زباں فہمی: کیا پنچائتی نظام آریاؤں نے متعارف کروایا تھا

عبدالخالق بٹ

بکھیرتے رہو صحرا میں بیج الفت کے
کہ بیج ہی تو ابھر کر شجر بناتے ہیں
دشتِ نفرت کو صحنِ الفت میں بدلنے کا نسخہ سُجھانے والے شاعر ’جمیل الدین عالی‘ ہیں۔ ہم ان کے عالی جذبات کی قدر کرتے اور کچھ ’بیج‘ کا ذکر کرتے ہیں

’بیج‘ کی اصل سنسکرت کا ’بیجا/ बीज ‘ ہے۔ غور کریں تو ’بیج‘ کو صفاتی نام پائیں گے۔
چوں کہ عام طور پر ’بیج‘ پھلوں کے ’بیچ‘ میں ہوتے ہیں، قیاس کہتا ہے کہ ’بیچ‘ میں ہونے کی رعایت سےمعمولی تغیر کے ساتھ اسے ’بیج‘ کہا گیا ہے

اس بات کو لفظ ’حارث‘ اور ’حارس‘ کی مثال سے سمجھیں۔ ’حارث‘ عربی میں کسان کو جب کہ ’حارس‘ چوکیدار کو کہتے ہیں۔ ایک فصلوں کی اور دوسرا گھروں اور بازار کی حفاظت کرتا ہے۔
’حفاظت‘ کے اس مشترکہ مفہوم میں موجود فرق کو ان لفظوں میں جزوی تبدیلی سے واضح کیا گیا ہے

دراصل ’چ‘ اور ’ج‘ قریب المخرج حروف ہیں، یہ قربت ان کی صوت اور صورت دونوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں حروف باہم بدل جاتے ہیں۔ اسی مماثلت اور مشابہت کے سبب ’چ‘ کو ’جیم فارسی‘ اور ’جیم اعجمی‘ بھی کہا جاتا ہے

عباسی عہد میں سنسکرت سے عربی میں ترجمہ ہونے والی مشہور کتاب ’کلیلہ و دمنہ‘ کا اصل نام ’پنچ تنتر/ پنچا تنترا‘ ہے۔ اس نام کا جُز اول ’پنچ‘ وہی ہے، جو اردو میں ’پانچ‘ کہلاتا ہے

اب سنسکرت کے ’پنچ‘ کے ساتھ فارسی کے ’پنج‘ پر غور کریں تو دونوں کی اصل ایک ہی پائیں گے

سنسکرت کے ’پنچ‘ کے مقابلے میں فارسی کے ’پنج‘ اور اس سے بننے والی دسیوں تراکیب اردو میں رائج ہیں مثلاً ’پنج وقتہ نماز اور پنج کلیان‘ وغیرہ۔ اسی ’پنج‘ سے ’پنجہ‘ بھی ہے، جس میں پانچ انگلیوں کی رعایت موجود ہے۔
فارسی ’پنج‘ سے ’پنجہ‘ کے مقابلے میں انگریزی کے Punch یعنی گھونسا پر غور کریں، سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ انگریزی Punch کی اصل سنسکرت کا پنچ/Punch ہے، اور اس میں پانچوں انگلیوں کا اتحاد نمایاں ہے

ہندوستان آنے والے آریا قبائل اپنے ساتھ ’پنجائتی نظام‘ بھی لائے، دیہی بنیادوں ہر قائم فوری انصاف کے اس نظام کو ’پنجایت‘ کا نام اس کے پانچ ارکان کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ اور اسی نسبت سے پنچایت کا سربراہ ’سرپنچ‘ کہلایا۔ پنجایت کے ارکان کی تعداد طاق (پانچ) رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ فیصلہ ہر صورت میں اکثریتی رائے سے ہو

حرف ’چ‘ اور ’ج‘ کے باہم بدلنے کی رعایت سے اگر کوئی سنسکرت کی ’مرچ‘ اور عربی کے ’مرج‘ میں اشتراک ڈھونڈے گا تو غلطی کرے گا۔ اس لیے کہ ان دونوں الفاظ میں کسی بھی درجے میں کوئی معنوی اشتراک نہیں ہے

عربی میں ’مَرَجُ‘ کے معنی چراگاہ کے ہیں، جب کہ جیم کے زبر کے ساتھ ’مَرَجَ‘ کے معنی ’ملنا‘ کے ہیں۔ اسی سے لوگوں کا ملا جُلا یا مخلوط ہونا ’مَرَجَ النَّاسُ مَرَجاً‘ کہلاتا ہے

اب اس ’مَرَجَ‘ بمعنی ملنا کو سامنے رکھیں اور انگریزی merge اور merging پر غور کریں، یہ دونوں ضم ہونا، اکٹھا ہونا، مدغم ہونا اور متحد ہونا کے معنی کے ساتھ اپنے عربی الاصل ہونے کا پتا دے رہے ہیں

اب ’مرچ‘ کا ذکر ہو جائے۔ عربی میں مرچ کو ’فِلفِل‘ کہتے ہیں۔
اس ’فِلفِل‘ کی اصل ’پیپل‘ ہے۔ یہ ’پیپل‘ وہ درخت نہیں جو برگد کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، بلکہ جنوبی ہند میں پائی جانے والی ایک مشہور بیل دار بوٹی کا ’پھل‘ ہے۔ یہ خام شہتوت سے مشابہ لیکن اس سے چھوٹا اور باریک ہوتا ہے، جو خشک ہونے پر سیاہی مائل خاکستری ہو جاتا ہے۔ جب کہ اس کا ذائقہ سیاہ مرچ کی طرح تیز و تلخی مائل ہوتا ہے۔
یہ پیپل جسے پیپلی/ پپلی بھی کہا جاتا ہے، پنسار کے یہاں عام دستیاب ہوتی ہے. دلچسپ بات یہ ہے کہ جنوبی ہند کی ’پیپل‘ عربی میں ’فلفل‘ ہے، تو فارسی میں ’پلپل‘ پکاری جاتی ہے اور متعلق ’مرچ‘ کے معنی دیتی ہے۔ اسی لیے عربی میں مرچیلا یا چٹاپٹا ’مُفَلْفَل‘ پکارا جاتا ہے، جب کہ مرچ کوٹنا ’ذَجَّ الفُلْفُلَ‘ کہلاتا ہے

اب عربی کے ’فلفل‘ اور فارسی کے ’پلپل‘ کے پہلو بہ پہلو انگریزی Pepper پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کی اصل بھی جنوبی ہند کی خاص مرچ ’پیپل‘ ہے۔ اس خاص مرچ کو انگریزی میں long pepper کہتے ہیں، جب کہ عربی کی طرح انگریزی میں محض Pepper کبھی سیاہ مرچ اور کبھی فقط مرچ کو کہتے ہیں، اس کو PEPPER AND SALT کے محاورے سے بھی سمجھا جا سکتا ہے.

بشکریہ: اردو نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close