نے مقامی ایم ایل اے کے کہنے پر ایسا کیا۔ اس سوال پر کہ کیا پولیس نے کسی اثر و رسوخ میں یہ کارروائی کی، پولیس سپرنٹنڈنٹ کا کہنا ہے کہ ‘یہ الزام بے بنیاد ہے۔ کنشک تیواری کے خلاف پہلے سے ہی ایک کیس ہے جس کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ 2021 میں وہ ایک ہاسٹل میں گھس گیا تھا اور اس کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 452 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس واقعہ کی تفتیش جاری ہے، تاہم انہیں کسی بھی معاملے میں گرفتار نہیں کیا گیا۔’

کنشک تیواری نے مقامی بی جے پی ایم ایل اے کیدارناتھ شکلا پر پولیس کو استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔ کنشک کا الزام ہے کہ وہ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے ایم ایل اے کے خلاف خبریں دیتے ہیں، اسی لیے ان کو نشانہ بنایا گیا

تاہم کیدارناتھ شکلا ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایم ایل اے شکلا نے کہا کہ ‘صحافیوں کے خلاف کوئی واقعہ نہیں ہوا، کسی صحافی نے الزامات نہیں لگائے، وہ شخص صحافی نہیں ہے، آپ اسے صحافی نہ کہیں۔ اس سے زیادہ میں اس معاملے میں کچھ نہیں کہوں گا۔’

جب مذکورہ ایم ایل اے سے پوچھا گیا کہ کیا یہ واقعہ تھانے میں ہوا ہے یا نہیں تو انھوں نے کہا کہ یہ واقعہ ہوا ہے لیکن کسی صحافی کے ساتھ نہیں ہوا

کنشک کا دعویٰ ہے کہ وہ ‘ایم پی سندیش نیوز’ کے نام سے یوٹیوب چینل چلاتے ہیں، جس کے ایک لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں۔ کنشک کا دعویٰ ہے کہ وہ قومی میڈیا سے بھی وابستہ رہے ہیں

دوسری جانب صحافیوں کی متعدد تنظیموں اور سول سوسائٹی نے بھارت کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں صحافیوں کو’سبق سکھانے کے لیے‘ ایک تھانے میں نیم برہنہ کر دینے کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی شیو راج سنگھ چوہان حکومت نے واقعے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے

صحافیوں کی ملک گیر تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے کہا کہ مدھیہ پردیش کے سِدھی ضلع کی پولیس نے صحافیوں کو جس غلط طریقے سے گرفتار، برہنہ کیا اور ان کی بے عزتی کی، وہ انتہائی افسوس ناک اور شرمناک ہے

ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سنجے کپور کا کہنا ہے ”اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پولیس نے صحافیوں کی نہ صرف نیم برہنہ تصویریں اتاریں بلکہ ان کو شرمندہ اور بے عزت کرنے کے لیے ان تصویروں کو سوشل میڈیا پر جاری بھی کیا۔‘‘

سنجے کپور کا کہنا تھا کہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں صحافیوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا ”گو کہ وزیر اعلیٰ نے دو پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے اور اس ہولناک واقعے کی انکوائری کا حکم بھی دیا ہے لیکن صحافیوں پر پولیس اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے حملے اور ڈرانے دھمکانے کے بڑھتے ہوئے واقعات انتہائی تشویش ناک ہیں اور ان پر فوراً روک لگانے کی ضرورت ہے۔‘‘

کانگریس کے رہنما اجے سنگھ نے اپنے ایک بیان میں صحافی کانشک تیواری کے ساتھ ہوئے سلوک کی مذمت کی ہے

پولیس کا صحافیوں کے ساتھ یہ رویہ ناصرف پولیس کی دہشت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بی جے پی کی میڈیا سے متعلق سوچ کو بھی آشکار کرتا ہے۔ صحافیوں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ صحافیوں اور بالخصوص قصبات اور دور افتادہ علاقوں کے صحافیوں کو اکثر پولیس کے ہاتھوں زیادتی اور توہین آمیز سلوک کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ ورلڈ فریڈم آف پریس انڈکس کے مطابق 180 ملکوں کی فہرست میں بھارت 142 ویں مقام پر ہے اور اسے دنیا میں صحافیوں کے لیے ‘انتہائی خطرناک ممالک‘ میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close